بتول فاطمہ کی خوش بختی ہے کہ اس بچی نے ایک ایسے گھر میں جنم لیا جہاں قران، حدیث، فقہ، منطق، دلیل، تصوف اور بزرگانِ دینِ اسلام کے تذکرے ہی ان کے فردوسِ نظر بنے، یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی کم عمری میں ہی جب قلم اٹھاتی ہے تو ’’سفرنامہ مدینہ منورہ‘‘ لکھتی ہے۔ مشاہدے اور مطالعے کے مطابق اتنی کم عمری میں لکھا گیا کسی کا بھی سفرنامہ حجاز اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھا۔ یقیناً یہ مقدس سفر کی رواد بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے ادب میں قبولیت پائے گی، کیوں کہ بچے من کے سچے، معصوم اور ہر دل عزیز ہوتے ہیں۔ گرد پوش رنگین صفحات کے ساتھ بہت ہی اعلیٰ پیش کش ہے اور اس دور میں ہمارے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو پڑھا اور آگے پھیلایا جائے تاکہ خیر غالب آئے۔ یہ سفرنامہ بچوں کے ادب اور سفرناموں کی تاریخ میں سب سے کم عمر قلم کار کا دلچسپ اور روح پرور سفرنامہ ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