یہ جتنا بھی انتخابات سے بھاگیں گے انتخابات اتنا ہی ان کا پیچھا کرتے رہیں گے
پاکستان کا سیاسی، ریاستی اور آئینی بحران حل ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی، جمہوری اور آئینی سے زیادہ مختلف فریقوں کی انا کی جنگ بھی ہے۔ جب قومی سیاست کی بنیاد ذاتیات گی تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔ اس وقت بھی سیاسی محاذ پر جو جنگ ہے وہ کسی اصول کے تحت نہیں لڑی جارہی، بلکہ حکمران طبقہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اس نظام کو چلانا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ آئین یا قانون سے اپنے مفادات کے تحت نظام حکومت کو چلایا جائے۔ یہی وجۂ تضاد ہے جو اس وقت حکمران طبقے کو درپیش ہے، اور اسی تضاد میں یہ طبقہ ریاستی و حکومتی اداروں کو اپنی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے۔ اس وقت ایک بڑی جنگ حکومت اور عدلیہ کے محاذ پر نظر آرہی ہے، اور اس میں حکومت نے عدلیہ کے خلاف ایک بڑا محاذ کھول دیا ہے۔ اس محاذ میں چیف جسٹس اور ان کے بعض ساتھی ججوں کے خلاف عدلیہ مخالف مہم، چیف جسٹس اور ان بعض ججوں پر عدم اعتماد، عدالتی فیصلوں کو ماننے سے انکار اور چیف جسٹس سمیت بعض ججوں اور ان کےخاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی آڈیوز ویڈیوز کا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ اس جنگ میں تمام منفی حربے اختیار کرکے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 27 اپریل کو دیکھنا ہوگا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پنجاب انتخابات کے حوالے سے کیا حتمی فیصلہ کرتا ہے، اور کیا واقعی عدالت حکومت مخالف کوئی بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہے، اورکیا ان فیصلوں سے حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیونکہ عدالت نے ایک بار پھر حکومت اوراپوزیشن کو موقع دیا تھا کہ وہ 27اپریل تک سیاسی طور پر معاملے کو سلجھا لیں تو عدالت مفاہمت کا راستہ اختیار کرسکتی ہے، وگرنہ دوسری صورت میں عدالت اپنا فیصلہ آئین کے مطابق سنا دے گی۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے چیف جسٹس پر دبائو بڑھانے کے لیے عدالتی محاذ پر ججوں کے درمیان داخلی تقسیم کا کارڈ خوب کھیلا اور یہ بیانیہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ عدلیہ موجودہ صورتِ حال میں تقسیم ہے اور جو کچھ چیف جسٹس کررہے ہیں اس پر اُن کو اپنی ہی عدلیہ میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ حکومت بنیادی طور پر فوری انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے اور اس کو انتخابات کسی صورت میں بھی قبول نہیں۔ بالخصوص وہ عام انتخابات سے قبل پنجاب اور خیبر پختون خوا میں صوبائی انتخابات کی حامی نہیں، اور اس کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ تمام انتخابات ایک ہی دن میں عام انتخابات کی صورت میں ہوں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہے کہ ایک ہی دن میں عام انتخابات ہونے چاہئیں۔ حکومت اکتوبر میں انتخابات کے بارے میں کہتی ہے جبکہ عمران خان جولائی میں عام انتخابات کے حامی ہیں اور اُن کے بقول اگر جولائی میں عام انتخابات پر اتفاق ہوجاتا ہے اور فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرکے نگران حکومتیں بنادی جاتی ہیں تو وہ اس پر اتفاق کرلیں گے۔ لیکن عمران خان کو ڈر ہے کہ اول مذاکرات کا راستہ جو اختیار کیا جارہا ہے اس کا مطلب وقت کا ضیاع ہے اور حکومت مذاکرات کو بنیاد بناکر وقت کوآگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ دوسرا عمران خان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ حکومت اس برس اکتوبر میں بھی عام انتخابات کے لیے تیار نہیں اور وہ ان انتخابات کو 2024ء تک مؤخر کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان کو یہ خبر دے دی گئی تھی جس میں صدرِ مملکت کی جانب سے بھی پیغام دیا گیا تھا کہ حکومت اگلے برس2024ء تک انتخابات ٹالنا چاہتی ہے۔ اس کا اظہار صدرِ مملکت کئی بار کربھی چکے ہیں۔ اسی بنیاد پر عمران خان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے اپنے اُن تمام ساتھیوں کو باور کروایا جو اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں تھے اور ان کو بتایا گیا کہ اگر ہم نے صوبائی سطح پر اسمبلیوں کو نہ توڑا تو انتخابات 2024ء سے پہلے ممکن نہیں ہوں گے۔ اس لیے ہمیں 2023ء میں انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی صوبائی سطح کی اسمبلیوں کو توڑنا ہوگا اور حکومت پر دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کرے۔ 