ـ5 اگست کے جبر کے بعد کشمیریوں نے ایک استعارہ ڈھونڈلیا ہے
افتخار عارف نے یہ کہہ کر ’’کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو‘‘ شاید آج کے کشمیر کے جذبات کو ہی زبان دی تھی۔ کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجد اب کے برس بھی عیدالفطر پر اُداس اور ویران رہی اور اپنے نمازیوں کی نمازِ عید اور دید کو ترستی رہ گئی، کیونکہ جبر کی طاقت کے خیال میں کشمیریوں کے اس قدر بڑے اجتماع سے بغاوت کی بُو اور اندیشۂ نقض امن ہوتا ہے۔ چار وناچار کشمیریوں نے عیدالفطر کے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے اور ایسے ہی کئی اجتماعات کی ویڈیو کلپس میڈیا میں گردش کررہی ہیں جن میں جموں کی چناب ویلی کے بھدرواہ علاقے کی ایک سرگرمی نے ساری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ سیکڑوں لوگ سبز پرچم لیے گھوم رہے تھے، یہ پُرجوش لوگ کورس کی شکل میں اقبال کا انقلابی اور آفاقی کلام پڑھ رہے تھے ’’خودی کا سرِ نہاں لاالٰہ الااللہ‘‘… ’’باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم، سوبار کرچکا ہے تُو امتحان ہمارا‘‘۔
چناب ویلی کی سرگرمی جس انداز سے اِس بار مشہور ہوئی ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ یہ رسم و ریت پورے جموں وکشمیر تک وسیع ہوجائے گی اور آئندہ مزاحمت کا یہی رنگ دکھائی دے گا۔ یوں لگ رہا ہے کہ چار سال کے بے سود انتظار اور گردوپیش سے مایوس ہوکر صوفی منش اور سیلف سینٹرڈ قوم نے اپنے پرانے محسن اور فکری راہنما کو دوبارہ پکارا ہے، اور اقبال نے یہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ہے اور وہ بھی قیامت خیز تنہائی میں اپنی قوم کی مدد کو آگئے ہیں۔ یہ وہی دیس ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں کہ
تنم گلی ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجازِ و نوا ز شیراز است
(میرا جسم کشمیر کی مٹی سے آیا ہے، میرا دل سرزمینِ حجاز کا ہے اور میرے نغمے ایران کے ہیں)
ایک اور جگہ وہ کشمیریوں کے حالات پر اپنی افسردگی کا اظہاریوں کرتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر و گیر؟
کشمیر میں ڈوگرہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف وادی ٔکشمیر کے مسلمانوں میں بیدار ہونے والے انقلاب میں کشمیر سے باہر اگر کسی کا حصہ ہے تو اس فہرست میں اقبال کا نام سب سے اوپر ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ بیرونی ہمدردوں کی بے تدبیریوں اور غلطیوں کی وجہ سے کشمیری اس انقلاب کی تکمیل سے محروم رہ گئے، اور یہ انقلاب دلوں اور دماغوں سے نکل کر عملی شکل میں نہ ڈھل سکا۔ ڈوگرہ سے نکل کر وہ ہندوستان کی غلامی کا شکار ہوگئے اور اقبال کا برپا کردہ بیداری کا انقلاب ان کے سینوں میں ناتمام اور شعلہ زن رہ گیا، مگر 75 برس گزرنے کے باوجود یہ آتشِ چنار سرد ہونے میں نہیں آرہی۔ اقبال انجمن کشمیری مسلم کے پلیٹ فارم سے کشمیریوں کی فکری راہنمائی اور ان کی حالتِ زار دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے رہے۔ اقبال کی تحریک پر ہی کشمیری وکلا نے وائسرائے ہند کے نام خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ایسی اصلاحات پر مجبور کیا جن سے کشمیریوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ ان خطوط میں اقبال کے استعاروں اور اصطلاحات نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریز کو بھی چونکا دیا تھا اور انہیں اقبال کشمیر کو پین اسلامک تحریک سے جوڑتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اقبال کا ایک خط برطانوی حکومت کے نمائندے نے کشمیر کے وزیراعظم کو بھیجا تو وزیراعظم نے اس میں چند جملوں کو نمایاں کرکے انگریز کو اقبال کے خیالات سے ڈرانے کی کوشش کی۔ اس خط کا ابتدائی حصہ یوں ہے
Dear Bailey (lt.Col Bailey.Resident in Kashmir)
The enclosure to your confidential letter of 125th August about the activities of Sir Muhammad Iqbal is very intresting and his Highness , Govermment are greatful to you for sending it to them .I do not know where your information emanated from, but i would like to draw your special attention to the words”The Kashmir has special significance for the Muslims of Northern India in particular”.I cannot but read in to this the idea which has been frequently mooted a Pan Islamic state streching from the North Western Frontier to the borders of the South East of the Punjab, to the attachment of which Kashmir has been regarded as the stumbling block.
