’’مشائخ کے اقوال و احوال کہ وہ ان کی کرامت و استقامت پر مشتمل اور علوم ظاہر باطن پر جامع ہیں، مبتدیوں کو ترغیب دیت ہیں اور شوق دلاتے ہیں اور منتہیوں کے لئے دستور اور میزان ہوتے ہیں، خاص طور سے اولاد و احفاد کو اپنے آبائو و اجداد کے کارنامے سننے سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہوتی ہے کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ کارنامے استعداد رکھنے والے میں غیرت پیدا کرتے ہیں اور یہ غیرت اسے ایک مقام پر پہنچا دیتی ہے یا انہیں سن کر ایک مصنف مزاج کو اپنی کوتاہی کا احساس ہوتا ہے اور اس سے ایک دانا کے سامنے درتوبہ کھل جاتا ہے‘‘۔یہ ایک بالکل نیا خیال ہے کہ نامور لوگوں کو ان کے بچپن یا ان کے دورِ طالب علمی کی مدد سے جانا جائے۔ مصنف نے اس کتاب میں ایسی تصویریں پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر اس کتاب کے قارئین اور خاص طور پر نوجوان اور طالب علم یہ سمجھ سکیں گے کہ بڑے لوگ بھی بچپن میں عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ ان کی انتھک محنت اور منزل پانے کا شعور ہوتا ہے جو انہیں عام لوگوں کی صف سے نکال کر بڑے لوگوں کی صفوں میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ کتاب کا تربیتی رخ ہے۔ اس کتاب کا دوسرا رخ تحقیقی ہے۔ یہ پہلو بھی کم اہم نہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو مصنف نے جن لوگوں کو موضوع سخن بنایا ہے، ان کے سوانح کے بالکل نئے پہلو ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔ وہ سرسید ہوں، مولانا حالی، علامہ اقبال اور قائداعظم ہوں یا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی، اس کتاب میں ان کی زندگیوں کے جو پہلو ہمارے سامنے آئے ہیں، پہلے ان پہلوئوں سے ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ اس طرح یہ کتاب صرف تربیتی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ تحقیقی اعتبار سے بھی نئی دریافتوں کا مجموعہ ہے اور علم و ادب کے میدان میں اس کتاب کا استقبال شاندار طریقے سے ہونا چاہیے۔
نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری
تمام ساماں ہے تیرے سینے میں تُو بھی آئینہ ساز ہوجا