ہما را طبقہ متوسط، جو ہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، مسلسل اخلاقی انحطاط کی بدولت بالکل بھاڑے کا ٹٹو (Mercenery) بن کر رہ گیا تھا۔ اس کا اصول یہ تھا کہ جو بھی آجائے اجرت پر اس کی خدمات حاصل کرے اور پھر جس مقصد کے لیے چاہے اس سے کام لے لے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی ہمارے ہاں کرائے کے سپاہی بننے کے لیے تیار تھے، جنہیں ہر ایک نوکر رکھ کر جس کے خلاف چاہتا لڑ واسکتا تھا، اور ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے ہاتھ اور دماغ کی طاقتوں کو کم یا زیادہ اجرت پر لے کر ہر فاتح اپنا نظم ونسق چلا سکتا تھا، بلکہ اپنی سیاسی چال بازیوں تک میں استعمال کر سکتا تھا۔ ہماری اس اخلاقی کمزوری سے ہمارے ہر دشمن نے فائدہ اٹھایا ہے۔ خواہ وہ مرہٹے ہوں ،سکھ ہوں، فرانسیسی ہوں یا ولندیزی۔ اور آخر کار انگریز نے آکر خود ہمارے ہی سپاہیوں کی تلوار سے ہم کو فتح کیا اور ہمارے ہی ہاتھوں اور دماغوں کی مدد سے ہم پر حکومت کی ۔ ہماری اخلاقی حس اس درجہ کند ہو چکی تھی کہ اس روش کی قباحت سمجھنا تو درکنار، ہمیں الٹا اس پر فخر تھا۔ چنانچہ ہمارا شاعر اسے اپنے خاندانی مفاخر میں شمار کرتا ہے کہ:
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
حالانکہ کسی شخص کا پیشہ ور سپاہی ہونا حقیقت میں اس کے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے باعث ننگ ہے نہ کہ باعث عزت۔ وہ آدمی ہی کیا ہوا جو نہ حق اور باطل کی تمیز رکھتا ہو نہ اپنے اور پرائے کا امتیاز ۔ جو بھی اسے پیٹ کو روٹی اور تن کو کپڑا دے دے وہ اس کے لیے شکار مارنے پر آمادہ ہو جائے اور کچھ نہ دیکھے کہ میں کس پر جھپٹ رہا ہوں۔ یہ اخلاقی حالت جن لوگوں کی تھی ان میں کسی دیانت وامانت اور کسی مستقل وفاداری اور مخلصانہ وفاداری کا پایا جانا مستبعد تھا اور ہونا چاہیے تھا۔ جب وہ اپنی قوم کے دشمنوں کے ہاتھ خود اپنے آپ کو بیچ سکتے تھے ، تو ان کے اندر کسی پاکیزہ اور طاقت ور ضمیر کے موجود ہونے کی آخری وجہ ہی کیا ہو سکتی تھی؟
(مسلمانوں کا ماضی حال اور مستقبل 11 نومبر 1951ء کو کراچی میں منعقدہ اجتماع عام میں خصوصی خطاب)