میر تقی میرؔ نے کہا تھا:
سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اس حوالے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ کا حال یہ ہے کہ ان پر سیاست چھائی ہوئی ہے اور ذرائع ابلاغ میں سیاست ہی سکہ رائج الوقت بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی 90 فیصد خبریں سیاسی ہوتی ہیں۔ پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والے 99 فیصد کالم سیاست کے بارے میں ہوتے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں نظر آنے والے 95 فیصد انٹرویوز سیاسی ہوتے ہیں۔ ٹی وی کے 99 فیصد ٹاک شوز سیاست کا طواف کرتے ہیں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں نہ کہیں فلسفہ زیر بحث ہے، نہ کہیں ادب کا چرچا ہے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں کوئی عمرانیات پر کلام کرتا ہے، نہ نفسیات کو زیر بحث لاتا ہے۔ معیشت ہماری قومی زندگی کا مرکزی حوالہ ہے مگر معیشت سے متعلق بہت کم مواد ذرائع ابلاغ میں نظر آتا ہے۔ پاکستان نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی نظریاتی حوالہ نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام ذرائع ابلاغ کے حوالے سے سیاست کھا رہے ہیں، سیاست پی رہے ہیں، سیاست اوڑھ رہے ہیں، سیاست بچھا رہے ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کی سیاست زدگی کے اسباب کیا ہیں؟
زندگی کا عام تجربہ ہے کہ جب تک ناک صحت مند ہوتی ہے کسی کو خیال بھی نہیں آتا کہ اس کے چہرے پر ایک عدد ناک بھی موجود ہے، مگر ناک میں تکلیف ہوجائے تو ناک پورا جسم بن جاتی ہے اور انسان سارا وقت ناک ہی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی سیاست زدگی کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری سیاست بیمار ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست کو کوئی ایک بیماری لاحق نہیں۔ اسے سرطان کا مرض لاحق ہے، اسے ٹی بی ہے، مرگی کے دورے پڑتے ہیں، ہماری سیاست کے پھیپھڑے خراب ہیں، دل پوری طرح کام نہیں کر رہا، ہماری سیاست کو دکھائی بھی کم دیتا ہے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا مگر اب مدتوں سے ہماری سیاست کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ ہماری سیاست میں نہ کہیں اسلام زیر بحث ہے، نہ کہیں سوشلزم پر گفتگو ہورہی ہے۔ ہماری سیاست کا نہ کوئی دایاں بازو ہے نہ کوئی بایاں بازو ہے۔ ہماری سیاست خاندانوں اور شخصیات کا طواف کررہی ہے۔ کہیں اس پر شریف خاندان چھایا ہوا ہے، کہیں اس پر بھٹو خاندان کا غلبہ ہے، کہیں ہماری سیاست نوازشریف کے کھونٹے سے بندھی ہے، کہیں ہماری سیاست عمران خان کے نام کی مالا جپ رہی ہے۔ ہماری سیاست کی ایک بڑی بیماری یہ ہے کہ وہ 1950ء سے اب تک امریکہ مرکز ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو پاکستان میں مارشل لا لگ جاتا ہے، امریکہ کی خواہش ہوتی ہے تو پاکستان میں جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ پاکستانی سیاست کا ایک بڑا مرض یہ ہے کہ یہ ’’جرنیل مرکز‘‘ ہے۔ جرنیل جب چاہتے ہیں اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف نے دس، دس سال حکومت کی۔ جرنیل جب حکومت میں نہیں ہوتے تب بھی وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر سیاست دانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے رہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ اس کا سیاسی عدم استحکام ہے۔ 1990ء کی دہائی میں یہ سیاسی عدم استحکام حدوں کو چھو رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو پہلی بار اقتدار میں آئیں تو ان کی حکومت دو سال چل سکی، دوسری بار اقتدار میں آئیں تو انہوں نے بمشکل تین سال نکالے۔ میاں نوازشریف کی پہلی حکومت بھی دو سال چلی، دوسری حکومت تین سال چلی مگر مدت پوری نہ کرسکی۔ اس وقت بھی ملک کی سیاست ایک بھونچال سے دوچار ہے۔ عمران خان کی حکومت کو جنرل باجوہ، شریفوں اور بھٹوئوں نے چلنے نہ دیا۔ اب میاں شہبازشریف سے نہ سیاست سنبھل رہی ہے نہ معیشت سدھر رہی ہے۔