2024ء میں انتخابات کے اشارے خود ہم کو حکومتی کیمپ سے بھی سننے کو مل رہے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ حکومت واقعی اکتوبر 2023ء میں بھی انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ لیکن اب عمران خان نے حکومت سمیت ریاست پر اتنا دبائو بڑھا دیا ہے کہ انتخابات اگر جولائی میں بھی نہیں ہوتے تو ان کو اکتوبر سے آگے لے کر جانا خود حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے عمران خان کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ اگر انتخابات اکتوبر میں ہوجاتے ہیں تو یہ بھی عمران خان کی کامیابی ہی سمجھی جائے گی۔کیونکہ حکومت کے لیے اگر انتخابات فوری طور پر سودمند نہیں تو یہ اکتوبر میں بھی سودمند نہیں ہوسکتے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنے کے حوالے سے مشکل میں ڈال دیا ہے، اور وہ جتنا بھی انتخابات سے بھاگیں گے انتخابات اتنا ہی ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ بنیادی طور پر حکومت کو مشکل صورت حال کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا۔ حکومت کو یقین تھا کہ عمران خان کی خواہش کے باوجود صوبائی اسمبلیاں نہیں ٹوٹ سکیں گی، لیکن صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی وجہ سے حکومت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، اور اب اس کے لیے انتخابات سے فرار حاصل کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ ایک طرف عدلیہ ہے تو دوسری طرف دبائو میں اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کے سامنے مسلم لیگ (ن) کس حد تک انتخابات میں تاخیری حربے اختیار کرسکے گی، یہ خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں پسِ پردہ کچھ بات چیت بھی چل رہی ہے۔ اس میں سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، پرویز خٹک اور اسد قیصر شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی اٹارنی جنرل نے یقین دلایا تھا کہ حکومت کی جانب سے سیاسی محاذ پر مفاہمت اور بات چیت کی جو کوشش جاری ہے اس میں کچھ وقت درکار ہے۔ اسی بنیاد پر عدالت نے 27اپریل تک کی مہلت بھی دی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت اور اپوزیشن مل کر کوئی درمیانی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ سیاسی تجزیہ تو یہی کہتا ہے کہ اوّل اس کے امکانات کم ہیں، لیکن اگر اس پسِ پردہ بات چیت کو اسٹیبلشمنٹ کی کسی نہ کسی شکل میں حمایت حاصل ہے تو ایک درمیانی راستہ جولائی میں انتخابات کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ کیونکہ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر جولائی میں عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو وہ مذاکرات کے حامی ہیں، وگرنہ ان مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر عدالتی فیصلیہ کے باوجود حکومت انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوگی تو وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت نے واقعی عام انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کیا تو ایسی صورت میں دو صوبائی نگران حکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا، اور کیسے اورکس قانون کے تحت ان کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟کیونکہ اگر واقعی حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہیں ہوتا اور عدلیہ بھی اپنے مؤقف پر قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں محاذ آرائی اور ٹکرائو کو نہیں روکا جاسکے گا۔ کیونکہ بہرحال عدالت کا فیصلہ اچھا ہو یا برا، اس کو ماننے سے انکار پر ریاستی نظام کو خطرات ہی لاحق ہوں گے، اورایسا کرکے ہم خود لڑائی یا ٹکرائو کو دعوت دیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں بھی یہ نہیں ہوگا کہ حالات ٹکرائو کے نتیجے میں اس حد تک آگے چلے جائیں کہ واپسی کا راستہ مزید مشکل ہوجائے۔ اس لیے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت اور اپوزیشن میں بات چیت کا جو عمل چل رہا ہے اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت شامل ہے۔کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سمیت بہت سے فریق ملک میں ایک ہی انتخابات کے حامی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کے نام پر سیاسی ایڈونچر نہ ہوں اور ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اس اہم موقع پر پیپلزپارٹی نے مفاہمت کا جو کارڈ کھیلا ہے اس کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔اسی طرح آصف زرداری کے اس بیان کو بھی مسلم لیگ (ن) میں پسند نہیں کیا گیا کہ ’’یہ ہماری حکومت نہیں، ہم اس حکومت کا حصہ ہیں‘‘۔ یعنی اس حکومت کے بوجھ کو پیپلزپارٹی نے قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو سمجھ میں آرہا ہے کہ ہمیں بلاوجہ مسلم لیگ (ن) کے فیصلوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اپنی ہی پالیسی تک خود کو محدود رکھنا چاہیے اورمسلم لیگ (ن) کے فیصلوں کا جو بوجھ حکومت پر گررہا ہے اس میں ہمیں حصے دار نہیں بننا چاہیے۔ اس لیے یہ امکان بھی موجود ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) میں بھی بہت سے فیصلوں پر فاصلے نظر آئیں جو ان کے اتحاد کے حق میں نہیں ہوگا۔کیونکہ اگر عدالت نے انتخابات کے حق میں فیصلہ دیا تو پیپلزپارٹی اس فیصلے کی سرخ لائن کو عبور نہیں کرے گی اور چاہے گی کہ عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے۔کیونکہ آصف زرداری کسی بھی طور پر مزاحمت یا اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ مخالف لڑائی کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔دوسری طرف عمران خان سے مذاکرات کے نام پر بھی حکومتی اتحاد تقسیم ہے۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے کچھ افراد مذاکرات کے حامی ہیں جبکہ نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن مذاکرات کی مخالفت کررہے ہیں اوران کا مؤقف ہے کہ عمران خان سے مذاکرات کا مقصد عمران خان کو ہی مضبوط بنانا ہے۔لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ مذاکرات کا ترپ کا پتا آصف زرداری اور شہبازشریف کے ہاتھ میں ہے، اوریہ دونوں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ہیں۔ اس لیے جو یہ فیصلہ کریں گے اس کو ہی تقویت ملے گی۔اس لیے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے کھیل کا نتیجہ بھی نکل آئے گا ،اوراسی کھیل میں عدالتی فیصلہ بھی سامنے آجائے گا، اور یہ دونوں فیصلے مستقبل کی سیاست کا نقشہ بھی کھینچ دیں گے کہ قومی سیاست کس طرف جائے گی۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس بھی اہم ہے۔ اس میں انہوں نے پانچ اہم نکات پیش کیے:
(اول) وہ کسی بھی جماعت کے مخالف نہیں، اورنہ ہی کسی کی حمایت یا مخالفت کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ان کے بقول فوج کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور سیاست دان قابلِ احترام ہیں۔
(دوئم) بھارت کی گیڈر بھبکیوں سے نہیں ڈرتے، جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے اور ضرورت پڑی تو جنگ اُس کے گھر تک لے کر جائیں گے۔
(سوئم) حکومت سے فوج کا رشتہ آئینی ہے اوراسے کسی بھی طورپر سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔
(چہارم) میڈیا اور سوشل میڈیا میں فوج مخالف مہم پر قانون کو حرکت میں لاسکتے ہیں،کیونکہ فوج اور اداروں کے خلاف منفی مہم میں ذاتی اورسیاسی مقاصد سمیت بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔
(پنجم) انتخابات کے لیے فوج کی طلبی حکومت کا اختیار ہے اور ہم اپنی تجاویز وزارتِ دفاع کی مدد سے اعلیٰ عدلیہ کو دے چکے ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے پیچھے تین مقاصد تھے:
(1) حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ جو کچھ کرنا چاہ رہی ہے اس پر اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح معروف صحافی حامد میر نے بھارت اورکشمیر کے تناظر میں سابق جنرل باجوہ کے جو حوالے دیے ہیں اس تاثر کی بھی نفی کرنا تھا اور یہ تاثر دینا تھا کہ ہم آج بھی مسئلہ کشمیر پر وہیں کھڑے ہیں جہاں کل کھڑے تھے۔
(3) فوج میں سوشل میڈیا پرچلنے والی فوج مخالف مہم پر تشویش ہے۔
اگرچہ اس پریس کانفرنس کے حوالے سے بہت سے سوالات ہیں لیکن ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں فوج پر بھی داخلی صورت حال کے تناظر میں خاصا دبائو ہے، اور یہ جو عمومی تاثر ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے یا ہوگا اس کے پیچھے اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ ہی کی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی بہت سے امور پر دفاعی حکمت عملی اختیار کرنا پڑرہی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ درست ہوسکتا ہے اگر واقعی حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کے ایجنڈے پر متفق ہوجائیں۔ کہا جارہا ہے کہ مفاہمت میں ایک نکتہ یہ بھی زیر بحث ہے کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد کیا اپنے سیاسی مخالفین سے بدلہ لیں گے؟ یا ان کی طرف سے مفاہمت کے اشارے ملیں گے جو آگے بڑھنے میں مدد دے سکیں؟ اس پر عمران خان نے بھی کہا ہے کہ ان کے بارے میں یہ جو تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مخالفین سے بدلہ لیں گے، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس نکتہ کو بھی مفاہمت اور مذاکرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت کچھ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