گندم کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافہ

اتحادی حکومت کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں

گندم کی فصل ابھی تک کٹائی کے مرحلے میں ہے۔ گندم جب گھر پہنچتی ہے تو کسان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ اِس بار ایسا نہیں ہے، کاشت کار اور کسان کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ گندم کی قیمت ایک بڑی وجہ ہے، دوسری وجہ ہے حکومتی پالیسی۔ ان مسائل پر کسانوں اور کاشت کاروں سے کی گئی گفتگو کا عرق اور نچوڑ یہ ہے کہ وسطی پنجاب کے اضلاع میں جہاں گندم کی کٹائی آخری مراحل میں ہے وہیں اسے ذخیرہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انتظامیہ نے حالیہ چند دنوں میں کئی کارروائیوں میں اربوں روپے مالیت کی ذخیرہ شدہ گندم ضبط کی ہے، رمضان المبارک کے دوران حکومت نے مفت آٹا تقسیم کیا تھا۔ مسلم لیگ(ن) کے راہنمااور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس عمل میں 20 ارب کی کرپشن کی نشان دہی کی، اس پر پنجاب حکومت نے ردعمل دیا تھا تاہم اب معاملہ نیب کو بھجوا دیا گیا کہ وہ تحقیقات کرے۔ کئی برسوں نے پنجاب میں گندم کی خریداری کا معاملہ اسکینڈل بنا ہوا ہے، گندم کی ذخیرہ اندوزی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کوئی بھی حکومت ابھی تک اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرکے یہ مسئلہ ختم نہیں کرسکی۔ ان دنوں گندم کا سیزن ہے لہٰذا یہ مسئلہ پھر سر اٹھا رہا ہے۔ گوجرانوالہ ڈویژن میں اب تک مجموعی طور پر 26 ہزار 273 میٹرک ٹن گندم قبضے میں لی جا چکی ہے جس کی قیمت 2 ارب 57 کروڑ روپے بنتی ہے۔گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاء الدین، حافظ آباد، نارووال اور وزیر آباد میں 280 کارروائیوں میں 461 گاڑیوں اور مختلف گوداموں میں چھپائی اور ذخیرہ کی گئی 25 ہزار 549 میٹرک ٹن گندم محکمہ خوراک، جبکہ 724 میٹرک ٹن گندم ضلعی انتظامیہ نے اپنے قبضے میں لی ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف 16 ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہیں۔

گندم کی ذخیرہ اندوزی کی دو بڑی وجوہات ہیں:

(1)ذخیرہ اندوز گندم خرید کر اس کی قلّت پیدا کرنے کے لیے اسے چھپا دیتے ہیں اور پھر قیمت بڑھنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔

(2) گندم کی افغانستان اسمگلنگ۔ چونکہ ملک سے باہر گندم بھیجنے پر بیوپاریوں کو مقامی منڈی کے مقابلے میں زیادہ منافع ملتا ہے اس لیے وہ اسے خرید کر مخصوص عرصے تک گوداموں میں رکھ لیتے ہیں۔

