(مکاتیب کے خصوصی حوالے کے ساتھ)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے، بہت کم عمری میں تحریک سے وابستہ ہوئے اور تادم زیست وابستہ رہے، لیکن یہ وابستگی کوئی عام سی وابستگی نہ تھی، بلکہ آخر دم تک تحریک اور امت کے لیے غیرمعمولی حد تک فکرمند رہے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک عظیم ماہرِ اسلامی معاشیات تھے اور عالمی سطح پر انہوں نے اسلامی معاشیات کے حوالے سے نہ صرف ایک پہچان بنائی تھی، بلکہ دنیا بھر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا تھا۔ عالم اسلام کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ بھی اسی سلسلے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمات کا ایک میدان اسلامی معاشیات تھا، اور دوسرا میدان اسلامی فکر۔ خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی میدانوں میں ان کی خدمات بہت ہی نمایاں اور مؤثر رہیں۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا خانوادہ ایک علمی خانوادہ تھا۔ آپ کے آباء واجداد سندھ کے راستے عرب سے ہندوستان آئے تھے۔ یہاں سلاطین کی حکومت میں ان کے خاندان کو قاضی کا درجہ حاصل تھا۔ ہندوستان میں ان کے اہل خاندان اعظم گڑھ کے قریب’’قاضی کی سرائے‘‘میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ 1920ء کے قریب ڈاکٹر صدیقی کے والد حکیم عبدالقدوس اپنے بڑے بھائی کے ساتھ قاضی کی سرائے سے گورکھپور منتقل ہوگئے، اور وہیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ولادت 21 اگست 1931ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں ہوئی اور پھر اسلامیہ انٹرکالج گورکھپور میں داخل ہوگئے۔
زندگی کو رخ دینے والے دو اہم واقعات
اسلامیہ انٹرکالج میں تعلیم کے دوران یکے بعد دیگرے دو واقعات پیش آئے، ان دونوں واقعات نے ڈاکٹر صدیقی کی زندگی کو ایک رخ دینے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا:
(1) ساتویں جماعت میں زیرتعلیم تھے، اسی دوران 1943ء میں ایک نوجوان’’تمکوہی‘‘ قصبے سے گورکھپور شہر منتقل ہوا اور اتفاق سے ڈاکٹر صدیقی کے دوسرے گھر میں کرایے دار ہوا، اور اتفاق پر اتفاق یہ ہوا کہ ان ہی کے کالج اور ان ہی کی کلاس میں اس کا داخلہ بھی ہوگیا۔ قدرت کا کرنا تھا کہ یہ نوجوان علوم و افکار کی دنیا سے لے کر عملی اور حرکی زندگی تک ڈاکٹر صدیقی کا بہترین رفیق ثابت ہوا، اور تقریباً ستّر سال کی بے مثال رفاقت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس نوجوان کا نام ڈاکٹر عبدالحق انصاری تھا، جو تحریک اسلامی کے عظیم مفکر اور آئیڈیالاگ تھے اور کچھ عرصے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے امیر ہوئے۔ ڈاکٹر انصاری شروع میں ڈاکٹر صدیقی کے دوسرے گھر میں کرایے دار تھے، لیکن بہت جلد وہ ڈاکٹر صدیقی کے اپنے گھر میں ایک فیملی ممبر کی طرح رہنے لگے تھے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی رفاقت بہت ہی مثالی تھی، اور یہ رفاقت دونوں کی شخصیت سازی میں غیرمعمولی طور پر معاون ثابت ہوئی۔ دونوں کی زندگی میں کئی پہلوئوں سے یکسانیت پائی جاتی تھی۔ دونوں ایک ساتھ تحریک سے وابستہ ہوئے، دونوں نے اپنے لیے تحریک کا فکری محاذ منتخب کیا، دونوں نے تحریکِ اسلامی کی بڑے پیمانے پر فکری خدمات انجام دیں، دونوں اجتہادی مزاج رکھتے تھے اور جرأت مندانہ سوچ کے حامل تھے، دونوں کے تحقیقی ذوق اور علمی کمال کا تحریک اور تحریک کے باہر کی دنیا میں اعتراف کیا جاتا تھا۔
