عمران خان کی گرفتاری محاذ آرائی تصادم کا نیا مرحلہ

ایک ہی دن پورے ملک میں عام انتخابات کا ہونا ہی مسائل کا حل ہے۔

عمران خان کو نیب نے گرفتار کرلیا ہے۔ ان کی گرفتاری کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ایک دن قبل ہی فوج کی جانب سے آئی ایس پی آر کی مدد سے ان کے طرزعمل اور حاضر سروس فوجی افسران پر الزامات کی سیاست پر سخت ناگواری کا اظہار کیا گیا اور ان کو وارننگ دی گئی کہ وہ ادارے کے خلاف الزامات سے گریز کریں اور قانون کا راستہ اختیار کریں۔ ان کے بقول عمران خان خود ہی سرخ لائن عبور کررہے ہیں اور اس کے ذریعے وہ اداروں پر دبائو ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس بیان کے اگلے دن ہی عمران خان کی گرفتاری کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ ان کی گرفتاری نیب نے القادریہ ٹرسٹ کے مقدمے میں کی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس گرفتاری پر سخت برہم نظر آتے ہیں اور عدالتی احاطے سے عمران خان کی گرفتاری پر ان کا ازخود نوٹس لینا اور تمام متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران کو طلب کرنا ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ سادہ نہیں ہے۔ بقول چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ وہ کسی بھی صورت اس کارروائی پر سمجھوتا نہیں کریں گے اور اگر اس ضمن میں ان کو وزیراعظم کو بھی طلب کرنا پڑا تو وہ گریز نہیں کریں گے۔ عمران خان کی گرفتاری متوقع تھی اوربہت عرصے سے ان کو گرفتار کرنے کی حکمت عملی پر کام ہورہا تھا، اورآج جب عمران خان کو اسلام آباد عدالت میں پیش ہونا تھا تو وہیں ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عمران خان نے گرفتاری سے قبل دو ویڈیو بیان جاری کیے اورکہا کہ وہ کسی کے سامنے کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، اور ان کے بقول صرف ادارے ہی نہیں بلکہ ہر شہری ہی مقدم ہے، اور ان کو فوجی افسر کے خلاف پرچہ ہی درج کرنے کا موقع نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ کوئی تو ہے جو ریموٹ کنٹرول سے ملک کے نظام کو چلا رہا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ عمران خان کے حامی ان کی گرفتاری پر کتنا بڑا ردعمل دیتے ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان کی اس گرفتاری کے نتیجے میں انتشار کی سیاست کو مزید موقع ملے گا اور ملک نئی محاذ آرائی کی طرف بڑھے گا۔ عالمی برادری میں بھی عمران خان کی گرفتاری پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے اور عملاً ہم اپنا مذاق خود اڑانے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔

ایک طرف مذاکرات کی ناکامی اور دوسری طرف عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتا ہوا ٹکرائو ظاہر کرتا ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف خلاف تحقیقات نہ کرنے یا مقدمہ درج نہ کرنے کا کیا مقصد ہے؟ عمران خان بہت عرصے سے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ایک اعلیٰ فوجی افسر دیگر افسران کے ساتھ مل کر ان کو دو بار قتل کرنے کی کوشش کرچکا ہے اور اب بھی وہ اپنے ایجنڈے پر قائم ہے اورمجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔اس سے قبل عمران خان فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پربھی سخت الزامات لگاتے رہے ہیں، جبکہ ان سے قبل نوازشریف اورمریم نواز بھی جنرل باجوہ اورجنرل فیض حمید پر سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں، لیکن کسی نے بھی کچھ ثابت نہیں کیا اور نہ ہی اس پر شواہد پیش کیے۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان کیا کچھ کرتے ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ وہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ میں ان کی قبولیت کم ہے۔

