حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، کہا کہ ”میں بزدل اور کمزور ہوں“۔ آپؐ نے فرمایا: ”آئو ایسے جہاد کی طرف جس میں اسلحہ نہیں ہے، وہ حج ہے“۔ (طبرانی)
سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو۔……
اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغاز کار میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل‘ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ‘ ملک کے سارے نظامِ تعلیم‘ اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔
یہی چیز تھی جس کی ہم توقع رکھتے تھے کہ اگر انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ اس طریق کار کو اختیار کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی پوری طاقت عام مسلمانوں میں ایمان اور صحیح اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ نظامِ تعلیم کو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کے کارکن اور شہری تیار کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ الحاد پیدا کرنے والی تعلیم کو بدلا جائے گا اور اس کی جگہ خدا پرستی کی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ عام لوگوں کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان میں سے کوئی توقع بھی پوری نہیںہوئی۔ اگر اُس وقت حکومت اپنے تمام ذرائع و وسائل کو اِس کام کے لیے استعمال کرتی تو آج حالت بالکل مختلف ہوتی۔
اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کر سکیں۔ مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہو جائے۔
ذرائع ابلاغ کی اصلاح
سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع ابلاغ کو فحش اور بے حیائی‘ بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافرانہ اخلاق کیا اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔
اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا‘ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی‘ پورے معاشرتی نظام کی‘ پورے معاشی نظام کی‘ پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔
عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان‘ رسولؐ پر ایمان‘ قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات بنانے میں پولیس اتنی مہارت رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو چیلنج دے سکتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی جھوٹا مقدمہ بناکر دکھائے۔ گواہوں کا حال یہ ہے کہ عدالت میں جا کر صحیح گواہی دینا گویا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت تو ہے ہی جھوٹی شہادت دینے کی جگہ۔
پولیس خود بھی جھوٹے گواہوں کا ایک پورا گروہ تیار رکھتی ہے۔ یہی دو چیزیں اگر نگاہ میں رکھی جائیں تو آپ اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے ہاں اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا‘ جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کر دیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔
پہلے اصلاح پھر سزا
اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب ِ کار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعے سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔ یہاں تک کہ محلے محلے ‘ بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہو جائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی راے عام پیدا ہو جائے گی جو برائیوں کو سر نہ اٹھانے دے گی۔ کوئی شخص ایسی راے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور جو شخص صحیح طرز زندگی اختیار کرے گا اس کو پورا معاشرہ مدد دینے والا ہوگا۔
اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنا پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہوکہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سود حرام ہو‘ زکوٰۃ فرض ہو‘ حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزق حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان‘ اخلاق‘ تعلیم‘ انصاف‘ اصلاح معیشت‘ اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہو جائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔
لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتاہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام ‘ ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جا تا ہے— اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے (نبیؐ کا نظام حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ‘ ریڈیو پاکستان کے لیے انٹرویو: ناصر قریشی‘ ص۱۷-۲۱)۔