(2) اسلامیہ انٹرکالج میں، ہائی اسکول کی تکمیل سے پہلے ہی آپ دونوں کا تعارف مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کی قائم کردہ تحریک ’’جماعت اسلامی‘‘سے ہوا، عبدالحق انصاری مرحوم ستّر سالہ رفاقت کے بعد اس دارفانی سے کوچ کرگئے، لیکن تحریکِ اسلامی سے ڈاکٹر صدیقی کی جو رفاقت قائم ہوئی وہ تقریباً اسّی سال تک یعنی آخری سانس تک باقی رہی۔ تعلیم کا پورا سلسلہ تحریکی تقاضوں کے مطابق جاری رکھا، غوروفکر کا پورا سلسلہ تحریک کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا، اختصاص کا میدان تحریک کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کیا، تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا ایک زبردست کام تحریک اسلامی کے مشن، وژن اور طریقہ کار کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے انجام دیا۔
ان دونوں واقعات یا ان دونوں رفاقتوں کے ڈاکٹر نجات صاحب مرحوم کی زندگی پر بہت گہرے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
عملی جدوجہد کا آغاز
اسکول کی تعلیم کے دوران ہی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری نے ایک ساتھ مل کر تحریک کے لیے عملی جدوجہد شروع کردی تھی، اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ہم نے لٹریچر حاصل کیا، لائبریری بنائی، مختلف رسائل وجرائد منگوانے شروع کیے، اور طلبہ ساتھیوں کے درمیان کام کا آغاز کردیا، ان تمام سرگرمیوں میں عبدالحق صاحب ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے، البتہ وہ شروع ہی سے خشک مزاج رکھتے تھے، کافی سنجیدہ تھے، چنانچہ تفریحی اور ادبی سرگرمیوں میں وہ کم دلچسپی لیتے تھے اور مجھے ان میں کافی دلچسپی تھی‘‘۔ (دیکھیں: ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012ء)
نئے تعلیمی نظام کی تلاش
ہائی اسکول کی تکمیل کے مرحلے میں ان دونوں کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کی تفصیلات ڈاکٹر صدیقی مرحوم کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جب ہم نے مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھا، اور اس میں دیکھا کہ مولانا مودودی نے کس طرح موجودہ تعلیمی نظام پر تنقید کی ہے اور ایک نئے تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کیا ہے، اُس وقت ہمارے دل میں شوق پیدا ہوا کہ ہم اس تعلیم کو ترک کرکے دینی تعلیم حاصل کریں، ہم دونوں کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ہم انجینئر بنیں، لیکن ہم لوگ اپنے آپ میں کچھ اور فیصلہ کرچکے تھے، ہائی اسکول کرنے کے بعد ہم دونوں نے ترکِ تعلیم کا فیصلہ کرلیا، اور پھر میں ملیح آباد گیا، جہاں جماعت اسلامی کا مرکز تھا، میں نے وہاں مولانا ابواللیث صاحب سے ملاقات کی، اور ان سے درخواست کی کہ ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے اور اب ہم چاہتے ہیں کہ جماعت ہماری تعلیم کا نظم کرے، اس انداز پر جس کا مولانا مودودی کے لٹریچر میں ذکر ملتا ہے۔ لیکن مولانا ابواللیث صاحب نے وسائل اور افراد کی قلت کا عذر پیش کرتے ہوئے معذرت کرلی، چنانچہ میں واپس گورکھپور چلا گیا، وہاں ہم دونوں تقریباً دو ماہ تک اسکول نہیں گئے، یہ ہائی اسکول کے بعد کا زمانہ تھا۔اسکول کے پرنسپل کو جب معلوم ہوا کہ ہم دونوں نے تعلیم ترک کردی ہے تو انہوں نے کچھ اساتذہ سے، جو ہم سے قریب تھے، کہا کہ ان کو سمجھا کر اسکول واپس لائیں، چونکہ ہم دونوں ہی اسکول کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے، چنانچہ بعض اساتذہ کے کہنے کے بعد ہم دو ماہ تاخیر کے ساتھ گیارہویں جماعت میں داخل ہوگئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارا دل کسی بھی طرح اس تعلیمی نظام سے مطمئن نہیں تھا۔ گورکھپور سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد میں تو علی گڑھ چلا گیا، اور وہاں بی۔اے میں داخلہ لے لیا، جبکہ انصاری صاحب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے گئے‘‘۔