سیاست اور جمہوریت میں مفاہمت اور مذاکرات ہی واحد سیاسی راستہ ہوتے ہیں اور انھی کو بنیاد بنا کر معاملات کو خرابی سے بہتری کی طرف لایا جاتا ہے۔ قومی سیاست بھی اسی الجھن کا شکار ہے اور لوگوں کو یقین نہیں کہ یہاں مذاکرات کے نتیجے میں مفاہمت ممکن ہوسکے گی۔ اس کی ایک بڑی وجہ قومی سیاست میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیا ن بداعتمادی کا ماحول ہے، اور اسی کے نتیجے میں قومی سیاست ایک بڑی تقسیم کا بھی شکار ہے۔ اس سیاسی کشیدگی کے ماحول میں حکومت اور حزب اختلاف کا آپس میں مل بیٹھنا ہی ایک بڑا سیاسی معرکہ ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کے نام پر تین مراحل میں میز سجائی گئی۔ حکومت کے بقول 65 فیصد معاملات طے ہوگئے ہیں، جبکہ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت معاملات کو حل ہی نہیں کرنا چاہتی اور وہ مذاکرات کو بنیاد بناکر معاملات میں تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتی ہے۔ سیاسی کہانی جہاں ایک طرف سیاسی محاذ پر چل رہی ہے تو دوسری طرف عدالتی محاذ پر بھی ماحول بہت گرم ہے۔ عدالت میں حکومت نے تحریری طور پر ایک بار پھر یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ عدالت سیاسی محاذ پر معاملات کو سلجھانا چاہتی ہے تو ہمیں مزید وقت دے تاکہ ہم کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسائل کو حل بھی کرسکیں اور کچھ فیصلے اتفاقِ رائے کے ساتھ ہوسکیں۔ جبکہ اس کے برعکس تحریک انصاف نے عدالت میں اپنا تحریری مؤقف پیش کردیا ہے کہ اب وہ کسی بھی صورت مں مزید مذاکرات نہیں کرے گی اورعدالت انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر آئینی تقاضوں کے تحت اپنا فیصلہ کرے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے سب سے زیادہ تنقید عدلیہ پر اس حوالے سے کی کہ عدالت نے آئینی معاملات پر پنچایت کا ماحول بنایا ہوا ہے اور اس کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن دوسری طرف حکومت عدالت میں پنچایت کا ہی مطالبہ کرتی ہے اوراس کے بقول ہمیں سیاسی بنیادوں پر فیصلہ کرنے دیں اور جب تک فیصلہ نہیں ہوتا عدالت اپنا آئینی فیصلہ سنانے سے گریز کرے۔ حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اس نے عدالت میں مفاہمت اوربات چیت کا انداز اختیار کیا ہوا ہے جبکہ پارلیمنٹ میں براہِ راست چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، حکومت کا رویہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کررہا ہے جو کسی بھی طور پر درست عمل نہیں، اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ پر تنقید تو بہت کی جارہی ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اسی عدالت اور چیف جسٹس نے سب سے زیادہ اپنے فیصلوں میں لچک دکھائی ہے۔ عدالت کی طرف سے بار بار یہ اشارہ کہ… حکومت اور حزبِ اختلاف مل بیٹھ کر انتخابات کی تاریخ کا تعین کرلیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عدالت بھی لچک دکھائے گی اور اپنا فیصلہ بھی تبدیل کرسکتی ہے… انتخابات کے حوالے سے حتمی فیصلہ سنانے کے بجائے گیند حکومتی کورٹ میں ڈال دی ہے اور اسے ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرلے تو یہ سب کے مفاد میں ہوگا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت دبائو میں ہے اور حکومت نے اپنی سیاسی حکمت عملی اورکچھ اقدامات کی بنیاد پر عدالت کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت اپنا فیصلہ سنانے کے بجائے بار بار فیصلے میں جہاں تاخیر کررہی ہے ،وہیں سیاست دانوں کو کہہ رہی ہے کہ وہ بات چیت کی مدد سے مسئلے کا حل نکال لیں۔لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جو بداعتمادی موجود ہے وہی سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ حکومت اورحزبِ اختلاف میں مذاکرات کی جو میز سجائی گئی ہے اس میں کچھ بڑوں کا بھی کردار ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس کے نتائج نہیں مل رہے لیکن یہ بات کسی حد تک وزن رکھتی ہے کہ جو لوگ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں ان پر یقینا کہیں نہ کہیں سے دبائو تو ہوگا۔ لیکن کیونکہ ابھی تک نتائج مثبت طو رپر سامنے نہیں آرہے تو لوگوں میں یہ تاثر جڑ پکڑ رہا ہے کہ مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہوسکیں گے۔ حالانکہ نتائج میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ حکومت اکتوبر میں عام انتخابات چاہتی ہے جب کہ عمران خان جولائی کے آخر میں یا اگست کے پہلے ہفتے میں انتخابات چاہتے ہیں۔ یہ کوئی ایسے مسائل نہیں جو حل نہ ہوسکیں۔ اگر دونوں قوتیں کچھ نہ کچھ لچک دکھائیں گی تو یقیناً اتفاقِ رائے ہوسکتا ہے، لیکن اگر اتفاق ِرائے ہونا ہے تو اس میں اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کے عمل میں پسِ پردہ شامل نہیں تب بھی اسے شامل ہونا ہی ہوگا کیونکہ اس کی مداخلت یا دبائو کے بغیر سیاسی قوتیں بالخصوص حکومت کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکیں گی۔کیونکہ یہ بحران معمولی نوعیت کا نہیں ہے، اور جہاں سیاسی بحران کا سامنا ہے وہیں ہمیں ریاستی محاذ پر بھی ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، اور اس عمل کی کامیابی یقینی طور پر بہت ہی غیر معمولی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گی۔کیونکہ سیاسی فریقوں میں اس حد تک بداعتمادی ہے کہ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں، اور اگر مذاکراتی عمل کو کامیاب ہونا ہے تو اس میں سیاسی محاذپر حکومت اور حزب ِاختلاف دونوں کو ہونے والے فیصلوں پر ضامن درکارہیں جو اس بات کی ضمانت دیں کہ جو کچھ طے ہوگا اس پر عمل بھی ہوگا۔سب سے بڑا مسئلہ سیاسی انتقام کا ہے اورکوئی فریق یہ نہیں چاہتا کہ مستقبل میں جوحکومت بنے وہ انتقامی کارروائی عمل میں لائے۔ مگر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوسکے گا،یہ پسِ پردہ مذاکراتی عمل کا حصہ ہے اوراس کی ضمانت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکے گا۔مذاکراتی عمل کو خراب کرنے میں دونوں اطراف کے سخت گیر راہنمائوں کا بھی بڑا کردار ہے، اوربالخصوص حکومت کی جانب سے خواجہ آصف اور جاوید لطیف سمیت کچھ لوگ مذاکرات مخالف ایجنڈے میں پیش پیش اور ماحول کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اب یہ جو مذاکرات مخالف لوگ حکومت کا حصہ ہیں وہ کس کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں، اس کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمٰن، نوازشریف اور مریم نواز کیونکر شہبازشریف کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں؟

بنیادی مسئلہ عام انتخابات کا ہے۔ سبھی اس نکتے پر متفق ہیں کہ ایک ہی دن پورے ملک میں عام انتخابات کا ہونا ہی مسائل کا حل ہے۔مگر جو لوگ انتخاب مخالف مہم چلارہے ہیں ان کے بقول انتخابات مسائل کا حل نہیں بلکہ اس کے لیے قومی حکومت یا ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بنا کر ہی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مگر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیںکہ انتخابات سے راہِ فرار حاصل کی جاسکتی ہے وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ اگر کسی نے بھی انتخابات سے راہِ فرار اختیار کی تو اول تو انتخابات اس کا پیچھا کریں گے اور دوسری طرف عدم انتخابات کی پالیسی ملک کو ایک بار پھر سیاسی اور معاشی طور پر پیچھے کی طرف دھکیلے گی۔اصل بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انتخابات کسی طور پر آج یا چند ماہ بعد بھی کسی صورت میں حکومت کے مفاد میں نہیں ہیں۔خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کو پنجاب اورمولانا فضل الرحمٰن کو کے پی کے میں سیاسی خطرہ عمران خان سے ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے نتائج ان کے خلاف ہوسکتے ہیں۔اسی خطرے کے پیش نظر انتخاب مخالف پالیسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر ابھی تک اس میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدے میں ناکامی ہو، مہنگائی یا بے روزگاری ہو، یا سیاسی اور معاشی عدم استحکام یا سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے نئے خطرات… کچھ بھی حکومت کے حق میں نہیں ہے۔ ایسے میں کسی مثبت تبدیلی اور ووٹرز کو مطمئن کیے بغیر کیسے انتخابات کی طرف بڑھا جاسکتا ہے؟ یہاں عمران خان کا بھی امتحان ہے اور وہ مسئلے کے حل میں لچک پیدا کرکے خود حکومت کو بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر عمران خان انتخابات ستمبر میں بھی لے آئیں اور حکومت ستمبر پر اتفاق کرلے عام انتخاب کے لیے، تو یہ خود عمران خان کی بڑی سیاسی کامیابی ہوگی۔ اس لیے عمران خان مذاکراتی عمل سے کسی بھی صورت علیحدگی اختیار نہ کریں اور بار بار اسی نکتے پر زور دیں کہ انتخابات جولائی یا اگست میں ہوں اور اتفاقِ رائے ستمبر پر ہوجائے۔ کیونکہ حکومت کی خواہش ہوگی کہ اس پر مذاکرات کا جو بھی دبائو ہے اس کو کم کرنے کے لیے وہ عمران خان سے کچھ اس انداز سے نمٹے کہ وہ خود ہی مذاکرات کے عمل سے علیحدگی اختیار کرلیں تاکہ حکومت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ دوسری جانب عدلیہ بدستور اپنے اس مؤقف پر قائم ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے لچک کا مظاہرہ نہ کیا اورکوئی مشترکہ فیصلہ نہ کیا تو عدالت اپنا فیصلہ سنانے سے گریز نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس کے بقول آئین کے مطابق چلنا ہی ہوگا اور اس کے لیے کوئی بھی بہانہ تلاش نہ کیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف میں کچھ طے نہیں ہوتا اور بداعتمادی کا ماحول برقرار رہتا ہے تو اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کیا فیصلہ سنائے گی؟ کیونکہ 14مئی کو انتخاب کا معاملہ تو عملاً ختم ہوکر رہ گیا ہے اور ایسی صورت میں سپریم کورٹ کا اپنا فیصلہ بھی اہم ہوگا کہ کیسے انتخاب ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح سے اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان جو ٹکرائو پیدا ہوگا یا جو گھمسان کی جنگ ہوگی اس سے کیا ہوگا؟ کیونکہ یہ ٹکرائو تو کسی بھی طور پر ریاستی مفاد میں نہیں، اور جو لوگ بھی اس ٹکرائو یا لڑائی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں وہ مسائل کو بڑھا دیں گے۔ اس لیے عملاً تو مذاکراتی عمل کو ہی نتیجہ خیز ہونا چاہیے، وگرنہ جو نتائج ہوں گے وہ خود سیاست اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔ حکومت کو زیادہ سنجیدگی دکھانا ہوگی اور وقتی سیاسی مفاد کے مقابلے میں بڑے سیاسی مفاد کو دیکھنا ہوگا، اور یہ جو سیاسی انتقام کے نام پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہورہا ہے اس سے بھی خود حکومتی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ حکومت عدلیہ کو فتح کرنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ نکالے اور یہی اس کے مفاد میں ہوگا۔

عمران خان کو بھی اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ حکومت آسانی سے معاملات کو طے نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت ایک طرف اسٹیبلشمنٹ پر اپنا سیاسی دبائو مزید تنقید کرکے بڑھا دیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے پورے ملک میں جلسے، جلوسوں کا اعلان کردیا ہے، اوران کے بقول وہ کسی بھی صورت حکمران طبقے سے سیاسی سمجھوتا نہیں کریں گے اور دبائو جاری رکھا جائے گا۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہ صرف دوریوں کو برقرار رکھا جائے بلکہ ان میں اور زیادہ کشیدگی پیدا کی جائے کیونکہ یہی اس کے سیاسی مفاد میں ہے۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ وہ بھی بلاوجہ کی سیاسی مہم جوئی یا اسٹیبلشمنٹ مخالف ایجنڈے سے گریز کریں اور خود معاملات کو وہاں نہ لے کر جائیں جہاں ان کو بھی کچھ نہیں مل سکے گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) میں نوازشریف کی واپسی کی خبروں پرکچھ مایوسی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ نوازشریف کی فوری واپسی ممکن نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی نوازشریف کے مقابلے میں شہبازشریف کے ہی قریب ہے، اور خود آصف علی زرداری بھی یہی سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کے مقابلے میں سیاسی معاملات پر شہبازشریف زیادہ لچک رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ آسانی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، مگر حالات بتارہے ہیں کہ ہم بہتری سے زیادہ انتشار کی جانب بڑھ رہے ہیں جو ایک بڑے سیاسی المیے سے کم نہیں ہے۔کیونکہ عمران خان کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ حکومت ہو یا طاقت ور طبقہ، وہ کسی بھی طور پر مفاہمت یا مذاکرات کے حامی نہیں ۔ وہی لوگ کامیاب نظر آتے ہیںجو مذاکرات کو ناکام بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اوراب مذاکرات کی کہانی کہیں پیچھے رہ گئی ہے اورانتشار کی سیاست کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