Yours Sincerely
E.J.D.Colvin11
پھر جب 1931ء میں اقبال اپنے دوسرے سفر پر کشمیر آئے تو محققین کے مطابق وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ کشمیر کی وادیوں میں اب انقلاب کے آثار پیدا ہوچکے ہیں اور دبے اور کچلے ہوئے عوام میں خوئے بغاوت دکھائی دینے لگی ہے۔ یوں کشمیریوں اور اقبال کا ساتھ بہت پرانا اور اٹوٹ ہے اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقبال کے فارسی کلام میں کوہ و دمن میں آگ لگانے کی صلاحیت ہے۔ یہ مُردہ ضمیر اور بے حس و حرکت جسموں کو بھی اُٹھ کر رقص کناں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران کے انقلاب میں اقبال کے کلام سے راہنمائی کا اعتراف سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے1986ء میں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کا انقلاب اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ ہم اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں۔ 1989ء میں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو ازبکستان کے شہر سمرقند کے وسطی چوک میں آزادی کا جشن منانے والے ہزاروں افراد اقبال کے اس نغمے پر جھوم رہے تھے:
اے غنچۂ خوابیدہ چوں نرگسِ نگراں خیز
از خوابِ گراں خوابِ گراں خوابِ گراں خیز
(اے خوابیدہ کلی تُو نرگس کے پھول کی طرح آنکھ کھول۔ گہری نیند سے، گہری نیند سے، گہری نیند سے جاگ)
اُس روز بی بی سی ریڈیو نے سیربین پروگرام کا آغاز سمرقند کے لوگوں کی زبان سے ادا ہونے والے اسی نغمے سے کیا تھا۔ آج کشمیریوں پر عتاب کا دور ماضی سے زیادہ سخت ہے جب ان کے لیے ایک اور گلانسی کمیشن کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، کیونکہ ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت خطرات کی زد میں ہے مگر آج کوئی اقبال موجود نہیں جس کے لکھے اور بولے ہوئے لفظوں سے جبر کی چادر میں چھید ہوسکے۔ المیہ یہ نہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کا شکار ہوچکے ہیں اور ہرن بھیڑیوں کے غول میں پھنس چکا ہے، بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا مونس اور غم خوار اور ہمدرد ہونے کا ہر دعوے دار بھی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔ کشمیری جب بھی حالات کے جبر کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اسی دھرتی کے خمیر سے جنم لینے والا ایک نابغہ روزگار ان کی فکری اور عملی مدد کو آتا ہے۔ یہ کشمیر کی وادیِٔ لولاب کی مٹی کا فرزند ہوتا ہے جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔ انیسویں صدی میں جب کشمیری شخصی حکمرانی کے جبر کا شکار تھے اور ان کی آواز وادی کے قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی، بڑے مراکز میں رہنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ بانہال کے پہاڑوں کی اوٹ میں جنت گم گُشتہ کے باسی کس حال میں ہیں تو اس ہلاکت خیز تنہائی میں اُس دور کے سرمحمد اقبال جو اپنے کلام اور فکر وفن کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکے تھے، اپنی درماندہ حال قوم کی مدد کو آئے۔ اقبال نے نہ صرف اپنے آبائی وطن کشمیر اور علاقے لولاب کا دورہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کو بیدار کرنے کا بیڑہ بھی اُٹھایا۔انہوں نے نہ صرف لاہور کے پرانے کشمیریوں کی محفلوں میں کشمیر کے حالات پر بات کا آغاز کیا بلکہ لاہور کے اخبارات کو کشمیر کے حالات پر قلم کشائی کا مسلسل مشورہ دینا شروع کیا۔ایسی ہی ایک محفل میں علامہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا:
