”ڈیجیٹل مردم شماری خامیاں، نتائج اور مضمرات“

جماعت اسلامی کراچی کے تحت کی کانفرنس سے مردم شماری و منصوبہ بندی کے ماہرین کا خطاب

پوری دنیا میں مردم شماری ایک اہم قومی ضرورت ہے، جس سے ہمیں آبادی کی تعداد کا اندازہ ہوتا ہے، وسائل کا تعین ہوتا ہے، صحت، تعلیم، روزگار اور معاشی جائزہ لیا جاتا ہے، اور پھر ان معلومات کی روشنی میں آئندہ کے لیے آبادی کی فلاح وبہبود اور ملک کی ترقی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کراچی میں اس کو ہمیشہ خصوصی طور پر تماشا بنادیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس اہم ایشو پر مستقل آواز اٹھائی ہے اور جہاں احتجاج کیا ہے وہاں اس حوالے سے ماہرین سے بھی مشاورت کی ہے۔ اسی پس منظر میں جماعت اسلامی کے تحت ”ری بلڈ کراچی“ کے سلسلے میں ”ڈیجیٹل مردم شماری، و خامیاں، نتائج اور مضمرات“ کے موضوع پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس سے مہتاب کریم، ماہر ترقیات و معاشیات ڈاکٹر عاصم بشیر، ممبر سینسز کمیٹی خواجہ مظہر جمال، ماہر علاقائی منصوبہ بندی سید نواز الہدیٰ، سینئر صحافی اشرف علی، شہری منصوبہ بندی کے امور سے وابستہ توحید، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سلیم احمد منگریو، آباد کے محسن شیخانی، معروف صنعت کار جاوید بلوانی، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر انجینئر سلیم اظہر اور دیگر نے خطاب کیا۔ شرکاء نے کراچی کے سنگین مسائل کے حل اور اہلِ کراچی کے حقوق کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد اور تحریک حقوقِ کراچی کو سراہا اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی کوششوں کی تعریف کی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم اپنی گنتی زیادہ چاہتے ہیں نہ کم۔ ہم کراچی اور لاڑکانہ دونوں کی آبادی کو درست شمار کروانا چاہتے ہیں۔ ہماری جدوجہد اور مطالبے کو لسانیت کا نام دے کر کراچی کے عوام کا حق ہرگز نہ مارا جائے۔ ہم سندھ کے کسی بھی ڈویژن کی آبادی کو کم نہیں کرنا چاہتے۔ ہر علاقے کی سو فیصد گنتی ہونی چاہیے اور کراچی کی گنتی بھی سو فیصد مکمل کی جائے۔ وزیراعلیٰ کراچی کی آبادی پر کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟ کراچی کی گنتی پوری کرنے کے مطالبے کو لسانی رنگ دے کر اصل مسئلے سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔ جماعت اسلامی 15مئی تک اس پورے عمل کی مانیٹرنگ کررہی ہے اور تعاون کررہی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”ہم پیپلز پارٹی، نواز لیگ، پی ٹی آئی، اے این پی اور جے یو آئی کی مرکزی قیادت سے بھی کہتے ہیں کہ کراچی کی گنتی پوری کروانے کے لیے آواز اُٹھائیں، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے واضح طور پر کراچی کی آبادی کو درست گننے کے حوالے سے آواز اُٹھائی ہے۔ عمران خان، نوازشریف، شہبازشریف، آصف علی زرداری سمیت تمام قائدین اہلِ کراچی کی حق تلفی پر آواز اٹھائیں۔“

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”کراچی کی پوری گنتی کا ہمارا مطالبہ نہ کسی قوم کے خلاف ہے، نہ کسی زبان بولنے والے کے خلاف، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو جہاں رہتا ہے اسے وہیں شمار کیا جائے اور کراچی میں رہنے والے ایک ایک فرد کو شمار کیا جائے، مردم شماری کو متنازع ہم نے نہیں بلکہ اس عمل میں بے ضابطگی اور دھاندلی کرنے والوں نے بنایا ہے، کیونکہ سب سے پہلے خانہ شماری درست نہیں کی گئی، اور جب خانہ شماری ہی درست نہیں ہوگی تو مردم شماری کیسے درست ہوسکتی ہے؟ مردم شماری وفاق کا معاملہ ہے لیکن صوبائی حکومتیں اس میں برابر کی شریک ہیں، اس لیے وفاقی ادارئہ شماریات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پورے عمل کی مانیٹرنگ کرے۔ خانہ شماری میں ہزاروں بلاکس کو غائب کرنے کی شکایات عام ہیں اور اس کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ 2017ء کی مردم شماری غلط تھی اس لیے اسے ہرگز بنیاد نہیں بنایا جانا چاہیے، 2017ء کی مردم شماری کو کسی صورت منظور نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے مل کر اسے منظور کیا۔ کراچی میں بجلی کے میٹر 29لاکھ ہیں اور قانونی و غیر قانونی کنڈے الگ ہیں، ایک ایک میٹر کو کئی گھرانے استعمال کرتے ہیں، اسی طرح گیس کے میٹرز کی تعداد بھی23لاکھ ہے تو کراچی کی آبادی کسی طرح بھی ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں ہے۔ نادرا کا ڈیٹا بھی ہمارے پاس ہے جس میں کراچی کے مستقل پتے والے لوگوں کی تعداد بالکل واضح ہے۔

