اشاعت ِ اسلام کس طرح ہو؟

مسلمانوں کا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ اسلام اپنی خوبیوں کے باعث دنیا میں تیزی سے پھیلتا رہا ہے، اور یہ یقین کچھ بے بنیاد بھی نہیں۔ آج بھی جب کہ امریکی صدر بش نے جنگِ صلیب و ہلال کا منظر پیدا کردیا ہے، امریکہ و یورپ میں اسلام پھیل رہا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو اس پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے، عیسائی مشنری سرگرمیاں بھی زوروں پر ہیں اور حال ہی میں اطلاع آئی ہے کہ ان مشنریوں نے بڑی تعداد میں افغانیوں کو عیسائی بنالیا ہے۔ اس سے پہلے انڈونیشیا میں بھی مسیحی مشنریاں خاصی کامیاب رہی ہیں۔ لیکن ان مشنریوں کو ہندوستان میں مسلمانوں میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، پنجاب میں انہیں کچھ کامیابی ملی ہے۔ لیکن ہندوستان میں زیادہ تر ہندوئوں کو عیسائی بنایا گیا، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، جس پر ہندو فرقہ پرست سخت طیش کے عالم میں ہیں، وہ گرجائوں کو جلا رہے ہیں، پادریوں کو قتل کررہے ہیں اور راہبائوں کی عصمت دری کے واقعات ہوئے ہیں۔ اس پر بھارت دوست مغرب نے چپ سادھ رکھی ہے۔ عیسائی مشنریوں نے اگر مشرکین کو اہلِ کتاب بنادیا تو میرے خیال میں یہ اچھا ہی کیا، کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جن کو ہندوستانی معاشرے میں درجہ انسانیت سے گرا ہوا اور ناپاک خیال کیا جاتا تھا۔ عیسائی مشنریوں نے انہیں اس گرے ہوئے درجے سے اوپر اٹھایا اور تعلیم و تہذیب کا ایک معیار دیا، جس سے وہ ناآشنا تھے۔ یہ انسانیت کی بڑی خدمت تھی جو کہ دراصل مسلمانوں کو کرنی چاہیے تھی، وہ ہندوستان میں حکمران بھی رہے تھے۔ لیکن مسلمانوں نے بھی ہندوئوں کی طرح پست طبقات سے نفرت اور چھوت چھات کا رویہ رکھا۔ اس معاملے میں ان کے اور اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے رویّے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن جو کام مسلمان نہیں کرسکے وہ سات سمندر پار سے آکر اجنبی اور غیر قوم کے لوگوں نے کر دکھایا۔ یہ ہمارے لیے سبق بھی ہے اور مثال بھی۔ ایک بار لاہور کی سڑک پر ایک دیہاتی مجھ سے مشن اسکول کا پتا پوچھنے لگا۔ پتا میں نے بتادیا مگر اُس سے پوچھا کہ ”وہاں تمہیں کیا کرنا ہے؟“ دیہاتی نے بتایا کہ ”میں تو جاہل ہوں لیکن میرے عیسائی ہونے کی وجہ سے میرا بیٹا اس مشن اسکول میں مفت تعلیم حاصل کررہا ہے اور پڑھ لکھ کر کہیں اچھی ملازمت پر بھی لگ جائے گا۔ ہماری زندگی تو جانوروں سے بدتر ہے لیکن عیسائی ہونے کے بعد ہمارے بچے اچھی زندگی حاصل کرنا چاہیں تو کرسکیں گے“۔ ہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر ایسے لوگ پہنچے ہیں جن کے آباو اجداد کے معیار آدمیت سے گرے ہوئے تھے، لیکن مسیحی مشنریوں نے ان کو ہندو برہمنوں کے برابر اور اونچے درجے پر لاکھڑا کیا۔ کاش یہ کام مسلمان کرتے… اور انہوں نے کچھ کیا بھی، خاص طور پر ہمارے صوفیہ نے، جب کہ علما نے بھی خاصا کام کیا، لیکن بعد میں یہ یا تو آریہ سماجی پنڈتوں سے مناظرہ کرتے رہے یا مسلمانوں ہی کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرتے رہے، اور اگر تبلیغِ اسلام کے لیے یورپ گئے تو وہاں بھی الٹی فرقہ وارانہ جنگ و جدل ساتھ لے گئے، ہر ایک نے اپنی فرقہ واریت کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنادی اور یورپی اقوام کو اس فرقہ واریت کا تماشا دکھایا۔ مسلمانوں کے مقابلے میں مسیحی مشنریوں نے ہمیشہ نہایت منظم انداز میں کام کیا، اور خدمت کے ذریعے لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دیگر فرقوں کی طرح مسلمان بھی اپنے اعتقادات میں پکے تھے، اور مسلمانوں میں بھی اپنے مذہب سے والہانہ اور جذباتی وابستگی ایسی تھی کہ مسیحی مبلغین کی بات تک سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ غدر سے پہلے اور بعد میں بھی یہ مبلغین سڑکوں پر مجمع لگاکر اپنا پیغام سناتے تھے اور انگریز حاکم ان کے پشت پناہ تھے، لیکن وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے، حالانکہ ایک اچھا خاصا لٹریچر بھی انہوں نے پیدا کیا تھا جس کے ذریعے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن مسلمان اس طرح کا لٹریچر پڑھنا ہی غلط خیال کرتے تھے، اور ہمارے علما کی تاکید تھی کہ غیر عقائد کے لوگوں کی کتابیں مت پڑھو، ان سے بحث میں نہ الجھو ورنہ تمہارا دین خطرے میں پڑ جائے گا۔ علما کی اس ہدایت پر مسلمانوں کا عمومی عمل تھا۔ لیکن اب نیا زمانہ آگیا ہے، لوگ ہر طرح کی بات کہنے سننے کے لیے تیار ہیں، اور اسلام پر حملہ کسی ایک سمت سے نہیں ہورہا ہے، مذہب کے علاوہ سیاست، معیشت، تاریخ، تہذیب اور علمی و فکری انداز میں بھی حملے ہورہے ہیں، اور بہت سے حملے پہلے پوشیدہ انداز میں ہیں کہ بظاہر ان کا کوئی تعلق مذہب سے نظر نہیں آتا، لیکن درحقیقت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس نئے دور میں اگر مسلمانوں نے اسلام سے صرف اپنی جذباتی وابستگی پر اکتفا کیا تو اب جذبات زیادہ کام نہیں دیں گے اور مغرب کی نئی دانش جو بھیس بدل بدل کر آرہی ہے، مسلمان کو نامسلمان بنانے کی رفتار میں مزید تیزی پیدا کرے گی، اور خدانخواستہ وہ وقت بھی آسکتا ہے جب اعلانیہ ارتداد ہونے لگے، اور جو کام انگریز حکمران اپنی نوآبادیاتی حیثیت اور طاقت میں نہیں کرسکے وہ اب ہونے لگے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کو نئی علمی، فکری اور ثقافتی یلغار کے مقابلے کے قابل بنانے کے لیے علمی و فکری کام پر بھی توجہ دی جائے، اور تبلیغ جوکہ فرضِ کفاریہ ہے، امتِ مسلمہ اسے احسن طریقے پر ادا کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مسلمانوں کو نامسلمان ہونے سے بچایا جاسکے اور غیر مسلموں کے سامنے بھی اسلام کی صحیح تصویر آئے جس سے وہ متاثر ہوں۔ مسلمان اپنے طرزِعمل سے اسلام کے بارے میں غلط مغربی پروپیگنڈے کی تصدیق نہ کریں، خاص طور سے غیر مسلم معاشروں میں ’’جہاد‘‘ کو جس طرح خوفناک انداز سے پیش کیا جارہا ہے اس کی اصل حقیقت واضح کی جائے۔ اگر ہم نبی اکرمؐ کی زندگی کو دیکھیں تو مکی زندگی کا سارا دور عدم تشدد کا دور رہا ہے، اور یہی حضورؐ کی دعوتِ اسلامی کا سب سے طویل دور تھا۔ جب اہلِ مکہ نے دعوت کو مسترد کیا اور اہلِ مدینہ کو خدا نے اسے قبول کرنے کی توفیق دی تو وہ مدینہ پہنچے، جہاں معاشرے کی ایمانی کیفیت یہ تھی کہ جب حضورؐ نے مواخات کا حکم دیا تو ہر انصار نے اپنے مہاجر بھائی کو مکان اور زمین سے آدھا حصہ دے دیا، حتیٰ کہ جس کی دو بیویاں تھیں اس نے اپنی ایک بیوی چھوڑ کر مہاجر بھائی کو دے دی۔ اس درجہ ایمانی معاشرے کی ضرورت اسلامی ریاست میں تھی کیونکہ افلاطون کے بقول ریاست معاشرے کا عکس ہوتی ہے اور جیسا معاشرہ ہوتا ہے ویسی حکومت معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ معاشرے کی اس نوعیت اور تشخص کو مزید ارتقا دے سکے اور اسے خراب کرنے والی چیزوں کو روک سکے۔ جب اسلام دعوت کے مرحلے سے نکل کر ریاست کے مرحلے میں آیا تو ریاست کی ضرورت صلح بھی ہوتی ہے اور جنگ بھی، اور مدینہ کی ریاست میں یہ دونوں ہی باتیں تھیں، اور صلح کے دن جنگ کے دنوں سے کہیں زیادہ تھے۔ اگر جنگوں کے دنوں کا حساب لگایا جائے تو حضورؐ کی زندگی کے صرف چند ماہ ہی جنگ کے ہوں گے، ان جنگوں میں بھی فریقین کے شہدا اور ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد ہزاروں میں نہیں سینکڑوں میں ہی تھی۔ لیکن مسلمانوں نے غلطی یہ کی کہ غیر اقوام کے سامنے دعوت کے پہلو کو بہت کم رکھا اور مسلمان فاتحین کی عام دنیوی جنگوں کی کامیابی کا بہت فخر اور طمطراق سے ذکر ہوتا رہا۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہاں واقعی جہاد ہو، لیکن یہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کے ساتھ ہو اور باقی ساری دنیا میں دعوتی کام کو ہی اصل کام سمجھا جائے۔ (عبدالکریم عابد)

مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