خوش رہنے کے ساتھ ساتھ بسیار خوری پر قابو پانے سے شوگر کا مرض ختم ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ بسیار خوری شوگر کی جڑ ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری ظاہری زندگی میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپؐ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھاتے۔ آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ غذا کم کھایا کرے۔ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی معروف کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’بھوک صدیقین کی غذا اور مریدوں کی راہِ سلوک ہے۔ پہلے لوگ زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے، مگر تم کھانے کے لیے زندہ ہو‘‘۔ یعنی جینے کے لیے کھانا چاہیے، نہ کہ کھانے کے لیے جینا چاہیے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں مختلف تقریبات میں لوگ جس طرح کھانا کھاتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ ان کی زندگی کا آخری کھانا ہے، یا اس کے بعد قیامت آنے والی ہے۔
متنوع اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک میرے بہت پیارے دوست محمد متین خالد صاحب کا شمار تحفظِ ختمِ نبوت کے روحِ رواں اور ممتاز اسکالرز میں ہوتا ہے۔ وہ گزشتہ چونتیس سال سے اس مقدس محاذ پر پوری دل جمعی اور پُرجوش جذبے سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’شوگر کو شکست دیں‘‘ ان کی نئی کتاب ہے جو ایک نیا رنگ اور منفرد انداز لیے ہوئے ہے۔
شوگر کے بارے میں سادہ فارمولا ہے کہ اگر آپ علاج اور احتیاط سے اس پر قابو پالیتے ہیں تو آپ ایک بھرپور، نارمل اور خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ آپ کے اپنے بس میں ہے کہ شوگر کو اپنے اوپر حاوی کرلیں یا آپ شوگر پر حاوی ہوجائیں۔ تمثیلی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ بے لگام گھوڑا ہے، اگر سائس اس پر قابو پالے تو وہ کامیاب، ورنہ سائس کو خود جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ دراصل ہمارے کھانے پینے کے انداز اس مرض کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ خصوصاً کھانے میں فاسٹ فوڈ اور مصنوعی مشروبات کی بے اعتدالیاں سب سے اہم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کو چھوڑا ہے، ہمارے ہاں نت نئی بیماریاں در آتی ہیں۔ شوگر کنٹرول کرنے کا سب سے بہترین علاج طبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔ ’’جب بھوک ہو تو کھائو اور بھوک رکھ کر جائو‘‘۔ یعنی اُس وقت کھائو جب خوب بھوک لگے، اور کھانا کھاتے ہوئے اُس وقت ہاتھ کھینچ لو جب ابھی کھانے کی مزید طلب ہو۔ یہ عادت اپنانے سے کبھی شوگر کا عارضہ لاحق نہیں ہوسکتا۔
مشہور کہاوت ہے ’’اگر شوگر سمجھ میں آجائے تو پوری میڈیکل سائنس سمجھ میں آجاتی ہے‘‘۔ موجودہ دور میں شوگر کا مرض عالمی وبا کی حیثیت اختیار کرکے پوری دنیا کے لیے تشویش ناک مسئلہ بن چکا ہے، جب کہ یہ مرض ہمارے ملک میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس بیماری سے متعلق بنیادی معلومات کی کمی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ عوام کو اس خطرناک بیماری اور اس کی پیچیدگیوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ بیماری کو جسم میں پنپنے کا موقع نہ مل سکے اور بروقت اس کا تدارک کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے جناب محمد متین خالد کو، جنہوں نے وقت کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرتے ہوئے اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ تحقیق کی وادیوں میں خاک چھانی، ہزاروں مضامین کے عمیق مطالعے کے بعد پچاس کے قریب اہم مضامین کا بہترین انتخاب کیا اور حق ادا کردیا۔ ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں‘‘۔ پچاس کے قریب قابلِ قدر اور علمی مضامین پر مشتمل یہ کتاب ہماری زندگی کے ہر اُس پہلو کا احاطہ کرتی ہے، جس کا تعلق شوگر سے ہے۔ یہ کتاب شوگر کی تمام پیچیدگیوں اور اس کے تمام مسائل سے بچنے کے طریقوں سے نہایت آسان فہم انداز میں آگاہ کرتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ صحت مند افراد خود کو اس مرض سے محفوظ رکھ سکیں اور شوگر کے مریضوں کو اس کی پیچیدگیوں سے تحفظ حاصل ہو۔ لہٰذا لاعلمی میں شوگر کا ترنوالہ بننے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ یہ کتاب یقینی طور پر شوگر کے موضوع پر ایک زبردست تحقیقی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کے علاوہ میڈیکل سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے بھی یہ کتاب بڑی مفید ثابت ہوگی جسے آپ شوگر کا مستند انسا ئیکلوپیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں جو شوگر پر لکھے جانے والے بے شمار طبی مقالات کا اہم نچوڑ ہے، جو آپ کو شوگر پر مبنی بے شمار کتابوں سے بے نیاز کردے گی، جس کے مطالعے سے آپ شوگر جیسے موذی مرض سے یقینی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق جسے شوگر کا عارضہ لاحق ہوجائے اس کی طبعی عمر بڑھ جاتی ہے۔ یقین نہ آئے تو اس کتاب کو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ شوگر کو شکست دینے میں یہ کتاب آپ کی بہترین راہ نمائی کرے گی۔ ایسی گراں قدر کتاب شائع کرنے پر جناب محمد متین خالد زبردست ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ۔