ہم اور وہ

آپ اپنی پستی کی وجہ آج یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ مفلس ہیں۔ لیکن آپ کی مفلسی حضراتِ صحابہؓ سے بڑھی ہوئی ہے؟ اُن میں تو کتنے ایسے تھے، جو دونوں وقت خشک روٹی بھی نہیں کھا سکتے تھے، اور آپ تو ماشاء اللہ آج صاحبِ جائداد ہیں، زمینداریاں رکھتے ہیں، بینکوں میں حصے دار ہیں، تجارتی کوٹھیاں چلاتے ہیں، بڑے بڑے عہدوں پر ملازم ہیں……پھر آپ اپنی تعلیمی پستی پر نوحہ کرنے لگتے ہیں، لیکن صحابہؓ کن یونیورسٹیوں کے سندیافتہ تھے؟ ابوبکرؓ وعمرؓ نے کن کالجوں کے لیکچر سنے تھے؟ عثمانؓ و علیؓ نے کن درسگاہوں سے ڈگریاں حاصل کی تھیں؟ کتنے اسکول، ہائی اسکول، اور نائٹ اسکول اُن کے زمانے میں کھُلے تھے؟……اب آپ کہتے ہیں کہ آپ کے ادبار کا اصلی راز آپ کی تعداد کی کمی ہے، اور ایک طرف اگر انگریز آپ کو پیسے ڈالتے ہیں، تو دوسری طرف ہندو۔ آپ کے اس ارشاد پر پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی تعداد کو حضراتِ صحابہؓ سے کیا نسبت ہے؟ آپ تو ماشا ء اللہ 8کروڑ ہیں، وہ حضرات تو 8 لاکھ بھی کبھی نہیں ہوئے، بلکہ سالہا سال تو 8 ہزار ، اور اس سے قبل 8 سو بھی نہ تھے!

غرض افلاس، تعلیم، تعداد، جو بھی معیار رکھیے، آپ اپنے اِن بزرگوں، قابل صد رشک وہزار احترام بزرگوں سے گھٹے ہوئے نہیں، کہیں بڑھے ہوئے ہیں۔ اس پر بھی حال یہ ہے کہ وہ حاکم تھے، آپ محکوم ہیں۔ وہ آزاد تھے، آپ غلام ہیں۔ وہ بلند تھے، آپ حقیر ہیں۔ وہ غالب تھے، آپ مغلوب ہیں۔ اُنھوں نے نجد و یمن، حجاز و عراق، شام و فلسطین، مصر و ایران کو فتح کرلیا تھا، آپ اپنے لکھنؤ اور دہلی، اپنے لاہور وملتان، اپنے کشمیر و سندھ، اپنے بغداد و بصرہ کو بھی کھو بیٹھے! اُن کے نام کی دھاک بڑے بڑوں کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی، آپ کی پروا، چھوٹوں سے بھی چھوٹے نہیں کرتے! اُنھوں نے پایا اور کمایا، آپ نے کھویا اور گنوایا۔ وہ بڑھے، آپ گھٹے۔ وہ پھیلے آپ سمٹے……یہ سارا فرق کیوں؟ اگر فلاح وترقی، اقبال و کامرانی کا مدار دولت، تعلیم و تعداد پر ہوتا، تو آپ تو ان سے کہیں زیادہ دولت مند، کہیں زیادہ تعلیم یافتہ، اور کہیں بڑی تعداد میں ہیں!

فرق ایک، اور صرف ایک ہے۔ اُن میں اطاعت تھی، اور آپ میں خودرائی ہے، جو عمل میں مترادف ہے کج رائی کے۔ اطاعت آپ بھی کرتے ہیں، لیکن اپنی ہوائے نفس کی، اور اس کا نام، آپ نے دجّالیوں کی اصطلاح سُن کر آزادیِ خیال و حرّیتِ ضمیر رکھ لیا ہے۔ وہاں اطاعت تھی اللہ کی، اللہ کے رسولؐ کی۔ نفس کی نہیں، نفس آفریں کی۔ آپ انگریز اورہندو کے سامنے نماز چُپکے پڑھتے بھی شرماتے ہیں، وہ مشرکوں اور مسیحیوں اور یہودیوں اور زرتشتیوں کے سامنے چلّا چلّا کر تکبیر کہتے تھے۔ آپ کانفرنسوں اور رزولیوشنوں میں مست ہیں، اُنھیں لطف آتا تھا رکوع وسجود میں۔ آپ خودی کی منادی کرتے ہیں، وہ خدا کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپ کے لطف کی چیزیں ڈنر اور پارٹیاں ہیں، اُن کا ذوق سحری اور افطار کو ڈھونڈتا تھا۔ آپ اپنی راتیں سینما اور تھیٹر میں گنواتے ہیں، اُن کی راتوں کے پچھلے پہر تہجد اور مناجات میں بسر ہوتے تھے۔ آپ چندوں کا اعلان جلسوں اور اخباروں میں کرتے ہیں، اور بس چلے تو نقارہ پیٹ پیٹ کر کریں، وہ خیرات اس طرح چُپ چپاتے دیتے تھے کہ اپنے ہاتھ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی تھی۔ انسان وہ بھی تھے، انسان ہم بھی ہیں، مگر اسی ایک فرق نے اُن میں اور ہم میں آسمان و زمین کا فرق پیدا کردیا ہے!

( مولانا عبد الماجد دریابادیؒ ،مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ 1925ء تا 1977ء
جاری سچ، صدق، صدقِ جدید لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب)

مجلس اقبال
مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد

اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