ابھی کچھ دن پہلے کا قصہ ہے، شمالی کراچی سے فائزہ بھابی نے استفسار فرمایا:
’’برائے مہربانی یا براہِ مہربانی مجھے یہ بتا دیجیے کہ دونوں میں سے دُرست کون سا ہے؟‘‘
مزید فرمایا کہ اس موضوع پرکالم لکھنے کی صورت میں اپنے بھائی [مشہور ماہر تعلیم، مصنف، معلّم اور مدیر جناب نجیب احمد حنفی] کا ہرگز ذکر نہ کیجیے گا کیوں کہ’’اس سے نقصِ امن کا اندیشہ ہے‘‘۔
حسب الحکم ہم اِس کالم میں نجیب بھائی کا بالکل ذکر نہیں کرتے، لیکن بھابی کو متنبہ کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اب آپ کے گھر میں جو کچھ ہوگا وہ نقصِ امن نہیں ہوگا، ’نَقضِ امن‘ ہوگا۔ صاد سے نہیں ضاد سے۔ ص، ض کو بعض لوگ صواد، ضواد بھی پڑھتے ہیں، تو پڑھنے دیجیے، آپ اپنے امن کی فکر کیجیے۔
بھابی کا قصور نہیں۔ ورقی وبرقی ذرائع ابلاغ کے علاوہ، بعض علمی و ادبی جرائد تک میں، ہم نے بھی، ’نقصِ امن‘ ہی لکھا دیکھا اور ٹی وی پربک بک کرنے والوں کو بھی یہی بولتے سنا۔ سننے میں تو نُقصِ امن بھی آیا ہے۔ جب کہ نَقص کا تلفظ ’ن‘ پر زبر کے ساتھ ہے۔ مطلب اِس کا ہے کمی، خرابی، عیب، کھوٹ، کجی اورکسر وغیرہ۔ ممکن ہے کہ اسے نُقصان کا بچہ سمجھ کر کسی نے نُقص پڑھ دیا ہو۔ مگر صاحب! یہ’ نقصِ امن‘ کیا ہوتا ہے؟ امن میں بھلا کیسی خرابی، کیسا عیب، کس قسم کا کھوٹ یا کیسی کمی اور کجی؟ امن ہوگا تو ہرطرف امن ہی امن ہوگا (گھر میں بھی)۔ گھر میں امن رکھنے کا تیر بہ ہدف نسخہ نذیرؔ احمد شیخ نے بتایا ہے۔ اِس نسخے پر عمل کرنا ہو تو ہماری خدمات حاضر ہیں۔ نذیرؔ شیخ کہتے ہیں:
کیوں نہ مہماں کو ہم کہیں رحمت
گھر میں امن و امان رکھتا ہے
نَقص ہی کے نہیں، نَقض کے نون پر بھی زبر ہے۔نَقض کا مطلب ہے ٹوٹ پھوٹ، شکست و ریخت، بگاڑ اور درہم برہم ہوجانا۔ ’نقضِ امن‘ ہوجائے تو یہی سب ہوتا ہے۔ آپ کو تو تجربہ ہوگا۔ جھگڑے، فساد اور بلوے کے معنوں میں بھی ’نقضِ امن‘ بولا جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکے دیکھ لیجے۔ اس پاپی دنیا میں نقضِ امن ہی نہیں، نقضِ عہد بھی ہوتا ہے۔ معاہدے کا ٹوٹ جانا یا وعدہ خلافی۔ نقض ہی سے تناقض بنا ہے جس کا مطلب ہے ایک دوسرے کی ضد، تضاد یا ایک دوسرے کے خلاف ہونا۔ جو چیزیں یا جو باتیں ایک دوسرے کی ضد ہوں یا ایک دوسرے کے برعکس ہوں وہ باہم مُتناقض کہلاتی ہیں۔ ہر وہ شے جو اُلٹی ہو، برعکس ہو اور برخلاف ہو اُسے نقیض کہتے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ خواہ سب کچھ بگڑ جائے مگر زبان نہ بگڑنے پائے۔ لہٰذا نقصِ امن کے بجائے ہر حال میں نقضِ امن ہی کہیے اورخوش رہیے!
