نعیم صدیقی سید مودودیؒ کے عاشق زار اور تحریکِ اسلامی کے گلِ سرسبد تھے۔ تمام عمر فریضۂ اقامتِ دین کی جدوجہد میں سرگرم عمل رہے۔ وہ قافلۂ ادبِ اسلامی کے قائد اور عمدہ شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے ملک کی دینی، معاشرتی، تہذیبی اور ادبی روایت کو اپنے عمل اور قلم سے روشن اور توانا کیا۔ ان کی شخصیت علم و عمل، ایمان و یقین کے نور سے سرشار تھی، اسی ایمان و یقین نے انہیں تمام عمر اندھیروں، تاریکیوں اور گمراہیوں کے خلاف کمربستہ اور سینہ سپر رکھا۔ وہ خود نیکی کے علَم بردار تھے اور ان کا تخلیق کردہ ادب بھی نیکی اور بھلائی کے فروغ اور آبیاری کا ذریعہ تھا۔
نعیم صدیقی کا تعلق صاحبِ علم خاندان سے تھا۔ ان کے اکابرین میں شاہ مراد خان پوری جیسے صوفی شاعر کا نام آتا ہے جو فارسی، اردو اور پنجابی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ نعیم صدیقی کے والدِ گرامی قاضی سراج الدین اچھے علمی و ادبی ذوق کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنے جدِّ اعلیٰ کا کلام ’’گلزار شاہ مراد‘‘ کے نام سے مرتب کرکے شائع کیا۔ علم و ادب کا یہی ذوق نعیم صدیقی کو ورثے میں ملا۔ انہوں نے زمانۂ طالب علمی ہی میں شعر و ادب کے ساتھ ناتا جوڑا اور پھر اسے تمام عمر نبھایا۔ ان کی علمی و ادبی زندگی، تخلیقی، تصنیفی اور تالیفی وابستگی سے غیر معمولی تعلق کی نمایاں مثال ہے۔ غزل ہو، نظم ہو یا نعت… افسانہ ہو یا ڈرامہ، مزاح ہو یا انشائیہ، مکتوب نگاری ہو یا سفرنامہ، یا دوسری شعری و نثری اصناف… ان کا اپنا نرالا اور انوکھا رنگ ہے۔ دینیات، سیرت، سیاست، تعلیم، فقہ، اقبال شناسی اور صحافت کے ساتھ تعلق، نیز شاندار علمی و تحقیقی سرمایہ ان کی ہمہ جہت اور ہمہ پہلو شخصیت کا پتا دیتا ہے۔
بطور شاعر اور ادیب انہوں نے مختلف اصنافِ سخن میں کامیاب طبع آزمائی کی اور نعت، نظم، غزل، افسانے، سفرنامے، انتقادیات، رپورتاز اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وسیع تحقیقی سرمایہ چھوڑا۔ ان کی مطبوعہ شاعری میں شعلۂ خیال، بارود اور ایمان، خوں آہنگ، پھر ایک کارواں لٹا، وہ سورج بن کر ابھرے گا، نور کی ندیاں رواں، اور اس کے لگ بھگ غیر مطبوعہ کلام موجود ہے۔ ان کے مطبوعہ افسانوں، خاکوں اور ڈراموں میں ذہنی زلزلے، ٹھنڈی آگ، میرا نام ہے تعلیم اور بہت سے غیر مدون سرمایہ شامل ہے۔ سیرت و سوانح میں محسنِ انسانیتؐ، سیدِ انسانیت، رسول اکرمؐ بحیثیت معلم، مولانا مودودی ایک تعارف اور المودودی۔ طنز و مزاح میں دفتر بے معنی اور کچھ غیر مطبوعہ مضامین… دینی ادب میں مختلف مضامین، نظامِ حیات، جماعت اسلامی، پاکستانیات، اقبالیات… اور مرتّبات میں کثیر نثری سرمائے کے علاوہ کالم، اداریے، مضامین اور مقالات شامل ہیں۔
اس قادرالکلام شاعر اور ادیب پر محترمہ زوبیہ لطیف نے نہایت عرق ریزی اور عمدگی کے ساتھ دادِ تحقیق دی اور 1995ء میں ’’نعیم صدیقی بطور شاعر‘‘ ایم اے کا مقالہ لکھا۔ اس خوب صورت مقالے کے کُل 9ابواب ہیں۔ باب اول: سوانحی حالات اور ادبی تخلیقات، باب دوم: نظریہ شعر و ادب، باب سوم: نعت گوئی، باب چہارم: غزلیات، باب پنجم: نظم نگاری، باب ششم: زندانی شاعری، باب ہفتم: رزمیہ شاعری، باب ہشم: رثائی شاعری، باب نہم: نعیم صدیقی کی شاعری کا مجموعی جائزہ، اور پانچ ضمیمہ جات پر مشتمل ہے۔ محترمہ زوبیہ لطیف نے سوانحی باب نہایت محنت کے ساتھ ترتیب دیا ہے اور نادر معلومات کو اس کا حصہ بنایا۔ اس ضمن میں انہیں براہِ راست نعیم صدیقی سے کسب فیض کا موقع ملا۔ نعیم صدیقی کی شاعری کے جائزے میں جہاں ان کا مطبوعہ کلام ان کے پیش نظر رہا، وہیں پر غیر مطبوعہ کلام بھی۔
نعیم صدیقی کی غزل ہو یا نظم اور نعت… جدید تجربات اور نئے پن کی آئینہ دار ہیں۔ بطور نقاد، سفرنامہ نگار، طنز نگار، ادیب اور صاحبِ طرز غزل گو کا پتا دیتی ہیں۔
محترمہ زوبیہ لطیف نے نہایت محنت اور عرق ریزی کے ساتھ نعیم صدیقی کے کلام کو مشرق ومغرب کے تنقیدی سرمائے کی روشنی میں جانچا اور پرکھا، اور اس کی خوبی اور خامی واضح کی ہے۔ اس میں شک نہیںکہ ان کی نظم و نثر کا معیار اونچے درجے کا ہے، وہ ایک ذہین اور غیر معمولی ادبی و شعری صلاحیتوں سے مالامال تخلیق کار تھے۔ تحریک اسلامی کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ ان کی ترجیح اول رہا جس کے باعث وہ اپنی نظم و نثر پر وہ توجہ نہ دے پائے جس کا تقاضا تھا۔ لیکن ان کا تخلیق کردہ ادب اور شعری سرمایہ اونچے معیار کا ہونے کے باوجود نام نہاد نقادوں کی توجہ حاصل کرپایا اور نہ ادبی ایوانوں میں وہ مقام حاصل کرسکا جو اس کے شایانِ شان تھا۔
’’نعیم صدیقی بطور شاعر‘‘ کو ادارہ معارف اسلامی نے عمدہ گیٹ اَپ، دیدہ زیب سرورق اور سفید کاغذ پر زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے شائع کیا ہے۔ تحریک اسلامی سے وابستہ دوسرے ادبا اور شعرا کے غیر مطبوعہ مقالات شائع کرنے کا پروگرام ترتیب دینا چاہیے، ایسے مقالات کا شائع کرنا ایک لحاظ سے ادارہ معارف اسلامی کے فرائض میں شامل ہے۔ اس خوب صورت کتاب کی طباعت پر ادارہ معارف اسلامی اور اس کی ٹیم قابلِ مبارک باد ہے