اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
گزشتہ چند ماہ سے امریکہ کچھ ایسے انکشافات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ”سپرپاور“ کے دشمن اس کو اندر ہی سے سنگسار کررہے ہیں۔ یہ ترکیب ہم نے جوش ملیح آبادی سے مستعار لی ہے۔ جوش صاحب کے مولانا مودودیؒ سے دوستانہ مراسم تھے۔ جب مولانا مرحوم گردوں کے مرض میں مبتلا ہوئے تو جوش ان کی عیادت کو آئے۔ مزاج پرسی پر حسب ِعادت مولانا نے گردوں میں پتھری کے بارے میں انھیں تفصیل سے بتایا۔ جنابِ جوش بہت غور سے سب سنتے رہے، پھرمسکرا کر بولے ”واہ واہ ابوالاعلیٰ صاحب دنیا تو ہمیں رندِ خرابات کہتی ہے اور اللہ میاں آپ کو اندر سے سنگسار کررہے ہیں۔“
اس سال کے آغاز میں خبر آئی کہ سبک دوشی کے بعد قصر مرمریں (وہائٹ ہائوس) چھوڑتے وقت جوہری ہتھیاروں کی معلومات سمیت، انتہائی خفیہ دستاویز جناب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ساتھ لے گئے۔ ان میں وہ انتہائی حساس دستاویزات بھی تھیں جن پر For eyes only درج تھا۔ جنھیں محفوظات یا Archive میں بھی مقفل رکھا جاتا ہے اور امریکی صدر اسے وہیں بیٹھ کر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ان دستاویز کی نقل بنانا سنگین جرم ہے جس پر جاسوسی ایکٹ کے تحت دس سال قید ہوسکتی ہے۔
کچھ دن بعد انکشاف ہوا کہ صدر بائیڈن بھی کسی سے کم نہیں، وہ اپنے دورِ نائب صدارت میں کچھ حساس دستاویزات ساتھ لے گئے تھے۔ صدر ٹرمپ کی تو رہائش گاہ سے دستاویزات برآمد ہوئیں جبکہ صدر بائیڈن کی بے احتیاطی کا یہ عالم کہ انتہائی حساس مواد گھر کے گیراج اور اُن کے وکیل کے دفتر میں ”پڑا“ تھا۔ ایسے ہی لچھن سابق نائب صدر مائیک پینس کے تھے کہ مطالعے کے لیے جو خفیہ فائلیں وہ اپنے ساتھ گھر لے گئے، اُن کی سبک دوشی کے دو سال بعد تک یہ کاغذات وہیں پڑے رہے۔
چند دن پہلے ایک نیا کٹّا کھل گیا جب خبر آئی کہ امریکی وزارتِ دفاع المعروف قصرِ پنج گوشہ یا پینٹاگون (Pentagon) کی بہت سی حساس دستاویز ایک محدود سماجی پلیٹ فارم ’ڈسکارڈ‘ (Discord)پر افشا کردی گئی ہیں۔ ڈسکارڈ انٹرنیٹ کے ذریعے سمعی اور بصری تبادلہ خیال کرنے والوں کا ایک مخصوص گروہ ہے جو Voice Over Internet Protocol (VOIP)کے ذریعے باہمی رابطے میں ہے۔ ڈسکارڈ تک رسائی بذریعہ دعوت یا invite onlyہی ممکن ہے۔ دلچسپ بات کہ گزشتہ سال دسمبر سے ڈسکارڈ کے ارکان ان خفیہ دستاویز کو کھنگالتے ہوئے نت نئے تجزیے پیش کررہے تھے لیکن امریکی فوج یا خفیہ اداروں کو خلقِ خدا کی جانب سے اپنی غیبت کی خبر تک نہ ہوئی۔ اپریل کے آغاز میں سراغ رساں صحافت یا Investigative Journalism کے ولندیزی ادارے Bellingcatنے تصاویر اور فوٹو کاپی کی شکل میں ڈسکارڈ سے حاصل کی گئی یہ دستاویزات اپنی ویب سائٹ پر نصب کردیں۔ بیلنگ کیٹ کا نام بھی خاصا دلچسپ ہے۔ آپ نے یقیناً ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے“ کی حکایت سنی ہوگی۔ بیلنگ کیٹ چوہوں کی سیکورٹی کونسل میں منظور کردہ اُس قرارداد پر عمل درآمد کی ایک کوشش ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شب خون سے بچنے کے لیے بے آہٹ آدھمکنے والی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے۔ بیلنگ کیٹ نے دنیا کی پانچوں موٹی بلیوں کے گلے میں گھنٹیاں باندھ دی ہیں جس کی مدد سے ان کی حرکتوں کو طشت ازبام کیا جاتا ہے۔
