بھارت نے جسے بھگوڑا قرار دیا ہے اُس ’’گاڈ مین‘‘ نِتیانند کی ایک خادمہ نے ’’کیلاش‘‘ نامی ریاست (!) کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے ایک آن لائن اجلاس میں شرکت کی تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہنگامہ اس لیے برپا ہوا کہ کیلاش نام کی کوئی ریاست اقوامِ متحدہ کے ارکان میں شامل نہیں۔ کیلاش سے متعلق ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ریاست میں نِتیانند اور اُس کے پیرو رہتے ہیں۔ یہ دراصل نِتیانند کی بنائی ہوئی اپنی خیالی جنت ہے۔ اس خیالی جنت میں وہ اور اُس کے پیرو اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔
نِتیانند کا تعلق بنگلور سے تھا۔ اس نے مختلف جائز و ناجائز ذرائع سے اربوں روپے جمع کیے، اور جب یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو وہ اپنے چاہنے اور ماننے والوں کے ساتھ نامعلوم مقام پر منتقل ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیلاش نام کی کوئی جگہ ہے بھی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نِتیانند بھارتی خفیہ اداروں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والے اداروں کو غُچّہ دینے کی خاطر جھوٹ بول کر کہیں چھپا بیٹھا ہو؟ کہا جاتا ہے کہ نتیانند نے ایکواڈور میں ایک جزیرہ خریدا ہے جہاں وہ اپنے چیلوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ایکواڈور سے بھارت کا مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ ایسے میں اس بات کا امکان کم و بیش معدوم ہے کہ بھارت کی حکومت کبھی نتیانند کو گرفتار کرکے وہاں سے لانے میں کامیاب ہوسکے گی۔
اس وقت انتہائی مالدار طبقے میں جزیرے خریدنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ جزیرے کسی نہ کسی ملک کی حدود میں تو ہوتے ہیں تاہم اِن کا نظم و نسق بہت حد تک ملکی قوانین کی حدود سے باہر ہوتا ہے۔ انتہائی مالدار شخصیات اِن جزائر کو اپنے مطلب کی سرزمین میں تبدیل کرنے کے لیے جی بھرکے دولت خرچ کرتی ہیں۔ جزیرے خریدنے کے رجحان کا جائزہ لینے سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ مستقبلِ قریب میں دنیا سیاسی و سفارتی اعتبار سے کس حد تک پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ مستقبل میں ایسے جزائر چھوٹی سی آزاد و خودمختار ریاست کی حیثیت کے ساتھ اچھی خاصی نراجیت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
1516ء میں سر ٹامس مور نے ’’یوٹوپیا‘‘ لکھی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے زمین کے سینے پر بسائی جانے والی خیالی جنت کا تصور پیش کیا۔ یونانی زبان میں یوٹوپیا خیالی جنت کو کہتے ہیں، یعنی کوئی ایسا خطہ جو ہماری اِس حقیقی دنیا سے بہت دور، الگ تھلگ ہو، اور جہاں اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا بہت حد تک آسان ہو۔ اِس خیالی جنت میں زندگی کی وہ شکل پائی جائے گی جو اب تک صرف ہمارے خوابوں اور خیالوں میں پائی جاتی رہی ہے۔
مذہبی صحائف میں ایسے خطے کا ذکر ہے جہاں اِس دنیا کی کوئی پریشانی ہوگی نہ تکلیف۔ یہاں جو چیزیں سُکھ پہنچا سکتی ہیں اُن سے کہیں زیادہ سُکھ پہنچانے والی اشیاء وہاں پائی جائیں گی۔ اُس دنیا یعنی جنت میں ہمیشگی ہوگی، یعنی انسان بھرپور مسرت کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ابراہیمی مذاہب کے ساتھ ساتھ ہندو اِزم کی مقدس ترین کتب میں مذکور ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ بھی کیا جائے گا اُس کی بنیاد پر دوسری یعنی اُخروی دنیا میں سورگ (جنت) ملے گا۔ اسلام میں لفظ جنت ہے جبکہ انگریزی میں لفظ heaven یا paradise استعمال ہوتا ہے۔ ویسے آسمانوں کو انگریزی میں heavens کہا جاتا ہے۔ جیمز ہلٹن کی کتاب ’’لوسٹ ہورائزن‘‘ میں جنت کا تصور پیش کرتے ہوئے اُسے ’’شانگریلا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تاؤ یوآن مِنگ نے ’’دی پیچ بلوسمز اسپرنگ‘‘ میں خیالی جنت کا تصور پیش کیا ہے جس کا ہماری اس حقیقی یعنی باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ایلس کی شاعری میں ’’لینڈ آف کوکائن‘‘ کے مکانات رنگ برنگے ہیں اور اُن کے راستے بچوں کی پسندیدہ پیسٹری سے بنائے گئے ہیں۔ 1970ء کی معروف سائنس فکشن ٹی وی سیریل ’’اسٹار ٹریک‘‘ میں خیالی جنت کو ’’دی فیڈریشن‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ ’’ہنگر گیمز‘‘ سیریز میں خیالی جنت ’’دی کیپٹل‘‘ کے نام سے پیش کی گئی ہے۔ آلڈس ہکسلے کی کتاب ’’دی بریو نیو ورلڈ‘‘ میں ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں خوشی ہے نہ غم۔ اس دنیا میں جنگ و جدل ہے نہ تناؤ۔ جذبات بھی نہیں۔ سب یکساں مزاج کے ساتھ جیتے ہیں اور ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جس میں الجھن نام کی کوئی چیز نہیں۔