اِس سال جو کچھ ہورہا ہے ماضی میں نہیں ہوا تھا۔ ماضی میں کبھی گندم کی اتنی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جتنی رواں سال دیکھی جارہی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے گندم کی حالیہ فصل کو ’’بمپر کراپ‘‘ قرار دینے کے دعوے کے باوجود بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کی وجہ اس کی آنے والے دنوں میں متوقع اسمگلنگ ہے۔ذخیرہ اندوزوں کو یقین ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اِس برس بھی اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس وقت پنجاب میں محکمہ خوراک 3900 روپے فی من کے حساب سے گندم لے رہا ہے، جبکہ وسطی پنجاب کی منڈیوں میں گندم کا ریٹ 4200 سے 4400 روپے من تک پہنچ گیا ہے اور آنے والے دو مہینوں میں گندم کی قیمت 5500 روپے من سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق رواں سال گندم کی پیداوار 2کروڑ 68 لاکھ ٹن رہے گی جوکہ گزشتہ سال سے 4 لاکھ ٹن یعنی 1.6 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال ملک میں گندم کی پیداوار2 کروڑ 64 لاکھ ٹن ہوئی تھی۔محکمہ خوراک کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف مربوط کارروائی کی جا رہی ہے جس میں مختلف شہروں کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کو حکومتی اداروں کی معاونت بھی حاصل ہے۔ ابھی تک سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا 58 فیصد ہدف حاصل کیا جاسکا ہے۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور اِس مرتبہ فصل بھی اچھی رہی ہے۔ اسی وجہ سے امسال گوجرانوالہ ڈویژن کو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً ڈھائی لاکھ زیادہ بوریاں اکٹھی کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ اس سال ذخیرہ اندوزی میں اضافہ ہوا ہے لیکن سرکاری ہدف پور اکرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث بااثر زمینداروں، سیاست دانوں اور سرکاری افسروں پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ وسطی پنجاب کے اضلاع میں بااثر لوگوں نے بڑے بڑے گودام بنا رکھے ہیں جہاں بڑی مقدار میں گندم ذخیرہ کی جارہی ہے۔ انتظامیہ کی تمام تر کوششوں اور دعووں کے باوجود ذخیرہ اندوزی زور شور سے جاری ہے۔ محنت کسان کی، ریٹ سرکار کا، منافع آڑھتی کا۔ ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لا کر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ کے افسروں کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ جو گندم پکڑی جا رہی ہے اس میں لوگوں کی باہمی عداوتوں کا اہم کردار ہے۔ لوگ انتظامیہ کو اپنے مخالفین کے خلاف ذخیرہ اندوزی کی شکایت کرتے ہیں، اور اگر ذخیرہ اندوز عام آدمی ہو تو وہ انتظامیہ کے شکنجے میں آجاتا ہے۔ تاہم اگر کوئی بااثر ہے تو اس کے گودام کی طرف کوئی نہیں آئے گا۔ محکمہ خوراک کو صرف چھوٹا زمیندار ہی گندم بیچ رہا ہے۔ آڑھتیوں کی کوشش ہے کہ وہ کچھ مہینے انتظار کے بعد ہی گندم جاری کریں۔

پاکستان میں گندم کی قیمت نیچے لانے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ اس کی افغانستان کو اسمگلنگ روک دی جائے۔ جب ذخیرہ اندوزوں کو یقین ہوجائے گا کہ گندم اسمگل نہیں ہوسکتی تو منڈیوں میں گندم کی قیمت سرکاری قیمت یعنی 3900 روپے من سے بھی کم ہوجائے گی۔

صوبائی محکمہ خوراک کی 2 مئی کو جاری ایک رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ ضلع بھکر میں گندم کی 66 فیصد کٹائی مکمل ہونے کے باوجود حکومت ابھی تک اپنے مقررہ ہدف کا 25 فیصد ہی حاصل کرپائی ہے۔ ضلع بھکر میں رواں سال چار لاکھ تین ہزار ایکڑ رقبے پر گندم اگائی گئی ہے اور حکومت نے اس ضلع سے ایک لاکھ 10 ہزار میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب میں کام کرنے والے تمام بینکوں سے کوٹیشن طلب کیے جاتے ہیں اور جس بینک کا انٹرسٹ ریٹ سب سے کم ہوتا ہے اسی کو منتخب کیا جاتا ہے۔ بینک کے ساتھ معاہدے کے باعث دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاشت کاروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جو بینک خریداری مرکز سے 20 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں وہاں بینک اپنے سہولتی مراکز قائم کریں گے۔ ایسا ہونے کی صورت میں کاشت کاروں کو دور دراز علاقوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

مہنگائی پاکستان میں عام آدمی کو درپیش مسائل میں سرفہرست ہے، اور حکومت اس پر قابو پانے میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ وفاقی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں اپریل2023ء کے دوران مہنگائی کی شرح 36.42 فیصد رہی جو 1964ء کے بعد گرانی کی بلندترین شرح ہے۔ اپریل میں مہنگائی میں 2.41 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں مہنگائی میں اضافے کا 75 سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کا امکان ہے۔ امریکی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ پاکستان مہنگائی میں اضافے کی شرح میں سری لنکا سے بدستور آگے ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ادھر فلور ملوں نے 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 50 روپے کا اضافہ کردیا جس سے پرچون سطح پر اس کی قیمت 2580 روپے سے بڑھ کر 2630 روپے ہوگئی ہے۔ فلور مل مالکان کے مطابق پنجاب میں گندم کی نقل و حمل پر پابندی کے باعث اوپن مارکیٹ میں گندم کی فی من قیمت 100روپے اضافے سے 4600روپے تک پہنچ گئی ہے، اس لیے 20 کلوآٹے کے تھیلے کی قیمت میں 50روپے اضافہ کیا گیا۔