بیلنگ کیٹ کے انکشاف سے پنج گوشہ میں خوابِ خرگوش کے مزے لیتے اہلکار ہڑبڑا کر اٹھے اور 9 اپریل کو امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان کرس میہر (Chris Meagher) نے اعتراف کیا کہ ان کے شعبے کی کچھ دستاویزات سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ 6 اپریل سے یہ بات وزیردفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن کے علم میں تھی کہ یوکرین جنگ سے متعلق انٹیلی جنس معلومات کی چند سلائیڈز (نقوش) لیک ہوگئی ہیں۔ جناب کرس نے بتایا کہ یہ خبر ملتے ہی وزیرِ دفاع نے امریکی اتحادیوں کو اس بارے میں مطلع کیا، فاضل وزیر اپنے ہم منصبوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور نقصان کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ کرس میہر کے مطابق معاملے کی تفتیش و تحقیق کے لیے وزارت کے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو معلومات افشا ہونے کے نقصان کا اندازہ لگانے کے ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لے رہی ہے کہ ان حساس دستاویزات اور مواد تک رسائی کیسے حاصل کی گئی۔ امریکی وزیرِ دفاع نے صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خفیہ دستاویزات کا پھیلائو قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، اور انتہائی حساس مواد کا افشا ہونا نہ صرف قومی سلامتی پر سنگین اثر ڈال سکتا ہے بلکہ اس سے لوگوں کی جانیں بھی جاسکتی ہیں۔
اس کے دوسرے روز قصرِ پنج گوشہ کی نائب ترجمان شریمتی سبرینا سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ محکمہ دفاع سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گردش کرنے والی دستاویزات کے اصلی ہونے کا جائزہ لے رہا ہے۔ ساتھ ہی محترمہ نے یہ بھی فرمایا کہ افشا ہونے والی دستاویزات میں حساس اور انتہائی درجے کا خفیہ مواد موجود ہے۔ سبرینا سنگھ صاحبہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزارتِ دفاع اتحادیوں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہے اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو بھی مطلع کردیا گیا ہے۔ اسی روز وزارتِ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے صحافیوں کو بتایا کہ سفارتی سطح پر اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کو تحقیقات اور معلومات کے پھیلائو سے آگاہ رکھا جارہا ہے۔
وزیر دفاع جنرل آسٹن نے ایک ہفتے بعد یعنی 13 اپریل کو اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے Leakکی تصدیق کی اور ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنادینے کے ساتھ امریکی عوام کو یقین دلایا کہ ان کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے اور قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات اور مواد تک غیر متعلقہ عناصر کی رسائی کو ناممکن بنانے کے اقدامات کرلیے گئے ہیں۔
ان دستاویزات میں کیا ہے؟
جن ماہرین کو ڈسکارڈ یا بیلنگ کیٹ تک رسائی حاصل ہے ان کے مطابق کاغذوں پر شکن کے آثار ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فائلوں کو خزانہِ ٓمحفوظات سے نکال کر ان دستاویزت کی فوٹو کاپی بنائی گئی ہیں۔ یعنی یہ الیکٹرانک نقب زنی (hacking) نہیں بلکہ یہ محفوظات تک رسائی رکھنے والے فرد کی کارروائی ہے۔ محکمہ دفاع کے اہلکاروں نے بھی ان کاغذات کو سرکاری دستاویزات کا عکس قراردیا ہے۔ ان دستاویز پر ”خفیہ“، ”انتہائی خفیہ“ اور ”صرف برائے ملاحظہ“ (for eyes only)کی مہر ہے، چند کاغذات پر NOFORN (غیر ملکیوں تک رسائی ممنوع) کا ٹھپہ لگا ہے۔ نوفورن کا مطلب ہے کہ یہ معلومات امریکہ کے چار یارِ طرح دار آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ حساس غیر ملکی معلومات کے لیے امریکہ اور ان ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک غیر تحریری پنچ چشمی یا Five Eyesاتحاد قائم رکھا ہے۔
