مولانا حمید الدین فراہیؒ کو برصغیر میں عربی لسانیات اور تفسیر قرآن کا امام تسلیم کیا جاتا ہے، ان سے کسبِ فیض کرنے والی شخصیات کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے میں دین کے علمی، فکری اور عملی کام کا زیادہ تر ورثہ مولانا فراہیؒ کا مرہونِ منت ہے، ان سے استفادہ کرنے والی بلند پایہ شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے جن میں مولانا ابوالکام آزادؒ، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، سید سلیمان ندویؒ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا حسرت موہانیؒ، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اور مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ جیسی بلند پایہ ہستیاں شامل ہیں۔ مولانا حمید الدین فراہیؒ قرآن مجید کے مطالب کا گہرا فہم اور ان کے بیان کا منفرد انداز رکھتے تھے، ان کا شمار اپنے وقت کے چوٹی کے علماء میں ہوتا تھا۔ ادبی علوم، انشا پردازی اور رواں بیانی میں انہیں کمال حاصل تھا، ان خوبیوں کا اظہار ان سے استفادہ کرنے والے حضرات کی تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی ان کی شخصیت کے بارے میں رائے ہے کہ: ’’مولانا حمید الدینؒ علمائے حق میں سے تھے جن کا سرمایۂ امتیاز صرف علم ہی نہیں ہوتا بلکہ عمل بھی ہوتا ہے… وہ پورے معنوں میں ایک متقی اور راست باز انسان تھے، ان کے دل کی پاکی اور نفس کی طہارت دیکھ کر رشک ہوتا تھا۔‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رائے میں مولانا فراہیؒ وہ شخصیت تھے: ’’جس نے مسلسل چالیس برس تک قرآن مجید کی خدمت کی، جس نے معارفِ قرآنی کی تحقیق میں سیاہ بالوں کو سفید کیا، جس کی تفسیروں سے عرب و عجم کے ہزاروں مسلمانوں میں تدبر فی القرآن کا ذوق پیدا ہوا، جس کی تحریروں کا ایک ایک لفظ گواہی دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا عاشق ہے اور اس کے ایک ایک لفظ پر جان نثار کررہا ہے۔‘‘
مولانا فراہیؒ کی لسانیات میں مہارت اور قرآن فہمی سے عقیدت کا تو علمی حلقوں میں شہرہ ہے تاہم یہ بات ان کے بہت سے چاہنے والوں کے لیے بھی ایک انکشاف سے کم نہیں ہوگی کہ وہ عربی زبان کے ایک نغز گو شاعر بھی تھے، زیر نظر کتاب ان کی اسی شاعری کے مجموعے اور اس کے اردو ترجمے پر مشتمل ہے، جسے ان کے ایک شاگردِ رشید جناب بدر الدین اصلاحی نے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں وہ رقم طراز ہیں: ’’ہمارے استاد امام ایک فصیح و بلیغ ادیب اور ایک صاحبِ حکمت شاعر تھے جس کا ثبوت قصائد کا یہ مجموعہ ہے، تاہم انہوں نے بہت کم شعر کہے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آغازِ شباب ہی سے قرآن مجید کے ہورہے تھے۔‘‘ امام فراہیؒ کی عربی شاعری سے متعلق یہ تحقیقی کاوش محترم ڈاکٹر محمد خالد رہادی اور ڈاکٹر عامر خلیل جراح کی شبانہ روز محنت اور استادِ گرامی سے عقیدت کا ثمر ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں: ’’ان اشعار میں قرآن مجید اور قدیم عربی شاعری کی تعبیریں اور ان کے مضامین کی تضمین بھی بڑی مہارت سے کی گئی ہیں، یہ قصائد مشکل بحروں میں نظم کیے گئے ہیں، تاہم اس عمل سے ان کی شعریت اور روانی قطعی متاثر نہیں ہوئی۔ شاعر نے بلند پایہ فنی اسالیب بڑی خوش اطواری سے استعمال کیے ہیں جس کے باعث یہ اشعار حسنِ جمال سے آراستہ ہوکر امتیازی حیثیت سے بہرہ یاب ہوئے ہیں۔‘‘ عربی اشعار کے اس مجموعے کا اردو ترجمہ حافظ قمر حسن صاحب نے ذاتی دلچسپی اور محبت سے کیا ہے، پہلے مولانا فراہی کے دو دو اشعار نمایاں انداز میں درج کیے گئے ہیں اور ان کے نیچے ان کا بامحاورہ اور رواں اردو ترجمہ شعروں کو نمبر دے کر شائع کیا گیا ہے جس سے کسی قسم کے ابہام کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
کتاب تین حصوں میں تقسیم کی گئی ہے، پہلے حصے میں مولانا فراہیؒ کی شخصیت، سوانح حیات اور ان کی مطبوعہ و مخطوطہ (قلمی) کتب کا تذکرہ ہے، دوسرے حصے میں امامؒ کے منظوم کلام کے موضوعات، اسالیب اور تراکیب وغیرہ کا تحقیقی و لسانی مطالعہ کیا گیا ہے، جب کہ تیسرا حصہ ’’دیوانِ فراہیؒ‘‘ اور اس کے اردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ یوں اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف مولانا فراہی کی زندگی کے شاعرانہ پہلو سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ ان کی سوانح حیات، بلند پایہ اساتذہ و تلامذہ، اوصاف و اخلاق اور ان کے علمی ورثے سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ توقع ہے کہ کتاب کو دینی و علمی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی نصیب ہوگی۔