مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان دورِ حاضر میں دنیا کی واحد ریاست ہے جو کلمہ طیبہ کے نعرے ’’پاکستان کا مطلب کیا… لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ پون صدی سے زائد عرصہ قبل جب یہ مملکت دنیا کے نقشے پر ابھری تو یہ دنیا کی سب سے بڑی مسلمان ریاست اور پوری امتِ مسلمہ کی امنگوں اور آرزوئوں کا مرکز تھی کہ یہ اس دینِ متین کے نام پر وجود میں لائی گئی تھی جو امن، اخوت، یکجہتی، رواداری، بھائی چارے، انسانیت کی خدمت اور الفت و محبت کا علَم بردار ہے، مگر قیام پاکستان کے بعد اقتدار و اختیار جن لوگوں کے ہاتھ آیا انہوں نے یہاں ان خوبیوں کا حامل اسلامی اصولوں پر مبنی منصفانہ و عادلانہ نظام رائج کرنے کے بجائے گروہی و مفاداتی سیاست کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں بے پناہ جانی و مالی قربانیوں کے بعد بننے والی پاکستانی قوم اتحاد و یکجہتی سے آگے بڑھنے اور ترقی و استحکام کے زینے طے کرنے کے بجائے بہت تھوڑے عرصے میں تعصبات اور نفرتوں کا شکار ہوکر عدم استحکام اور انتشار سے دوچار ہوگئی اور دشمن کے لیے نرم چارہ ثابت ہوئی۔ چنانچہ ان اختلافات اور تعصبات کے سبب ربع صدی سے بھی کم عرصے میں یہ مملکت دولخت ہوگئی۔ یہ بلاشبہ ایک شدید نوعیت کا انتباہ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا… لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا وعدہ وفا نہ کرنے کی سزا تھی، مگر ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور دیگر بااختیار طبقات نے اس پر بھی کوئی سبق سیکھنے اور اپنی اور نظامِ مملکت کی اصلاح سے انکار کردیا۔ ملک و ملّت کا درد رکھنے والے صاحبانِ بصیرت بار بار توجہ دلاتے رہے، مگر ان کی پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ صاحبانِ اقتدار نے اپنا طرزِعمل تبدیل کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، اصولو ں کے نام پر بے اصولی اور عدل کے نام پر ناانصافی کو فروغ دیا، جھوٹ کا چلن عام کیا۔ قوم کو قائد کے اتحاد، ایمان اور تنظیم کے اصولوں پر منظم و متحد کرنے کے بجائے انتشار و افتراق، شدت پسندی، عدم برداشت، بدزبانی و بداخلاقی کو رواج دیا اور قوم کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ آج ہر طرح کے وسائل سے مالامال یہ باقی ماندہ مملکت ہمہ نوع بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک کو بیک وقت سیاسی، اقتصادی، آئینی، ادارہ جاتی، معاشرتی اور اخلاقی بحرانوں کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ذلت آمیز شرائط سو فیصد تسلیم کرنے کے باوجود یہ ادارے اعتماد کرنے اور کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے پر تیار نہیں۔ آئینی ادارے باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں، اداروں کے اندر بھی تقسیم نمایاں ہے۔
سیاسی عدم استحکام نے ملک کے پورے نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں، معیشت ہچکولے کھا رہی ہے اور دیوالیہ پن کی راہ دکھا رہی ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے، مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ حکومت جس کا کام گرانی پر قابو پانا ہے، وہ خود ٹیکسوں میں اضافے اور دیگر اقدامات کے ذریعے اس میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں حکومت نے کئی گنا بڑھا دی ہیں جن کا اثر روزمرہ استعمال کی تمام اشیا پر ہوا ہے۔ نئی بیرونی سرمایا کاری تو بعد کی بات ہے، پہلے سے قائم کارخانے بند ہورہے ہیں، پاکستانی سرمایا کار اپنا سرمایا بیرونِ ملک منتقل کررہے ہیں جس سے پہلے سے موجود بے پناہ بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ ہر طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے، قانون موم کی ناک بن چکا ہے، دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہیں نہ عزت و آبرو۔ مملکت اور اس کے اداروں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے، ناامیدی کی اس کیفیت میں ہر شخص اپنی مادرِ وطن کو چھوڑ کر بیرونِ ملک جا بسنے کے لیے بے تاب ہے، مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگے ہیں، خودکشیوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں اور اداروں کی اسی کشمکش میں پہلے ملک دولخت ہوا تھا مگر ہمارے اربابِ اختیار نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حالات کی سنگینی نے ملکی سا لمیت اور سلامتی کو ایک بار پھر دائو پر لگا دیا ہے، مگر حکمرانوں، سیاست دانوں اور اداروں کے ذمہ داران اپنی اپنی ضد اور اَنا ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔
ملک و قوم کے درد مند، اخلاص کے پیکر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ان ناگفتہ بہ حالات میں حکومت اور حزب ِاختلاف کے مابین ثالثی اور مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے، موجودہ وزیر اعظم محمد شہبازشریف اور سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں حالات کی نزاکت اور سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے معاملات کو مذاکرات سے طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، انہوں نے دیگر اہم سیاست دانوں سے بھی رابطے کیے ہیں اور سب سے اس ضمن میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی استدعا کی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے منصفِ اعلیٰ نے پنجاب میں انتخابات کے کیس کی سماعت کے دوران سراج الحق کی کاوش کو سراہا ہے اور اہلِ سیاست کو موقع دیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر باہم مشاورت سے کوئی راستہ تلاش کرلیں تو عدالت بھی اس کا احترام کرے گی۔ اہلِ سیاست پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مایوسی اور بحرانوں کی دلدل سے نکالیں، ملک کو انتشار، افراتفری اور بے یقینی سے نجات دلائیں، ورنہ اگر جمہوریت یا خدانخواستہ ملکی سالمیت کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ہماری موجودہ سیاسی قیادت پر عائد ہو گی۔
(حامد ریاض ڈوگر)