آٹے کے بعد حکومت نے گیس بم گرایا ہے اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب گیس میٹر کے ماہانہ چارجز میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ سوئی ناردرن کی جانب سے جاری گیس میٹر کا ماہانہ کرایہ 40 روپے سے بڑھا کر 500 روپے کردیا گیا ہے۔ یہ چارجز جنوری 2023ء سے لاگو ہوں گے۔ صارفین کو 3 ماہ کے بقایاجات، میٹر رینٹ اورگیس ٹیرف کی مد میں اضافی رقم دینا ہوگی۔ سوئی ناردرن نے رقم ہر ماہ گیس بلوں میں شامل کرکے بھجوانا شروع کردی ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے کہ عوام پہلے ہی بدترین مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، ہر چیز ان کی دسترس سے عملاً باہر ہوچکی ہے، اب گیس میٹر کا ہوشربا کرایہ بڑھاکر ان کے سر تھوپ دیا گیا ہے جس کی جنوری 2023ء سے وصولی بھی شروع کردی گئی ہے، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتحادی حکومت کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں، وہ صرف آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرکے اسے بہرصورت مطمئن کرنا چاہتی ہے چاہے مہنگائی سے عوام کا مزید بھرکس ہی کیوں نہ نکل جائے۔ وزیراعظم شہبازشریف اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ اس کے باوجود عوام پر مہنگائی کے مزید پہاڑ توڑنا حکومتی بے حسی کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ گیس میٹر کا کرایہ 40 سے ایک دم 500 روپے کرنا عوام کو زچ کرنے کے مترادف ہے۔ انہیں گیس کی سہولت پہلے ہی میسر نہیں، کئی علاقوں میں گیس کی سپلائی مکمل بند ہے، ایسے میںصارفین سے گیس میٹر کا کرایہ وصول کرنا جگا ٹیکس لینے کے مترادف ہوگا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہوچکے ہیں، اگر حکومت نے یہی روش برقرار رکھی تو عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے یا پھر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

نیا بم ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں گرایا گیا ہے۔ وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن نے مہنگائی کے تناظر میں ڈریپ کے پالیسی بورڈ کی سفارشات پر مبنی ادویہ کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمتوں میں اضافے کی سمری پیش کی۔ مارکیٹ میں ادویہ کی مسلسل دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ای سی سی نے ادویہ کے نرخوں میں20 فیصدتک اضافے کی اجازت دے کر غریب اور ناتواں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا جو بادی النظر میں ڈرگ مافیا کی ملی بھگت کا نتیجہ ہی نظر آتا ہے۔ عام آدمی پہلے ہی معمولی نزلہ بخار کے علاج کی سکت نہیں رکھتا، اس اضافے سے وہ عملاً موت کے منہ میں چلا جائے گا۔

دوسری جانب ادارۂ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹیں بھی حکومت کو مہنگائی بڑھنے کی دہائی دیتی نظر آرہی ہیں مگر حکومت کی طرف سے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ خوردنی اشیاء کے نرخ انتہا تک جا پہنچے، عام آدمی معمولی چیز خریدنے سے قاصر ہے، غریب آدمی علاج معالجے سے محروم ہو رہا ہے جبکہ جان بچانے والی ادویہ کے نرخ انتہائی بلند سطح پر پہنچا دیئے گئے۔مہنگائی کے بڑھنے میں جہاں حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیاں کارفرما ہیں، وہیں مصنوعی مہنگائی کرنے والا مافیا بھی انتہائی سرگرم نظر آتا ہے جو من مانے نرخوں پر اشیائے ضروریہ فروخت کرکے نہ صرف عوام کی مشکلات میں اضافہ کررہا ہے بلکہ حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کررہا ہے۔ اگر مہنگائی پر فوری قابوپا کر عوام کی مشکلات کا ازالہ نہیں کیا گیاتو حکومت کو انتخابات کے حوالے سے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