پنجۂ ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بال کیا
توڑ اس دستِ جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا
یوں اقبال کی راہنمائی میں کشمیر کے حالات کی خبر وادی کی تنگنائے سے نکل کر ہندوستان کی وسعتوں تک پہنچنے لگی۔ ہندوستان تک یہ آواز پہنچنے کا مطلب یہ تھا کہ معاملے کی حقیقت انگریز سرکار تک پہنچنے لگی ہے۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار کے دبائو پر ڈوگرہ حکمران کشمیر میں اصلاحات کے لیے گلانسی کمیشن جیسے فورمز کو جگہ دینے پر مجبور ہونے لگے اور کشمیر میں ایک ذمہ دارانہ حکومت کے دھندلے اور موہوم تصور کے نقوش گہرے اور واضح ہوتے چلے گئے۔ اقبال ایک راہ دکھلا کر دنیا سے چلے گئے مگر ان کا کلام اور فکر کشمیر میں حریت اور انقلاب کے شعلوں کو مسلسل زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔ اسی فکری انقلاب کے اثرات اگلی ہی دہائی میں ایک واضح بیداری کی شکل میں اُبھرتے نظر آئے۔ آج کشمیری ایک بار پھر 1930ء کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ حالات اس سے بدتر ہی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ ایک بار پھر وادی کے پہاڑوں کے پیچھے کوہ قاف کی کسی پری کی طرح قید ہوچکے ہیں۔ آزاد دنیا سے ان کے روابط منقطع ہوچکے ہیں۔ اگر روابط قائم بھی ہیں تو وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ اس کی خوبصورت مگر دلدوز منظرکشی بھارتی اینکر عارفہ خانم شیروانی نے چند ماہ قبل ہی دورئۂ سری نگر میں کی تھی، جب وہ مائیک اُٹھائے سری نگر کی گلیوں میں لوگوں سے پوچھ رہی تھیں کہ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد حالات کیسے ہیں؟ اکثر لوگ تو جواب دینے سے احتراز برت کر نظریں چرا لیتے تھے مگر ایک واجبی سے حلیے والے ایک ذہین شخص نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا۔ وہ اگر ایک لفظ بھی نہ بولتا تب بھی اس کے چہرے کے تاثرات پوری کہانی سنادیتے۔ عارفہ خانم نے مائیک آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ پانچ اگست کے بعد حالات کیسے ہیں؟ تو اس عام شہری کا جواب تھا: ”ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے۔ حالات اچھے ہیں“۔ شاید عارفہ خانم کو اس جواب میں روکھا اور مصنوعی پن نظر آیا تو انہوں نے کچھ بتانے پر اصرار کیا۔ اس شخص نے زمانے بھر کا کرب اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا: ’’کیا بتائوں، اب کہنے کو کیا بچا ہے، سب کچھ تو چھن گیا۔ جو شخص دن کو بات کرتا ہے رات کو اُٹھالیا جاتا ہے‘‘۔ یوں لگتا ہے کہ اس ماحول میں کشمیر کے لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں اقبال کی فکر اور انقلابی سوچ کو اپنا کر انہوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ کشمیری عوام کے جذبات نے اپنے اظہار کے لیے ایک نیا راستہ اور اپنی قیادت کے لیے ایک نیا فکری راہنما ڈھونڈ لیا ہے اور پانچ اگست کے بعد پیدا ہونے والی گھور گھٹاؤں میں انہوں نے روشنی کا ایک نیا استعارہ تلاش کرلیا ہے۔ ’’باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم‘‘ کا کلام کورس کی شکل میں عید کے روز گلی کوچوں میں پڑھتے ہوئے گھومنے والے کشمیریوں کے مزاج اور موڈ سے یہی اندازہ ہورہا ہے۔ اب کی بار کشمیر کو اقبال کی ضرورت بیداری کے لیے نہیں بلکہ ایک بیدار معاشرے میں احساس کی ایسی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لیے ہے جو آبگینے کی طرح سازگار حالات تک اگلی نسل کو منتقل ہوسکے۔