1990ء کی دہائی میں کراچی کے سیاسی حالات اتنے خراب تھے کہ لگتا تھا کراچی پاکستان سے الگ ہوجائے گا۔ اِس وقت بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ ان حقائق نے سیاست کو ہر دن کی سب سے بڑی خبر بنا دیا ہے۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کے اعصاب پر سیاست پوری طرح سوار ہے۔
ملوکیت بری چیز ہوگی مگر ملوکیت کے عہد میں سیاست زندگی کا ایک حصہ تھی، مگر بیسویں اور اکیسویں صدی کی جمہوری فضا نے زندگی کو سیاست کا ایک حصہ بنادیا ہے۔ دیکھا جائے تو بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی۔ نو آبادیاتی قوتوں کی گرفت اپنی نوآبادیوں پر اتنی سخت تھی کہ لگتا تھا نوآبادیوں میں آزادی کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوگا، مگر بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کے کس بل نکال دیے اور وہ اپنے مقبوضہ علاقوں پر مسلسل غالب رہنے کی قوت سے محروم ہوگئیں، چنانچہ بیسویں صدی درجنوں ممالک کی آزادی کی صدی بن گئی، اور آزادی کئی اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے۔ پھر بیسویں صدی میں روس اور چین میں کمیونسٹ انقلاب آئے۔ روس کے انقلاب نے دنیا میں سرد جنگ کا آغاز کیا جو کہ کم و بیش 70 سال جاری رہی۔
1979ء میں اسلام کی طاقت نے ایران میں اسلامی انقلاب برپا کرکے پورے مغرب کو چونکا دیا۔ اُسی زمانے میں سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرلیا اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا۔ ان تمام واقعات نے پاکستان سمیت پوری دنیا کی سیاسی فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے اور سیاست صبح سے شام تک زیر بحث رہنے والی شے بن گئی۔ ایک وقت تھا کہ سیاسی شعور صرف اخبارات پڑھنے والے طبقات تک محدود ہوتا تھا، لیکن پھر ریڈیو نے اس شعور کو بہت وسعت دے دی۔ ہمیں یاد ہے کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں ہمارے بڑے ماموں سید نفیس حسین روزانہ تین ریڈیو اسٹیشنوں سے خبریں سنتے تھے۔ پہلے وہ ریڈیو پاکستان سنتے اور آخر میں بھارت کے ریڈیو اسٹیشن سے خبریں سنتے۔ ٹیلی ویژن بالخصوص پرائیویٹ چینلز کی آمد نے سیاسی شعور کو اور وسعت دی۔ اس وقت پاکستان میں ’’ٹاک شوز‘‘ ڈراموں سے زیادہ مقبول ہیں اور پورے پاکستان میں کروڑوں افراد ان ٹاک شوز سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ بیسویں صدی اور اکیسویں صدی میں ریاست خدا بن کر بیٹھ گئی ہے۔ ہماری زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ہوگا جو ریاست کی دست برد سے باہر ہوگا۔ چونکہ ریاست کا مطلب سیاست ہے اس لیے بھی لوگوںکی بڑی تعداد سیاست بالخصوص نظری سیاست میں گہری دل چسپی محسوس کرتی ہے۔
سیاست طاقت کا کھیل ہے اور طاقت ہمیشہ سے انسانوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے، لیکن ملوکیت میں طاقت صرف چند خاندانوں کے پاس موجود ہوتی تھی، مگر جمہوریت نے ہزاروں لوگوں پر سیاست کی طاقت کا در کھول دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب تک سیاست میں نہیں آئے تھے وہ صرف ایک پڑھے لکھے وڈیرے تھے۔ سیاست میں آئے تو وہ جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ بن گئے اور جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے ہوئے پائے گئے، مگر جب اصل سیاسی طاقت ان کے پاس آئی تو وہ ’’قائدِعوام‘‘ کہلائے اور ’’قائدِ ایشیا‘‘ بن کر سامنے آئے۔ ان کے دو فقرے مشہور زمانہ اور ان کی طاقت کا مظہر تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘۔ اور انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ہم انڈیا کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے‘‘۔ جنرل ضیاالحق ملک کے سربراہ بننے سے پہلے صرف ایک جنرل تھے، جب انہوں نے طاقت کے مرکز کو مٹھی میں بند کرلیا تو ’’مردِ مومن مردِ حق‘‘ کہلائے۔ سیاست میں آنے سے پہلے میاں نوازشریف کی کوئی اوقات ہی نہیں تھی، مگر پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب محمد صلاح الدین کے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ نے اپنے سرورق پر میاں نوازشریف کی تصویر کے ساتھ یہ شعر شائع کیا:
ہیں سر نگوں ترے آگے ترے تمام حریف
خدا نواز رہا ہے تجھے نواز شریف
ایک وقت تھا کہ الطاف حسین کو چند ہزار لوگوں کے سوا کوئی جانتا نہ تھا، پھر سیاسی طاقت کی بنیاد پر وہ وقت بھی آیا کہ وہ ’’پیر صاحب‘‘ کہلائے اور کروٹن کے پتّوں پر ان کی شبیہ ظاہر ہونے لگی۔ عمران خان کبھی صرف ایک کرکٹر تھے مگر سیاسی طاقت کی وجہ سے اب لوگ انہیں ’’صاحبِ بصیرت‘‘ کہتے ہیں۔ سیاست کی یہی طاقت اسے ہر دن کی خبر بناتی ہے اور اسے عوام کے اعصاب پر سوار ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
پاکستان میں سیاست دولت کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ آصف علی زرداری کراچی کے ایک سنیما کے باہر کھڑے ہو کر بلیک میں ٹکٹ فروخت کیا کرتے تھے، مگر سیاست نے انہیں ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ اور بالآخر ارب پتی بنادیا۔ الطاف حسین کبھی ہونڈا ففٹی پر سفر کیا کرتے تھے مگر انہوں نے سیاست سے اتنا مال کمایا کہ وہ لندن میں اربوں کی جائداد کے مالک بن گئے۔ ملک کے ممتاز صحافی ضیا شاہد نے میاں نوازشریف سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن اُن کی ملاقات میاں صاحب کے والد سے ہوئی تو انہوں نے ضیا شاہد کو بتایا کہ میں نے میاں نوازشریف کی سیاست پر تین ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا ’’اب آپ کی میاں نوازشریف سے کیا توقع ہے؟‘‘ اس کے جواب میں نوازشریف کے والد نے کہا ’’اب نوازشریف کو مجھے 9 ارب روپے لوٹانا چاہئیں‘‘۔ یہ تو سیاست کی بالائی سطح کی باتیں ہیں، ہم نے کونسلر کی سطح کے لوگوں کو لکھ پتی بنتے دیکھا ہے۔ چونکہ سیاست سے دولت کمائی جاسکتی ہے اسی لیے سیاست کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ہر شخص فلسفے، ادب، تہذیب، تاریخ اور سائنس پر بات نہیں کرسکتا۔ ان موضوعات پر بات کرنے کے لیے سنجیدہ مطالعہ ناگزیر ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاست کی سطح اتنی پست ہے کہ اس پر گفتگو کے لیے کسی علمی اور ذہنی سطح کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ لوگ اخبار میں کسی کا ایک کالم پڑھ لیتے ہیں اور سیاست پر ایک ’’ماہر‘‘ کی طرح گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ لوگ ٹی وی پر دو چار ٹاک شوز ملاحظہ کر لیتے ہیں اور پھر وہ کسی بھی محفل میں سیاست پر گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں چار لوگ جمع ہوتے ہیں سیاست پر بحث مباحثے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ایسے بحث مباحثے کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ بازار میں وہی چیز موجود ہوتی ہے جو زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ چونکہ سیاست پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ’’پروڈکٹ‘‘ ہے، اس لیے خبر ہو یا کالم، ٹاک شو ہو یا انٹرویو، ہر جگہ سیاست کا راج نظر آتا ہے۔