اس سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:
’’1950ء کے اوائل میں ہم ادارہ ادبِ اسلامی کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے طلبہ کی ایک بڑی تعدادکو لے کر رامپور پہنچے، جہاں اُن دنوں جماعت کا مرکز تھا۔ ادارہ ادب اسلامی کا باقاعدہ قیام تو بعد میں ہوا لیکن اس دور میں ہم لوگ اسی نام سے کام کیا کرتے تھے۔ رامپور میں ہم نے دوبارہ مولانا ابواللیث صاحب کے سامنے اپنا مطالبہ پیش کیا، اور کہا کہ ملیح آباد میں آپ نے جو عذر پیش کیا تھا، اس کی گنجائش اب باقی نہیں رہ گئی ہے۔ رامپور بڑا شہر تھا، اور علمی شخصیات بھی وہاں بآسانی مل سکتی تھیں، چنانچہ ابواللیث صاحب نے گفتگو وغیرہ کی اور آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آپ لوگ یہیں قیام کریں، آپ کی تعلیم کا نظم کیا جائے گا، چنانچہ میں نے اور حمیداللہ صاحب نے علی گڑھ کی تعلیم ترک کردی اور جنوری 1950ء سے وہیں قیام کیا، اور چند ماہ بعد جب با قاعدہ ثانوی درسگاہ کا آغاز جولائی 1950ء میں ہوا تو انصاری صاحب بھی ندوے سے اپنا تعلیمی سال مکمل کرکے رامپور آگئے، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جماعت نے ثانوی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ ہماری سچی طلب اور مستقل اصرار کے بعد لیا تھا۔‘‘
ثانوی درسگاہ کا قیام تو جماعت اسلامی ہند کا مرکزی فیصلہ تھا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس درسگاہ کے حقیقی موسس اور محرک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم ہی تھے، انہی کی سچی طلب اور مستقل اصرار پر جماعت اسلامی ہند نے اس ادارے کو قائم کیا تھا، اور اتفاق کی بات ہے کہ یہی اس درسگاہ کے بالکل ابتدائی طلبہ بھی تھے۔ ثانوی درسگاہ کا پورا تصور اور اس تصور کی کامیابی اور ناکامی اسی سچی طلب پر قائم تھی، ورنہ افراد سازی کے ایسے مصنوعی طریقے جن کے پیچھے سچی طلب، سچا جذبہ اور سچی محنت نہ ہو، کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
تحریک سے باقاعدہ وابستگی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی 1950ء میں اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری 1952ء میں جماعت اسلامی ہندکے رکن ہوئے تھے، جبکہ آپ دونوں 1946ء سے ہی جماعت کے کاموں میں پوری طرح سرگرم رہنے لگے تھے۔ اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں وہ چاہتے تھے کہ اجتماعیت سے وابستگی کے تقاضوں کی تکمیل ہو، اور جہاں کوئی مشکل درپیش ہو ذمہ داران سے رابطہ کرلیا جائے، تاکہ کوئی بھی کام پورے اطمینان کے ساتھ انجام دیا جائے۔
1947ء میں ہائی اسکول کی تکمیل کے بعد جب جماعت نے اپنے محدود وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگے کی تعلیم کا مناسب بندوبست کرنے سے معذرت کردی، تو قریب دو ماہ کے گیپ کے بعد اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور پرنسپل کی کوششوں کے نتیجے میں دوبارہ دونوں افراد تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر آمادہ ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے سے متعلق مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم کو ایک تحریر ارسال کی تھی، وہ شاید جماعت کے نظم سے اجازت طلبی کی قسم کی تحریر رہی ہوگی۔ اس تحریر کے جواب میں 16 اگست 1947ء کو مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم نے ایک خط تحریر کیا تھا، یہ خط اُس زمانے میں عصری تعلیم سے متعلق جماعت کے مؤقف اور رجحان کو بھی بیان کرتا ہے، اس خط سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے مرکز سے ایک اور خط ارسال کیا جاچکا تھا، جو کسی وجہ سے نجات صاحب تک نہیں پہنچ سکا تھا، چنانچہ اس خط میں اسی خط کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم رقم طراز ہیں:
