عدلیہ اور پارلیمان ایک دوسرے کے فیصلوں کو ماننے سے انکاری
عیدالفطر کے موقع پر سیاسی رہنماؤں کے درمیان سیاسی صورت حال اور مذاکرات کے حوالے سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہا۔ سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک مشترکہ مؤقف اپنانے کے لیے 27 اپریل تک کی مہلت دی تھی جس کے بعد ہی سیاسی جماعتوں میں رابطوں میں تیزی آئی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، سابق صدر آصف علی زرداری، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سردار اختر مینگل، چودھری شجاعت حسین، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیرپاؤ، پروفیسر ساجد میر اور شاہ اویس نورانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور سیاسی صورت حال پر گفتگو کی۔ مذاکرات کے حوالے سے حکومت کے نامزد نمائندوں کا تحریک انصاف سے بھی رابطہ ہوا ہے، سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے رابطہ کیا، تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس اور مریم نواز کی ٹویٹ کے بعد ملاقات طے نہ ہوسکی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے خاصے سرگرم نظر آئے، اُنہوں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور تحریک انصاف کے صدر چودھری پرویزالٰہی سے بھی ٹیلی فونک گفتگو کیّ
اس وقت ملک کا مجموعی سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ اداروں میں تقسیم نظر آرہی ہے، پارلیمان اور عدلیہ دونوں ایک دوسرے کے فیصلے نہیں مان رہے۔ ملک میں معاشی مشکلات ہیں، عام آدمی کی معاشی صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کا بڑی دل سوزی کے ساتھ بصیرت افروز تجزیہ کیا جائے۔ سیاسی قیادت کے باہم دست و گریباں رہنے کی صورت میں کسی غیرآئینی اقدام کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جس کے بعد سیاسی نظام بھنور میں پھنس جائے گا۔ یہ رائے موجود ہے کہ ملک کی عسکری قیادت فی الحال ایسا نہیں سوچ رہی، لیکن معاشی اور سیاسی ابتری بڑھتی رہی تو غیرآئینی حل ناگزیر بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی آج سے زیادہ سنگین معاشی اور سیاسی صورتِ حال پہلے کبھی نہیں تھی۔ کسی بھی ملک میں معاشرے اور اداروں میں تقسیم گہری ہوجائے تو انارکی غیر آئینی تبدیلی ہی لاتی ہے جس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوجائیں گے۔ اس صورتِ حال میں باقی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن اور نگران سیٹ اَپ کے تحت انتخابات ہوں۔
اس پس منظر میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے، ثالثی کرانا نہیں، ثالث کا کردار اور بات چیت کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ اجلاس میں ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کی کوشش کی جائے گی۔ ابھی تک ان مذاکرات سے متعلق کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں، تاہم کچھ اشارے ایسے مل رہے ہیں کہ مذاکرات سے راستہ نکلنے کی کوئی امید نہیں ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ’’کسی جماعت کے لیے سیڑھی اور کسی کے لیے سانپ‘‘ کا ماحول بنا ہوا ہے، حکومت میں شامل جماعتیں، خصوصاً مسلم لیگ(ن) انتخابات سے نہیں بلکہ مہنگائی سے جو سیاسی ماحول بن رہا ہے اس سے گھبرا رہی ہے کہ ووٹرز اس سے بدلہ لیں گے۔ مسلم لیگ(ن) اکتوبر، جب کہ تحریک انصاف 14 مئی اور دیگر جماعتیں درمیان کی کوئی تاریخ مانگ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بیچ کی تاریخوں میں الیکشن ہو بھی جائیں تو کیا تب بھی انتخابی نتائج تسلیم کرلیے جائیں گے؟ اتحادی جماعتوں نے پی ٹی آئی سے مشروط بات چیت نہ کرنے پر اتفاق کیا لیکن تحریک انصاف مشروط یعنی الیکشن پر ہی بات کرنے پر زور دے رہی ہے۔ حکمران اتحاد تحریک انصاف کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتا کیوں کہ اس میں پرویز خٹک کے سوا کوئی سینئر رہنما نہیں ہے۔ ایک نئی پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ انہوں نےمذاکرات کا اختیار اسد قیصر کونہیں بلکہ شاہ محمود قریشی کو دیا ہے۔ تحریک انصاف سے متعلق ایک رائے حتمی ہے کہ جب تک عمران خان کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوں گے، اس کی ٹیم کوئی فیصلہ بھی نہیں کر پائے گی۔ عمران خان پورا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح صرف اور صرف پنجاب میں انتخابات ہوجائیں۔ باقی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن اور نگران سیٹ اَپ کے تحت انتخابات ہوں۔ ملکی سیاسی صورت حال پر حتمی رائے یہی ہے کہ مسائل کا حل بات چیت سے ہی نکلے گا اورکوئی بھی مسئلہ ایک جماعت تنہا حل نہیں کرسکتی،اس کے لیے تمام جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے لیکن یہ بھی درست نہیںکہ سیاسی جماعتوں کو کہا جائے کہ دو تین گھنٹے میں فیصلہ کرکے آجائیں تو الیکشن آگے کر دیے جائیں گے ورنہ الیکشن 14 مئی کو ہی ہوں گے۔ ملک میں تمام اسمبلیوں کی مدت اگست میں ختم ہورہی ہے اور اس طرح اکتوبر میں الیکشن ہونا ہیں، تاہم اگر کسی کو بہت زیادہ جلدی ہے اور وہ کسی وجہ سے قبل از وقت الیکشن کرانا ضروری سمجھتا ہے تو اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو کچھ وقت دیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ کسی متفقہ و مشترکہ فیصلے اور نتیجے تک پہنچ سکیں۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ ایک قانون بنائے اور وہ قانون ابھی ایکٹ کا درجہ بھی اختیار نہ کرے اور نافذالعمل بھی نہ ہو مگر اس پر حکم امتناع جاری کردیا جائے۔ ایسی جلد بازی ملک کو نقصان پہنچائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ جلد بازی کے بجائے بہت دانش مندی اور سوچ بچار سے کام لیا جائے تاکہ ملک جو پہلے ہی کئی بحرانوں کا شکار ہے، مزید بحرانوں میں مبتلا نہ ہونے پائے۔ ملک میں آئینی، سیاسی اور معاشی بحران بہت گہرے ہیں، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر خلوصِ نیت سے ان کا حل تلاش کرنا ہوگا،کوئی جماعت تنہا ان بحرانوں سے نمٹنے کے قابل نہیں۔
دوسری جانب سیاسی تنائو میں کمی کے لیے جماعت اسلامی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے چودھری شجاعت سے اُن کے گھر پر ملاقات کی ہے جس میں چودھری سرور، جنرل سیکرٹری پنجاب چودھری شافع حسین بھی شریک ہوئے۔ چودھری شجاعت حسین نے بھی تائید کی کہ وہ سیاسی بحران ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک آگے بڑھ سکے۔ملاقات میں ایک ہی روز انتخابات کرانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کی مذاکراتی ٹیم نے بھی سیاسی جماعتوں سے ملاقات کی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اپنی تمام سیاسی مجبوریوں اور تحفظات کے باوجود بات چیت کی اہمیت کو کسی نہ کسی طرح تسلیم کیا جا رہا ہے۔حکومتی اتحاد ہو یا پی ٹی آئی، سب مذاکرات پر آمادہ نظر آتے ہیں۔اگر سیاسی جماعتیں پیشگی شرائط اور صرف اپنے ایجنڈے کے اصرار سے باہر نکل آئیں تو مذاکرات ہونا ناممکن نہیں۔ چند روز سے سیاسی دھڑوں کی جانب سے لچک بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) میں سب سے بڑا اختلاف انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔یہ ایسا معاملہ نہیں کہ حل ہی نہ ہو سکے۔ ملک اس وقت مالی بحران میں مبتلا ہے،آئی ایم ایف کچھ شرائط رکھتا ہے، جب بھاگ دوڑ کر کے وہ پوری کردی جاتی ہیں تو وہ نئی شرائط پیش کر دیتا ہے۔ قانونی جنگ اپنی جگہ پر ہے لیکن یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر جمہوری تسلسل جاری رکھا جانا ہے تو جلد یا بدیر انتخابات کرانے ہی ہوں گے۔ اگر سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش سنگین چیلنجوں کا ادراک رکھتی ہیں تو سیاسی تلخیاں کم کریں، اپنے اپنے جنگجوؤںکو بیانات کی چاند ماری سے روکیں۔
آرمی چیف کی سفارت کاری، شہباز شریف کا انکشاف
وزیراعظم شہبازشریف کے گزشتہ دنوں اس انکشاف نے کہ سعودی عرب سے مالی امداد کے حصول میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اہم کردار کیا، مجھ سمیت ہر محب وطن کو حیرانی سے دوچار کردیا۔ وزیراعظم کے بقول آئی ایم ایف نے جب دوست ممالک سے مزید فنڈنگ کی شرط رکھی تو سعودی عرب نے مزید 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی کرائی جس کے حصول میں آرمی چیف نے اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف چاہتے تو اس کامیابی کا سہرا اپنے سر سجا سکتے تھے، مگر انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی کوششوں کو سراہا۔ وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کاوشوں کو سراہنے کے حوالے سے بیان پر میں نے جب سعودی عرب میں اپنے معتبر ذرائع سے معلومات حاصل کیں تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے عہدہ سنبھالتے ہی جنوری کے اوائل میں سعودی عرب کے دورے کے موقع پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں پاکستان کو درپیش مشکلات اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں پاکستان کی مدد پر قائل کیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب کی جانب سے 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایک ارب ڈالر امداد کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدے کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب کی عسکری قیادت سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف کا منصب سنبھالتے ہی جب وہ سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ان کا سربراہِ مملکت کی طرح استقبال کیا گیا اور ان کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ بھی کھولا گیا، اور اس کے باوجود کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے، جو اپنی چھٹیاں فیملی کے ساتھ گزار رہے تھے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے تفصیلی ملاقات کی۔