یہ تو ہوئی خیالی جنت کی بات۔ بہت سے مذہبی صحائف میں رُوئے ارض ہی پر ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں ظلم ہے نہ تشدد۔ ہندوؤں میں ایسی سرزمین رام راج والی ہوگی یعنی وہاں رام چندر جی کے اصولوں اور آدرشوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے گی اور لوگ مکمل سُکھ سے رہیں گے۔ اہلِ اسلام کے لیے یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں ہم جو کچھ بھی کریں گے اُس کا حساب قیامت کے دن اللہ کو دینا ہوگا۔ تب فیصلہ ہوگا کہ ہمیں جنت ملے گی یا نہیں۔
فی الحال کہیں اور جانا تو ممکن نہیں۔ چاند پر بستی بسانا بھی تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ مریخ پر آباد ہونے کا خواب بھی اب تک محض خواب ہے۔ ایسے میں انتہائی مالدار طبقے کے پاس اپنی مرضی کی دنیا بسانے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا جزیرہ خریدیں اور اُسے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالیں۔ مالدار ترین افراد میں سے بہت سوں نے جزیرے خرید کر اپنی مرضی کی طرزِ رہائش اختیار کی ہے۔ دنیا سے دور اپنی مرضی کی دنیا بسانے والوں کی تعداد اب اچھی خاصی ہوچکی ہے۔ مائیکروسوفٹ کے بانی سربراہ بل گیٹس نے 2006ء میں اِس رجحان کا اندازہ لگالیا تھا۔ انہوں نے 314 ایکڑ رقبے پر مشتمل جزیرہ ’’بیوگ‘‘ خرید کر اُسے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا تھا۔ برطانوی ارب پتی رچرڈ برانسن نے برٹش ورجینیا میں واقع نیکیر اور ماسٹیکو نامی جزائر خریدے ہیں۔ جان مالون بہاماس میں واقع جزیرے سیمسن کے مالک ہیں۔ توانائی کے شعبے کے معروف مشروب ریڈ بُل کے مالک ماٹیچِٹز کی ہورڈنگ فیجی میں لاؤکالا جزیرے کے مرکزی دروازے پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اوریکل کے بانی لیری ایلیسن ہوائی میں واقع جزیرے لانائی کے مالک ہیں۔ سی این این کے ٹیڈ ٹرنر اب اپنا بیشتر وقت جنوبی کیرولائنا میں واقع دریائی جزیرے سینٹ فلپ پر گزارتے ہیں۔ روسی ارب پتی رومن ابرامووچ نے پانچ سال پہلے 70 ایکڑ کا جزیرہ سینٹ بورٹس 9 کروڑ ڈالر میں خریدا۔ وارن بفیٹ، ایمیزون کے بانی سربراہ جیف بیزوس، گوگل کے لیری پیج اور ٹیسلا کے ایلون مسک بھی ذاتی جزائر کے مالک ہیں۔ علاوہ ازیں ہالی وڈ کے معروف اداکار، عرب شیوخ اور یورپ کے مالدار ترین افراد بھی جزائر کی خریداری میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ مکانات، اپارٹمنٹس، بنگلوں اور فارم ہاؤسز کی خرید و فروخت سے جُڑے ہوئے رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں کی طرح جزیروں کی خرید و فروخت کے شعبے میں بھی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ شمالی و جنوبی امریکہ، برطانیہ، پرتگال، بہاماس، فیجی، مکاؤ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، سنگاپور، یونان، ویسٹ انڈیز، ہانگ کانگ اور دیگر خطوں میں بڑے بڑے جزائر خریدے جانے کے منتظر ہیں۔
جزائر خرید کر اُنہیں اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کا خیال پہلے پہل 1960ء کے عشرے میں یونان کے شپنگ ٹائیکون ایرسٹوٹل اوناسس کو آیا تھا۔ اُس نے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیوی جیکولین کینیڈی کو اسکارپیس نامی جزیرہ خرید کر تحفے میں دیا تھا۔
امریکہ اور کینیڈا میں مصروف رہنے والی کرس کرولو کی کمپنی صرف جزائر کی خرید و فروخت کرتی ہے۔ اس وقت اُس کے پاس ساڑھے سات سو جزائر فروخت کے لیے حاضر ہیں۔ کرس کرولو کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ارب پتیوں میں اب جزائر خریدنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس رجحان کو اس نے آئلومینیا کا نام دیا ہے، یعنی جزائر خریدنے کی بیماری یا جنون۔ نیلام سے جُڑی ہوئی کمپنیاں ساؤتھ بی اور کرشٹی بھی اب جزائر کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
