سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جو شخص اللہ کا ذکر کرے اور جو ذکر نہ کرے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے“۔
(یعنی ذکر کرنے والازندہ اور ذکر نہ کرنے والامردوں کی طرح ہے)
(صحیح بخاری )
مشرکین کا داخلہ
’’اے ایمان لانے والو! مشرکین ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے، اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (التوبہ28:9)
آئندہ کے لیے ان کا حج اور ان کی زیارت ہی بند نہیں بلکہ مسجدِ حرام کی حدود میں ان کا داخلہ بھی بند ہے تاکہ شرک و جاہلیت کے اعادے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ ’ناپاک‘ ہونے سے مراد یہ نہیں کہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعتقادات، ان کے اخلاق، ان کے اعمال اور ان کے جاہلانہ طریقِ زندگی ناپاک ہیں، اور اسی نجاست کی بناء پر حدودِ حرم میں ان کا داخلہ بند کیاگیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسمِ جاہلیت ادا کرنے کے لیے حدودِ حرم میں نہیں جاسکتے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اس حکم کا منشا یہ ہے کہ وہ مسجدِ حرام میں جا ہی نہیں سکتے۔ اور امام مالکؒ یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجدِ حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجدِ نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی۔
(تفہیم القرآن، دوم، ص 187-186، التوبہ، حاشیہ25)
پاک رکھنے کا مطلب
’’یاد کرو وہ وقت جب کہ ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔‘‘(الحج 26:22)
سورۂ بقرہ آیت 125 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔‘‘
پاک رکھنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کوڑے کرکٹ سے اسے پاک رکھا جائے۔ خدا کے گھر کی اصلی پاکی یہ ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی کا نام بلند نہ ہو۔ جس نے خانۂ خدا میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو مالک، معبود، حاجت روا اور فریادرس کی حیثیت سے پکارا، اس نے حقیقت میں اسے گندا کردیا۔ یہ آیت ایک نہایت لطیف طریقے سے مشرکینِ قریش کے جرم کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ یہ ظالم لوگ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کے وارث ہونے پر فخر تو کرتے ہیں، مگر وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے الٹا اس حق کو پامال کررہے ہیں۔ لہٰذا جو وعدہ ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا، اس سے جس طرح بنی اسرائیل مستثنیٰ ہوگئے ہیں اسی طرح یہ مشرک بنی اسماعیل بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔
(تفہیم القرآن، اول، ص 111، البقرۃ، حاشیہ 126)
ان احکام کی خلاف ورزی پر سزا
’’اس (مسجد حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیںگے۔‘‘(الحج 25:22)
اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلاضرورت قسم کھانے تک کو الحاد فی الحرم میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجۂ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے۔ مثلاً حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا۔ حرم کی یہ حیثیت حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے چلی آتی ہے اور فتح مکہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اٹھائی گئی، پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہوگئی۔
قرآن کا ارشاد ہے ’’جو اس میں داخل ہوگیا وہ امن میں آگیا۔‘‘(آل عمران 97:3)
حضرت عمرؓ، عبداللہ ؓ بن عمر اور عبداللہؓ بن عباسؓ کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہلِ حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جاسکتا۔