گھر کا امن تَہ و بالا کردینے کے بعد اب ہم آتے ہیں اصل سوال کی طرف۔ مہربانی میں جو مہر ہے، اس کا مطلب ہے محبت، لطف، عنایت، نوازش، توجہ، ہمدردی، کرم، دوستی، اُلفت، پیار اور شفقت۔ بے مروّت آدمی کو بُرا کہنا ہو تو اچھی اُردو میں اُسے ’بے مہر‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن کسی کو بُرا کہنا کوئی بھلی بات نہیں۔ بُرا کہنے سے بھلا کب کسی نے کسی کا بھلا کیا؟ لہٰذا محبوب کو بے مہرکہنے کے بعد اُس سے مہر و محبت کی توقع مت رکھیے۔ غالبؔ کا تجربہ ہے:
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
’مہر‘کے ساتھ ’بان‘ کا لاحقہ لگ جائے تو مطلب ہوجاتا ہے ’محبت والا‘۔جیسے باغبان، باغ والا اور شتربان، اونٹ والا۔ ایک بار چچا غالبؔ قیامِ امن کے مشن پرکسی کے گھر مہمان گئے۔ وہاں سے بمشکل واپس بھیجے گئے۔مگر آتے ہی اُنھیں پھر یہ پیغام بھیجنا پڑگیا:
مہرباں ہو کے بُلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
جو ’مہربان‘ ہوتا ہے وہ محبت، اُلفت اورشفقت کرنے والا، نوازش کرنے والا، توجہ کرنے والا، ہمدردی کرنے والا اورکرم کرنے والا ہوتا ہے۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’مہربانی‘ بنا ہے۔اخلاق، مروت اور ہمدردی سے پیش آنا، مہربانی کہلاتا ہے۔ ’مہربانی ہوجانا‘ عنایت، کرم، نوازش اور عطا ہوجانے کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ فناؔ نظامی کانپوری رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں:
شیخ لے آیا تھا مے خانے سے مسجد کی طرف
وہ تو کہیے کچھ خدا کی مہربانی ہوگئی
’براہِ مہربانی‘ کے معنی ہیں ’مہربانی کی راہ سے‘۔ اُس طریقے سے جو مہربانی کرنے کا طریقہ یا راستہ ہے یعنی: ’ازراہِ مہربانی‘۔ اس کی جگہ کبھی کبھی ’ازراہِ کرم‘ یعنی کرم کی راہ سے بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ مہربانی اور کرم ایسے طریقے سے کرتے ہیں کہ بظاہر محسوس ہوتا ہے جیسے ظلم و ستم کررہے ہوں۔ بالخصوص ماں باپ اور معلمین و معلمات۔ حالیؔ نے یقیناً اپنے اساتذہ سے پِٹ پِٹا کر ہی خود کو سمجھایا ہوگا:
اُن کے غصے میں ہے دلسوزی ملامت میں ہے پیار
مہربانی کرتے ہیں نا مہربانوں کی طرح
’برائے مہربانی‘ کا لفظی مطلب ہوگا ’مہربانی کے لیے‘ یا ’مہربانی کی خاطر‘۔ یہ کیا بات ہوئی؟ یہ تو بڑی مہمل بات ہوئی۔ لہٰذا ’برائے مہربانی‘ بولنا یا لکھنا درست نہ سمجھیے۔ بعض لوگ ’’برائے مہربانی فرماکر‘‘بھی لکھتے یا بولتے نظر آتے ہیں۔ اتنی لمبی چوڑی ’مکھن پالش‘ کرنے کے بجائے اگر براہِ مہربانی، ازرَہِ مہربانی یا ازراہِ مہربانی لکھ اور بول دیا کریں تب بھی پھنسا ہوا کام نکل جائے گا۔ نیز آپ کی بڑی مہربانی ہوگی، اُردو زبان پر۔ بالخصوص معلمین اور معلمات کو اس معاملے میں خاص مہربانی فرمانا چاہیے۔ سو، اُن سے فدوی کی مؤدبانہ درخواست ہے کہ ازراہِ مہربانی اپنے شاگردوں کو ’برائے مہربانی‘ کی غلط ترکیب سکھانے سے اجتناب فرمائیے اور اُن کو بتائیے کہ ’برائے کرم‘ لکھنا بھی غلط ہے۔ ہاں ’مہربانی فرماکر‘ لکھا جا سکتا ہے، یہ درست ترکیب ہے، لہٰذا مہربانی فرما کر درست ترکیب ہی استعمال کیجیے۔
’برائے مہربانی‘ کی غلط ترکیب ہمارے ہاں بالعموم انگریزی روزمرہ ‘Please’ کی جگہ استعمال کی جاتی ہے۔ غالباً ’پلیز‘ کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ یہ کام ناگواری سے نہیں خوش گواری سے کردیجیے۔ خوشی خوشی۔ لیکن ہمارے ہاں، رنج کی جب گفتگو ہونے لگے، تو ایک فریق دانت کچکچا کر دوسرے فریق سے کہتا ہے:
’’پلیز! اب آپ خاموش ہو جائیے!‘‘
دوسرا فریق یہ سُن کر ’پلیز‘ نہیں ہوتا، اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ ہم نے تُرکیہ میں دیکھا کہ وہاں ‘Please’ کی جگہ بھی وہ اپنی ہی زبان کا لفظ بولتے ہیں: ’’ لُطفاً‘‘، جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ لطف و کرم فرماتے ہوئے یہ کام کردیجیے۔’لُطف و الطاف‘ اُردووالوں کے لیے اجنبی اور ناقابلِ فہم الفاظ نہیںہیں، لہٰذا ہم بھی لُطفاً بول سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم آپ سے التجا کریں کہ ’’لُطفاً! ہمارا کالم پڑھ لیجے‘‘ تو ہمارے منہ سے یہ درخواست سن کرآپ کو یقیناً لطف آئے گا اور ہمیں یقین ہے کہ ہم پر لطف و کرم فرماتے ہوئے آپ ہمارا کالم پڑھ بھی لیں گے۔
تو اب جب کہ انگریزی بول بول کر ہم سب کے منہ ٹیڑھے ہوگئے ہیں، اگر ہم یہ پُرلطف بول، بول بول کر اپنے اپنے منہ سیدھے کرلیں تو اس میںحرج ہی کیا ہے؟