’’بہرحال جو خط آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو حالات آپ نے بیان فرمائے ہیں ان کے تحت اگر آپ اپنی موجودہ تعلیم جاری رکھنا چاہیں تو آپ اس کے مجاز ہیں۔ موجودہ تعلیم کے نقائص سے دل کچھ ایسا متاثر ہے کہ اس کے لیے اجازت دینے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جب آپ کے سامنے مجبوریاں ہیں تو مجبوراً ہمیں آپ کے اس فیصلے کو برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ آپ ماشاء اللہ خود سمجھ دار ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تعلیم کو اچھے مقصد ہی کے لیے حاصل کریں گے اور اگر خدانخواستہ بعد کو کسی مرحلے میں محسوس کریں گے کہ اس میں مفاد سے زیادہ مضار ہیں تو اس کو بے تامل ترک کردیں گے۔ ہمارے ہر کام کا محور وہ نصب العین ہونا چاہیے، جو ایک مومن کا حقیقی نصب العین ہے اور اس کو ہر حال میں عزیز رکھنا چاہیے۔‘‘(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ69)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا وژن بہت ہی واضح تھا، چنانچہ انہوں نے کبھی اِدھر اُدھر مڑ کر نہیں دیکھا، ہمیشہ نصب العین کی خدمت پیش نظر رہی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد بی اے کرنے لگے، لیکن ثانوی درسگاہ کے قیام کی بات آئی تو یونیورسٹی کی تعلیم ترک کرکے خوشی خوشی درسگاہ سے وابستہ ہوگئے۔
زندگی کا ایک اہم پڑاؤ
ثانوی درسگاہ کا زمانہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی زندگی کا ایک بہت ہی اہم پڑاؤ تھا۔ ثانوی درسگاہ میں جہاں ایک طرف اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل، ذہین اور تلاش و جستجو کا مزاج رکھنے والے ساتھیوں کا ایک اچھا گروپ مل گیا، وہیں پڑھنے لکھنے کا ایک شاندار ماحول، اور بہترین اساتذہ کی ایک ٹیم بھی نصیب ہوگئی۔
ثانوی درسگاہ کے ماحول اور سرگرمیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صدیقی فرماتے ہیں:
’’وہاں ہم سبھی مختلف ڈسکشنز اور مباحثوں میں شریک رہتے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی تھی، وہاں کا نظم کچھ اس طرح تھا کہ ہم بعد نماز عصر اپنے طور پر جدید علوم کا مطالعہ کرسکتے تھے، اس میں ایک صاحب تھے شاہ ضیاء الحق صاحب، جو ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھیوں میں سے تھے اور جماعت کی شوریٰ کے ممبر تھے، وہ ہمارے نگراں مقرر کیے گئے تھے۔ مولانا ابواللیث صاحب کی خصوصیت تھی کہ جہاں رہتے وہاں لوگوں سے اچھے روابط قائم کرتے اور ان کو خاصا قریب کرلیا کرتے تھے، رامپور میں بھی مولانا نے کچھ ایسا ہی کیا، چنانچہ وہاں شاندار تاریخی لائبریری ’’رضا لائبریری‘‘سے ہمارے لیے استفادہ آسان ہوگیا۔ رامپور کی دو بڑی شخصیات مولانا عبدالوہاب خاں رام پوری اور ان کے بھائی مولانا عبدالسلام خاں سے استفادے کا موقع بھی ملا۔ اس کے علاوہ وہاں ہم نے مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا ایوب اصلاحی وغیرہ مختلف علمی شخصیات سے بھر پور استفادہ کیا۔ میرا مزاج شروع ہی سے عبدالحق صاحب سے کچھ مختلف تھا، میرا معمول تھا کہ روزانہ صبح سویرے چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا، کچھ ملاقاتیں کرتا، کچھ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتا‘‘۔ (رفیق منزل، نومبر 2012ء)