افشا ہونے والی زیادہ تر دستاویزات روس و یوکرین کی عسکری استعداد کے تجزیے اور تقابلی جائزے پر مشتمل ہیں۔ دونوں ملکوں کے مضبوط پہلوؤں اور کمزوریوں کے تنقیدی جائزے کا اختتامی پیراگراف بھی ڈسکارڈ پر لیک کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کا فضائی دفاع تشویش ناک حد تک غیر مؤثر اور اس کی برّی فوج کو گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔ جائزے کے مطابق یوکرین کے روسی ساختہ S300میزائیل شکن نظام کے ضروری پرزوں اور گولہ بارود کا ذخیرہ مئی میں ختم ہوجائے گا اور SA-11 Gadfly نظام پرزوں کی کمی کی بناپر مارچ 2023ء تک ناکارہ ہوسکتا ہے۔
روس کے ساتھ چین کے بارے میں بھی امریکی ایجنٹوں کی حاصل کردہ معلومات طشت ازبام کی گئی ہیں۔ چین نے فروری میں اپنے جدید ترین ہائپر سونک (Hypersonic) میزائیل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ ہائپر سونک کا مطلب ہے آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز، یعنی 3800 میل فی گھنٹے سے زیادہ۔ اڑائی جانے والی دستاویز کے مطابق چین کا یہ خوفناک ہتھیار امریکہ کے میزائیل شکن نظام کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکہ اور اس کے قریبی اتحادیوں کے خفیہ اجلاس میں جو سوچ بچار کی گئی ان نشستوں میں پیش کی جانے والی سلائیڈز کی نقول بھی افشا کیے جانے والے مواد میں شامل ہے۔ ان سلائیڈز میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس کے خاتمے تک جنگ میں روس کے 17 ہزار کے قریب سپاہی مارے گئے جبکہ یوکرین کا جانی نقصان 71 ہزار سے زیادہ ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی سمیت برطانیہ اور امریکہ کے فوجی ماہرین کا خیال تھا کہ جنگ میں روس نے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی کھوئے ہیں۔
یوکرین جنگ کے بارے میں معلومات کے ساتھ، ان LEAKS سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ امریکہ بہادر اپنے دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کی بھی کن سوئیاں لیتے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق، دستاویزات اور بصری تراشوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ:
٭یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی کی جنگ کے بارے میں اپنے جرنیلوں سے فون پر بات چیت امریکی ایجنٹ ریکارڈ کرتے تھے۔
٭روسی خفیہ ایجنسی سے اڑائی جانے والی ایک دستاویز میں روسی جاسوس کی شیخی نقل کی گئی ہے کہ ”ہم نے متحدہ عرب امارات کو اس بات پر منالیا کہ روس اور امارات مل کر امریکی و برطانوی خفیہ ایجنسی کا ناطقہ بند کریں گے“۔
٭افشا کی گئی ایک دستاویز کے مطابق اس سال 17 فروری کو جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر کے فوجی حکام کو ہدایت کی کہ روس کو راکٹ اور گولہ بارود فراہم کیا جائے۔ جنرل السیسی امریکہ کے انتہائی فرماں بردار اتحادی ہیں جنھیں واشنگٹن ہر سال ایک ارب ڈالر کی اعانت فراہم کرتا ہے۔ گویا جنرل صاحب اپنے ”محسن“ کی کمر میں چھرا گھونپ رہے تھے۔