جن جزائر کی خرید و فروخت ہوتی ہے اُن میں سے بعض اِتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اُن میں صرف فارم ہاؤس بنایا جاسکتا ہے، اور بعض اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ چھوٹا موٹا شہر بسایا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی جزیرہ مین لینڈ سے جتنی دور اور ویران ہوتا ہے اُتنا ہی سستا ہوتا ہے۔ اگر کسی جزیرے پر کچھ لوگ رہتے بھی ہوں تو اُنہیں کہیں اور بسانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ جزیرے کی قیمت کے تناسب سے وہاں آباد لوگوں کو کہیں اور بسانے میں کچھ خاص خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ بعض جزائر کروڑوں ڈالر میں ملتے ہیں۔ ہموار زمین والے جزائر کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ قدرتی ماحول سے آراستہ جزیرے زیادہ قیمت پاتے ہیں۔
معاشروں میں بڑھتی ہوئی خرابیوں اور انتشار کے باعث انتہائی مالدار افراد اب عوام کے درمیان رہنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ سلامتی یقینی بنانے کے لیے وہ الگ تھلگ رہتے ہیں۔ شہروں میں بھی وہ اپنے لیے الگ علاقے بنواتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی آبادیاں موجود ہیں جو صرف انتہائی دولت مند افراد کے لیے ہیں۔ عام آدمی یا زیریں متوسط طبقے کا کوئی فرد وہاں مکان تو کیا، معمولی سا اپارٹمنٹ بھی خریدنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ یہی حال انتہائی دولت مند افراد کا ہے۔ اب وہ شہروں اور ملک کی مرکزی زمین سے دور جزائر پر رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جزیرے خرید کر وہ اپنی مرضی کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور وہاں پوری سلامتی کے ساتھ سکون سے رہتے ہیں۔
آج کی دنیا میں سیاسی انتشار ہے، مہنگائی کی وجہ سے جرائم کی شرح بلند ہوتی جارہی ہے۔ افلاس کے ہاتھوں معاشروں میں طرح طرح کی ذہنی بیماریاں پنپ رہی ہیں۔ عام آدمی انتہائی نوعیت کے انتشارِ ذہنی کا شکار ہے۔ معیشتی خرابیاں معاشرتی خرابیوں کو راہ دے رہی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ سلامتی ہے۔ تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشروں میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں انتہائی مالدار طبقہ عوام میں یا شہروں کے کونوں کھدروں میں واقع علاقوں میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنی سلامتی بھی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ انتہائی مالدار افراد معاشرے کو تبدیل نہیں کرسکتے، اپنی مرضی کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، تاہم وہ کوئی الگ تھلگ قطعۂ اراضی خرید کر اُسے تو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال ہی سکتے ہیں۔ اِس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ساحل سے تھوڑے فاصلے پر کوئی جزیرہ خریدیے، اُس تک عوام کی رسائی بند کیجیے اور اُسے اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر اُسی طرح زندگی بسر کیجیے جس طرح بسر کرنے کی خواہش ہے۔ معاشرے کے عمومی انتشار سے بہت دور کسی جزیرے پر زندگی بسر کرنا واقعی پُرلطف ہے، اور جب ضرورت محسوس ہو تب، تھوڑی دیر کے لیے، معاشرے سے دوبارہ جُڑنا بھی کچھ دشوار نہیں۔
بہت سے انتہائی مالدار افراد محض اس لیے جزیرے خریدتے ہیں کہ جسمانی اور ذہنی تھکن کے ہاتھوں جب زندگی بوجھ سی محسوس ہونے لگتی ہے تب وہ سکون کے چند لمحات گزارنے کے لیے الگ تھلگ علاقوں میں فارم ہاؤس یا پھر کسی چھوٹے سے ذاتی جزیرے پر گھر بنواتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ دو تین دن وہاں گزار کر جب وہ دوبارہ تازہ دم ہوجاتے ہیں تو معاشرے میں واپس جاکر اپنا کام زیادہ دل جمعی سے کرتے ہیں۔ جزائر عیاشی کے لیے بھی خریدے جاتے ہیں اور جرائم کی دنیا کے بڑے چہروں کو چھپانے کے لیے بھی۔ قانون کو مطلوب افراد کو روپوش رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے جزائر بھی موجود ہیں۔ بعض جزائر محض اس لیے خریدے جاتے ہیں کہ فطرت سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔ غیر آباد جزائر پر مالدار افراد اپنی مرضی کا قدرتی ماحول پیدا کرتے ہیں۔ وہ حیوانات بھی پالتے ہیں اور اُنہیں ڈھنگ سے رہنے کے لیے موزوں ماحول بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ماحول چڑیا گھر کے ماحول سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ کچھ جزائر تجربوں کے لیے خریدے جاتے ہیں۔ روبوٹس کا شہر بسانے کے لیے جزیرہ خریدا جاسکتا ہے۔ بہت سے سائنسی تجربوں کے لیے جزیرے مثالی نوعیت کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ بعض چھوٹے جزائر ہوٹل یا کانفرنس سینٹرز بنانے کے لیے خریدے گئے ہیں۔ ایسے جزائر میں سلامتی یقینی بنانا قدرے آسان ہوتا ہے۔