ثانوی درسگاہ کے تعلق سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی بہت واضح سوچ رکھتے تھے، ثانوی درسگاہ کے مقصدِ قیام سے متعلق وہ اپنی کتاب ’’اسلام، معاشیات اور ادب‘‘میں لکھتے ہیں:
’’یہ درسگاہ 1950ء میں قائم ہوئی تھی اور بوجوہ 1960ء میں بند ہوگئی۔ مقصد یہ تھا کہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چار سالہ کورس کے ذریعے عربی، قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر علومِ اسلامیہ کی اتنی تعلیم دے دی جائے کہ آئندہ وہ جدید علوم میں سے کسی علم میں اسلامی نقطہ نظر سے علمی اور تحقیقی کام کرسکیں‘‘۔ (صفحہ11)
فکر ِفراہی سے تعارف
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے ساتھ ثانوی درسگاہ میں دورانِ تعلیم یہ خوش آئند واقعہ پیش آیا کہ یہاں ان کو فکرِ فراہی سے متعارف ہونے اور علامہ فراہی کے شاگردِ رشید مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم سے استفادے کا موقع نصیب ہوگیا۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس سے متعلق فرماتے ہیں:
’’ثانوی درسگاہ سے اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد میں، انصاری صاحب اور حمیداللہ صاحب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسۃ الاصلاح گئے، وہاں علامہ فراہی کے تلمیذِ خاص مولانا اختر احسن اصلاحیؒ سے، جو جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، قرآن مجید پڑھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں سب سے خاص بات یہ رہی کہ ہمیں علامہ فراہی کے خاص نوٹس استفادے کے لیے فراہم کیے گئے، جن میں سے بیشتر اب شائع ہوچکے ہیں۔ میں اور انصاری صاحب وہاں سے چھے ماہ کے بعد واپس چلے آئے، البتہ حمیداللہ صاحب ایک سال تک رہے‘‘۔ (رفیق منزل، نومبر 2012ء)
مدرسۃ الاصلاح میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی حسبِ پروگرام مولانا اختر احسن اصلاحی اور دوسرے بڑے اساتذہ سے قرآن مجید اور نظم قرآن کا درس لیتے، اور ساتھ ہی وہاں طلبہ کو باقاعدہ انگریزی وغیرہ کچھ عصری مضامین بھی پڑھاتے تھے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی مرحوم بتاتے تھے کہ اس دوران نجات صاحب نے ان کی کلاس کے طلبہ کو انگریزی زبان پڑھائی تھی۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب فکرِ فراہی سے کس حد تک متاثر تھے، اس پر الگ سے اور بھرپور اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ علامہ فراہیؒ کی چیزوں سے خاص دلچسپی رکھتے تھے، قرآن مجید سے ان کو خاص شغف تھا، اور ان کی تحریروں میں قرآن مجید سے استفادے اور استدلال کا پہلو کافی نمایاں نظر آتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ثانوی درسگاہ آنے سے پہلے ہی مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر ہوکر اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے کہ معاشیات کے میدان میں ان کو کام کرنا ہے، چنانچہ ثانوی درسگاہ سے قبل انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لے لیا تھا، اور بی اے میں اپنے لیے عربی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ معاشیات کا مضمون منتخب کیا تھا۔ لیکن ثانوی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ ہوا تو بی اے کی تعلیم چھوڑ کر وہ درسگاہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ لیکن مدرسۃ الاصلاح سے واپس آنے کے بعد ان کے سامنے ایک بڑا سوال مستقبل کا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذاتی مطالعے کی بنیاد پر معاشیات کے میدان میں اکیڈمک لیول پر کوئی بڑا کام کرنا ممکن نہ تھا، چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اکنامکس ڈپارٹمنٹ میں جاکر ایک فری اسٹوڈنٹ کے طور پر ایم اے معاشیات کی کلاس جوائن کرلی، اور پھر 1956ء میں باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اکنامکس میں داخلہ لیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ذاتی فیصلہ تھا، جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران اُن کے اس فیصلے سے بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ جماعت اسلامی کا یہ دور عجیب وغریب کنفیوژن کا دور تھا، ایک طرف موجودہ نظام کی نوعیت کے تعین کا مسئلہ تھا۔ موجودہ نظام، جس کا ایک حصہ تعلیمی نظام بھی تھا، اس کے مکمل بائیکاٹ کا رجحان تھا۔ دوسری طرف اپنی علمی وفکری ضرورتوں کی تکمیل کا مسئلہ تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ متبادل کھڑا کرنے کے لیے نہ اُس وقت جماعت کے پاس وسائل تھے اور نہ آج ہیں۔ چنانچہ یہ مسئلہ اُس وقت مرکزی مجلس شوریٰ میں بھی زیر بحث آیا، واقعے کی تفصیل ڈاکٹر صدیقی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جب ہم لوگ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ہمارے خلاف خاصا ہنگامہ کیا گیا کہ یہ لوگ باطل نظام کا حصہ بن رہے ہیں، اس سے ثانوی درسگاہ کا مقصد فوت ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ، حتیٰ کہ شوریٰ میں ہماری رکنیت کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا، اور ثانوی درسگاہ بند کرنے کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں سے نکل کر طلبہ یونیورسٹی کی طرف چلے جارہے ہیں‘‘۔ (ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012ء)
ڈاکٹر صدیقی اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہمارا تجربہ ہے کہ درسگاہ کے فارغین نے جو کچھ بھی کام کیے ہیں، وہ انہی نے کیے ہیں جو بعد میں یونیورسٹی کی طرف چلے گئے۔ علی گڑھ میں ہماری اعلیٰ تعلیم کا بنیادی مقصد تحریک ہی کی خدمت تھا، ورنہ ہم اگر اسی نظام کا حصہ بننا چاہتے تو اس کے لیے بہترین وقت انٹرمیڈیٹ کے بعد کا تھا، جب کہ ہمارے والدین کی شدید خواہش تھی کہ ہم انجینئرنگ کریں۔ لوگ مولانا مودودی کی تحریروں کی روح نہیں سمجھ پائے، مولانا مودودی کا یہ مقصد بالکل نہیں تھا کہ ہم ان اداروں کا رخ ہی نہ کریں، جس کا اظہار بعد میں مولانا مودودی کی طرف سے کیا بھی گیا۔‘‘(حوالہ سابق)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹر صدیقی نے 1958ء میں معاشیات میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1960ء میں معاشیات میں ہی ایم اے کیا۔ ان دونوں مراحل میں انہوں نے یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں وہ یونیورسٹی میں ایک نمایاں پہچان اور طلبہ کے درمیان بہت ہی عزت ومرتبہ رکھتے تھے۔ یہ دور یونیورسٹی میں اشتراکی رجحانات کے عروج کا دور تھا، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے وہاں اسلامی رجحان رکھنے والے طلبہ کو جمع کرنے اور ان کو یونیورسٹی میں ایک مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔
ایم اے معاشیات کے بعد آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا، آپ کی پی ایچ ڈی 1966ء میں مکمل ہوئی۔ پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع تھا:
’’A Critical Examination of the Recent Theories of Profit‘‘
(جاری ہے)