مہتاب کریم نے کہا کہ 2017ء کی مردم شماری درست نہیں تھی، اس سے موازنہ بھی درست نہیں، 2017ء میں بھی مستقل پتوں کی بنیاد پر کراچی سے منتقل کیا گیا تھا جس کی تعداد 50لاکھ سے زائد تھی، کراچی کی آبادی ہر سال 3فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیجیٹل مردم شماری میں، میرے گھر کے افراد کو شمار نہیں کیا گیا تھا، میں نے بڑی مشکل سے اندراج یقینی بنایا۔ میں بڑی تعداد میں ایسے گھرانوں کو جانتا ہوں جن کی گنتی نہیں کی گئی، گنتی کے عمل میں عملہ غیر تربیت یافتہ تھا اور آدھے عملے کو ٹیبلٹ استعمال کرنا بھی نہیں آتا۔ کسی بھی مردم شماری کو چیک کرنے کے لیے صرف 2بلاکس کو دوبارہ کھول کر دیکھ لیا جائے تو صورت حال سامنے آجائے گی۔

ڈاکٹر عاصم بشیر نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں اہم بات یہ ہے کہ اس میں ڈیٹا فوری طور پر سامنے آرہا ہے۔ نمائندگی، وسائل کی تقسیم اور حلقہ بندیوں کا انحصار اصل میں درست مردم شماری پر ہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو تاکہ قومی سطح پر منصوبہ بندی بھی درست ہوسکے۔ مردم شماری کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے حالات ہر لحاظ سے بہتر ہوں اور لوکل کونسلز کا نظام فعال طور پر موجود ہو۔ منتخب میئر کسی بھی شہر کا سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہوتا ہے۔

خواجہ مظہر جمال نے کہا کہ خانہ شماری میں ہزاروں گھرانوں کو شمار نہ کرنے کی شکایات بہت ہیں، ان کا سدِباب کیا جانا چاہیے اور عملے کے جن لوگوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ چند فیصد بلاکس کھول کر صرف ہیڈ کاؤنٹ کرلیے جائیں تو درست تصویر سامنے آجائے گی۔

سلیم احمد منگریو نے کہا کہ کرپشن اور نااہلی کے باعث ملک میں تباہی پھیلی ہوئی ہے، اسی وجہ سے مردم شماری بھی درست طریقے سے نہیں ہورہی۔ کراچی کی آبادی اگر درست طور پر شمار نہ کی گئی تو اس سے ملک کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس کے لیے ہم ہر قسم کی قانونی مدد دینے پر تیار ہیں۔

محسن شیخانی نے کہا کہ مردم شماری کا مسئلہ کراچی کے حوالے سے ہمیشہ سے رہا ہے، کچی آبادیوں کے مسائل اپنی جگہ لیکن یہاں تو ہائی رائز بلڈنگز تک خانہ شماری میں چھوڑ دی گئیں۔ مردم شماری آؤٹ سورس اداروں سے کرانی چاہیے تھی۔ اب ضروری ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے اور اس میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جاوید بلوانی نے کہا کہ کراچی کی تعمیر و ترقی پر ملک کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہے کیونکہ کراچی ہی اصل میں پاکستان ہے۔ آج تباہ حال بیمار کراچی قومی خزانے میں 67فیصد ریونیو اور 54 فیصد ایکسپورٹ کررہا ہے، سندھ کا 97فیصد ریونیو کراچی دیتا ہے، پورے صوبے اور ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ کراچی کے حق کے لیے ہر شہری کو آواز اُٹھانا چاہیے۔ ہمیشہ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں لوگ آتے ہیں لیکن کراچی کی آبادی کم ہوجاتی ہے، ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے!