کتابیں چھپ رہی ہیں، کتابیں پڑھی جا رہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ کتابوں کی غیر مقبولیت کا رونا بھی ہے۔ کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ دام بھی کتابوں کے بڑھ گئے ہیں۔ لیکن جنھیں کتابوں سے محبت ہے وہ ہر حال میں کتابوں سے جڑے ہیں۔ پچھلے دنوں کئی نئی کتابیں نظروں سے گزریں، سوچا کہ پڑھنے والوں کو ان سے متعارف کروا دوں۔ یہ بھی کتابوں اور پڑھنے والوں کی خدمت ہے۔
جدید ترکی افسانہ
پاکستان اور ترکی کے درمیان رشتہ محبت اور یگانگت کا تاریخی اعتبار سے بہت پرانا ہے، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے دونوں ملک ایک دوسرے کے نزدیک سے نزدیک تر آتے جارہے ہیں۔ ترکی ڈرامے اردو میں ڈب ہوکر ہمارے ٹیلی ویژن پہ دکھائے جاتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ترکی کے ادب، زبان اور ثقافت کو پاکستان کی نئی نسل سے متعارف کرانے کے لیے حال ہی میں حکومتِ ترکی اور کراچی یونیورسٹی کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا ہے، اور کوئی دن جاتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں ترکی کے زبان و ادب کی تدریس شروع ہوجائے گی۔ اس معاہدے کو روبہ عمل لانے میں سب سے اہم کردار اردو کے عاشق، ترکی زبان کے معروف ادیب اور دانش ور ڈاکٹر خلیل طوقار نے ادا کیا ہے۔ وہ اردو زبان پر نہ صرف مکمل دسترس رکھتے ہیں بلکہ اردو ادب پر ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے۔ ’’جدید ترکی افسانہ‘‘ ان کی تازہ تصنیف ہے جس میں انھوں نے اپنی اہلیہ ثمینہ طوقار کے ساتھ مل کر قدیم و جدید ترکی افسانوں کا رواں ترجمہ کیا ہے۔ ہر افسانے کے ساتھ افسانہ نگار کا تعارف بھی شاملِ کتاب ہے۔ چناں چہ پونے دو سوسے زیادہ صفحات کی یہ کتاب ترکی افسانوں اور افسانہ نگاروں سے واقفیت کی ایک دستاویز بن گئی ہے۔ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان نے شائع کی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر یوسف خشک کا معلومات افزا پیش لفظ بھی دونوں ملکوں کے تاریخی روابط پر روشنی ڈالتا ہے۔ کتاب میں چوں کہ ترکی کے ابتدائی دور سے لے کر جدید دور تک کے افسانوں کا نہایت عمدہ انتخاب کیا گیا ہے اور اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ترکی ادب کن ارتقائی مرحلوں سے گزرا ہے۔ اردو ادب کی طرح ترکی ادب بھی حقیقت پسندانہ سماجی حقیقت نگاری سے ہوتا ہوا علامت نگاری کے تجربے تک پہنچا ہے۔ چنانچہ کتاب میں جہاں قدیم افسانوں میں واقعہ نگاری کا عنصر غالب ہے وہیں جدید افسانے واقعات کو علامتی اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔
کتاب کا پہلا افسانہ ’’مایوس کن تمنا‘‘ خالد ضیا اوشا قلی گل کا ہے جس میں انھوں نے ایک میاں بیوی کا قصہ چھیڑا ہے جنہیں بچوں سے بے انتہا پیار ہے لیکن جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ پھر بہت دوا دارو اور جھاڑ پھونک کے بعد میاں بیوی کو یہ خوش گمانی ہوجاتی ہے کہ بیوی ماں بننے والی ہے، لیکن جب ڈاکٹر سمجھا دیتا ہے کہ اس گمان میں کوئی حقیقت نہیں، تو انھیں سخت مایوسی کا سامنا ہوتا ہے کہ انھوں نے تو بچے کا نام بھی سوچ رکھا تھا اور اس کے کپڑے وغیرہ بھی تیار کرلیے تھے۔ مایوس کن اطلاع سے فقط یہ ہوتا ہے کہ گھر کے اسٹور روم میں بلی بچے دے دیتی ہے تو وہ ایک بچے کو پالتو بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میاں کہتا ہے کہ اس کا وہی نام نہ رکھ لیں جو اپنے بچے کا ہم نے سوچا تھا۔ یہ افسانہ انسان کی حرماں نصیبی، اس کی ناکام تمنائوں کے ہونے والے خون کی ایک دکھ بھری داستان ہے جو پڑھنے والوں کو اداس کردیتی ہے۔ کتاب کی آخری کہانی علامتی ہے اور اس میں انسان اور کوّوں کے تعلق کو زندگی کے گہرے مفہوم کا استعارہ بنایا گیا ہے۔
ڈاکٹر خلیل طوقار نے ’’جدید ترکی افسانہ‘‘ مرتب کرکے ترکی ادب ہی کی نہیں، اردو زبان و ادب کی بھی خدمت کی ہے۔ جو لوگ ترکی ادب سے واقف ہونا چاہتے ہیں انھیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
دفتر کھلا (کالموں کا مجموعہ)
کالم نگاری فی زمانہ اردو صحافت کی مقبول صنف ہے اور یہ روایت بھی پختہ ہوگئی ہے کہ کالم نگار حضرات اپنے کالموں کا انتخاب کرکے اسے کتابی صورت میں شائع کرانے لگے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ جو قارئین اپنے کسی پسندیدہ کالم نگار کے کالموں کو پڑھنا چاہتے ہیں، انھیں اس کے سارے کالم یکجا صورت میں مطالعے کے لیے مل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یونس حسنی کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے استاد رہے۔ انھوں نے اختر شیرانی پر پی ایچ ڈی کا معرکہ آرا مقالہ لکھا اور ساتھ ہی ساتھ اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ حال ہی میں ان کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ’’گہرہائے شب چراغ‘‘ شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے بیشتر ان مشہور اور گمنام شخصیات کو اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے جنہیں انھوں نے قریب سے دیکھا اور برتا۔ انھوں نے ان شخصیتوں کو جیسا دیکھا، جیسا پایا، بے کم و کاست بیان کردیا۔ ان کا ادبی اسلوبِ بیاں جو ہر طرح کی مصلحتوں سے پاک ہے، خاکوں کو ادبی رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ شخصی خاکوں کے مجموعے کے بعد ان کے زیر نظر کالموں کا مجموعہ بھی منظر پہ آگیا ہے۔ اخباری کالموں کا سب سے بڑا مسئلہ حالاتِ حاضرہ کے کسی مسئلے یا ایشو کا عارضی پن ہے جو کالم کی تازگی کو ختم کردیتا ہے اور وقت گزرنے کے بعد وہ کالم اپنی دل چسپی کھو دیتا ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کے اس انتخاب میں بھی ایسے کالم ضرور موجود ہیں جن کے زیر بحث مسائل اور ایشو پرانے ہوچکے ہیں لیکن کالم نگار کے اندازِ بیاں سے یہ ضرور ہوا ہے کہ کالم بے شک پرانے ہوچکے ہوں لیکن ان کی ایک تاریخی حیثیت ہوگئی ہے جو یقیناً مستقبل میں ریکارڈ کی درستی کے کام آئیں گے۔ 320 صفحات کی یہ کتاب رنگِ ادب پبلی کیشنز کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے اور اس کا عمدہ فلیپ شاعر علی شاعرؔ نے لکھا ہے۔ کالموں سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے کالموں کا یہ مجموعہ ان کی لائبریری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل: شخصیت اور فن
اکادمی ادبیات پاکستان نے ایک عرصے سے ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے عنوان سے اردو کے ممتاز و معروف ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت اور فن پہ ایسی کتابیں تصنیف کرانے کے فریضے پہ خود کو مامور کر رکھا ہے جن کی ایک طرح سے قاموسی حیثیت و اہمیت ہے۔ اس سلسلے کی اب تک بے شمار کتابیں مرتب کرکے شائع کی جا چکی ہیں۔ ڈاکٹر صائمہ ذیشان کی کتاب ڈاکٹر معین الدین عقیل پر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر عقیل اردو کی علمی اور ادبی دنیا میں پہلے ہی بہت معروف ہیں۔ انھوں نے اپنی گراں قدر تصانیف سے اردو کے دامن کو کشادہ کیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ اس خطے کی تاریخ بھی ان کا موضوعِ تحقیق ہے اور اس حوالے سے وہ بہت سی کتابیں تصنیف و تالیف کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر عقیل کی علمی، ادبی اور تحقیقی (باقی صفحہ 33پر)
کتابیں اور ان کے موضوعات اور تفصیلات اور ان کی بابت ساری معلومات ڈاکٹر صائمہ ذیشان نے نہایت محنت اور دقت نظری کے ساتھ اپنی زیر نظر کتاب میں مرتب کردی ہے جس پر ایک نظر ڈالنے ہی سے ڈاکٹر عقیل کی علمی خدمات کا پوری طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ ساتویں باب میں ڈاکٹر صائمہ نے ’’مشاہرین کے خطوط و آرا بنام ڈاکٹر معین الدین عقیل‘‘ میں نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ اپنے وقت کی کتنی اہم علمی و ادبی شخصیتوں نے ڈاکٹر عقیل کی خدمات کو سراہا ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ بھی ہے کہ مصنفہ نے ممدوح کی تصانیف کا تعارف تفصیل سے اور سلیقے سے کرایا ہے۔
زیست (افسانہ نمبر)
ڈاکٹر انصار شیخ ایک عرصے سے ’’زیست‘‘ کا ادبی شمارہ مرتب کررہے ہیں۔ معیار کے اعتبار سے ’’زیست‘‘ کا شمار اردو کے اہم ادبی رسائل میں ہوتا ہے۔ اس کا تازہ ضخیم شمارہ ’’افسانہ نمبر‘‘ منظرعام پر آیا ہے۔ اس میں اردو افسانے کے فن پر مقالات ہیں۔ افسانہ نگاروں پر مضامین ہیں۔ تین افسانہ نگاروں کے انٹرویوز ہیں۔ اردو کے اوّلین افسانہ نگاروں کی بابت مضامین اور اوّلین افسانہ بھی شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ اردو افسانے کی صورتِ حال پہ ایک مذاکرہ اور مغربی افسانوں کے اردو تراجم بھی شمارے میں شامل ہیں۔ تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل یہ شمارہ چالیس سے زیادہ نئے افسانوں کو اپنے دامن میں لیے ہے جس سے یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ادب پر پڑنے والے اس پیغمبری زمانے میں بھی افسانہ لکھنے والے تھکے نہیں، رکے نہیں… مسلسل لکھتے ہی جا رہے ہیں۔ اور ’’زیست‘‘ کا ایڈیٹر بھی نہایت ہمت و جواں مردی سے افسانہ مرتب کرکے دکھاتا ہے کہ اردو ادب اب بھی زندہ ہے۔