٭ایک جگہ صدرِ جنوبی کوریا کے مشیرانِ سلامتی کی گفتگو نقل کی گئی ہے جس کے مطابق امریکہ، صدر یون سک یول (Yoon Suk-yeol) پر دبائو ڈال رہا ہے کہ جنوبی کوریا، یوکرین بھیجنے کے لیے توپوں کے گولے امریکہ کے حوالے کرے۔
٭افشا کی گئی امریکی سی آئی اے کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے اپنے اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ عدالتی اصلاحات کے خلاف تحریک کی حمایت کریں۔
خبر شایع ہونے کے بعد جنوبی کوریا، مصر اور اسرائیل کی حکومتوں نے ان انکشافات کو لغو، بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیا ہے۔
افشا ہونے والی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی جاسوسوں کو روس میں خاصی گہرائی تک رسائی حاصل ہے جس کی بنا پر ان کے ایجنٹ کریملن کی سوچ اور اپروچ کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ بروقت معلومات فراہم کررہے ہیں۔ بعض دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ روسی عسکری سراغ رساں ادارے GRU، کرائے پر فوجی فراہم کرنے والی نجی ملیشیا ویگنر گروپ اور یوکرین میں سرگرم روس نواز دہشت گردوں کی فون گفتگو بھی امریکی ایجنٹوں کی دسترس میں تھی۔ اس قدر واضح اور کئی ذرائع سے مصدقہ معلومات، امریکی اور ان کی اتحادی خفیہ ایجنسیوں میں شاندار ہم آہنگی کا پتا دیتی ہے۔
امریکہ کی بدقسمتی کہ اس کے ایجنٹ دشمن کے قلب میں چھپی تزویراتی معلومات تو بہت خوبصورتی اور چابک دستی سے اڑا لائے لیکن چچا سام اتنی قیمتی اور حساس معلومات کے خزانے یعنی اپنی محفوظات (Archives) کو محفوظ نہ رکھ سکے اور بے خبری کا یہ عالم کہ امریکیوں کو 6 اپریل تک اس Leak کی خبر نہ ہوسکی، حالانکہ روس کے عسکری بلاگرز ڈسکارڈ اور بیلنگ کیٹ پر گردش کرنے والے انکشافات پر کئی ہفتوں سے کھلے عام گفتگو کررہے تھے۔
اس انکشاف نے روس، چین، شمالی کوریا اور بیلارُس میں ان کے جاسوسوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ باقی تین ممالک کی تو خیر ہے لیکن روسی فوج اور سراغ رساں
اداروں میں چھپے چچا سام کے تنخواہ داروں کی تلاش و تطہیر اور پکڑے جانے والوں کی شامت آنا یقینی لگ رہا ہے۔
امریکی حکام اب تک اس واقعے کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ 13 اپریل کو واشنگٹن پوسٹ نے نام اور شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر وزارت دفاع کے ایک نوجوان اہلکار کا انٹرویو نشر کیا۔ افسر نے بتایا کہ یہ معلومات کئی ماہ پہلے ڈسکارڈ پر OGکے فرضی اکائونٹ سے جاری ہوئیں۔ اسی دن ایف بی آئی ایجنٹوں نے بوسٹن (Boston)کے مضافات سے ریاستی فضائیہ کے ایک 21 سالہ افسر جیک ٹیکسیرا (Jack Teixeirak) کو گرفتار کرلیا جو وزارتِ دفاع کے شعبہ IT میں بہت ہی جونیئر منصب پر فائز ہے۔ جیک کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہوا کہ وہ ایک سفید فام راسخ العقیدہ عیسائی اور جنگ مخالف ہے۔ اسی بنا پر ایک نیا تنازع شروع ہوگیا۔ ریپبلکن پارٹی کی رکن کانگریس محترمہ مجوری ٹیلر گرین نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ ”جیک ٹیکسیرا ایک جنگ مخالف سفید فام نوجوان ہے اور ایسے لوگوں کو بائیڈن حکومت اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ خود ہی بتائیں اصل دشمن کون ہے؟ یہ نوجوان و غیر تجربہ کار سپاہی یا بائیڈن انتظامیہ جس نے غیر نیٹو کمزور یوکرین کو جوہری طاقت سے لیس روس کے سامنے کھڑا کردیا؟“
………….
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