جمہوریت کا بحران اور مغربی دنیا کی پریشانی

مغرب کے اقتصادی اور مالیاتی نظام ہی میں نہیں، اس کے سیاسی نظام میں بھی ’’تھکن‘‘ کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں

مغربی دنیا اگرچہ مذہب کے انکار کے بعد سے اب تک ایک عقل پرست دنیا ہے اور اسے ’’عقیدے‘‘ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ مگر انسان کا مسئلہ عجیب ہے۔ انسان ایک حقیقی اور سچے خدا کا انکار کرتا ہے تو اسے سو جھوٹے خدا ایجاد کرنے پڑ جاتے ہیں۔ وہ حقیقی مذہب کا انکار کرتا ہے تو اسے دس جھوٹے مذاہب گھڑنے پڑ جاتے ہیں۔ وہ ایک عقیدے کو مسترد کرتا ہے تو پچاس جھوٹے عقیدے اس پر سواری گانٹھ لیتے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے:

یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

مغربی دنیا کا مسئلہ یہی ہے۔ وہ اگرچہ عقیدے کے لفظ سے بدکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے اپنے کئی عقلی تصورات کو عقائد کا درجہ دیا ہوا ہے۔ ان عقیدوں میں ایک عقیدہ جمہوریت بھی ہے۔ اگرچہ جمہوریت ایک سیاسی نظام اور تاریخی تجربہ ہے مگر اہلِ مغرب جمہوریت کا ذکر ایک عقیدے کے طور پر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوریت عقیدے کی طرح ’’مقدس‘‘ ہے اور جمہوریت کا درجہ اخلاقی اقدار کے برابر بلکہ ان سے بھی زیادہ ہے۔ مغربی دنیا نے جمہوریت اور غیر جمہوریت کی بنیاد پر بھی دنیا کی تقسیم کی ہوئی ہے۔ مغربی دنیا کے نزدیک جمہوریت رکھنے والے ملک ’’مہذب‘‘ اور غیر جمہوری ملک ’’غیر مہذب‘‘ ہیں۔ جمہوری ملک آزاد ہیں اور غیر جمہوری ملک ایک نوع کی غلامی میں مبتلا ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جمہوریت خرابیوں سے دوچار نظر نہیں آتی، لیکن اہلِ مغرب کو جب کہیں جمہوریت خرابیوں سے دوچار نظر آتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں جمہوریت کے مسئلے کا حل مزید جمہوریت ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں جمہوریت کو بعض ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ جمہوریت ایک نظام کی حیثیت سے بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ جمہوریت کے اس بحران نے مغرب کے سنجیدہ حلقوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ اس پریشانی کا ایک اظہار لندن سے شائع ہونے والے معروف ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ میں کچھ عرصہ پہلے شائع ہونے والا مضمون ہے جس کا عنوان تھا ’’جمہوریت کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟‘‘

دی اکنامسٹ مغرب کے چند معیاری جرائد میں سے ایک ہے، اور اس کے تبصروں اور تجزیوں کی اہمیت مغرب کے بہت سے معروف ہفت روزوں کے تبصروں اور تجزیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے دو اسباب ہیں، ایک یہ کہ دی اکنامسٹ کی رائے غیر شخصی ہوتی ہے، اور دوسری یہ کہ وہ اپنی رائے اور تجزیے کو علمی تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دی اکنامسٹ کی صحافت میں ایک علمی رنگ موجود ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دی اکنامسٹ نے جمہوریت کے حوالے سے کیا کہا ہے؟

دی اکنامسٹ کے نزدیک جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں امیر افراد کی تعداد غیر جمہوری ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ جمہوری ملک کم جنگیں لڑتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں بدعنوانی کے خلاف کامیاب مزاحمت ممکن ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جمہوریت میں عوام کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی میسر ہوتی ہے اور وہ اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کی تشکیل خود کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے لیے دنیا میں زبردست خیر سگالی پائی جاتی ہے اور کروڑوں لوگ جمہوریت کو گلے لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اگرچہ مغرب میں جمہوریت 18 ویں صدی میں مستحکم ہوئی لیکن اسے 20 ویں صدی میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ جمہوریت نے جرمنی میں نازی ازم کو شکست دی، بھارت میں اپنی جڑیں مضبوط کیں، ایشیا اور افریقہ میں نئی جمہوریتوں نے جنم لیا، یونان میں 1974ء میں جمہوریت فتح یاب ہوئی، اسپین میں 1975ء میں جمہوریت نے اپنا پرچم بلند کیا، ارجنٹائن میں جمہوریت کو 1983ء میں کامیابی ملی، برازیل میں جمہوریت کو 1985ء میں فتح نصیب ہوئی، چلی میں 1989ء میں جمہوریت نے آمریت کو شکست دی، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سابق سوویت ریاستوں میں کئی نئی جمہوریتیں ظاہر ہوئیں۔ چنانچہ 2000عیسوی تک دنیا کے 120 ملکوں میں جمہوری نظام قائم تھا۔ یعنی دنیا کے کُل ملکوں کے 63 فیصد حصے میں جمہوریت موجود تھی۔ آمریت سے جمہوریت کی طرف مراجعت آسان نہیں۔ نئی جمہوری حکومتیں لڑکھڑاتی رہتی ہیں، ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہوجاتی ہے اور حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہوجاتے ہیں۔ ایک دہائی قبل یوکرین کے تاریخی انقلاب میں یہی ہوا۔ 2004ء میں یانوکووچ کو بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے اقتدار سے الگ کردیا لیکن وہ 2010ء میں دوبارہ صدر بن گئے۔ اگرچہ بیسویں صدی کے نصف دوسرے حصے میں جمہوریت کو عالمگیر نوعیت کی فتوحات حاصل ہوئیں، تاہم 21 ویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی جمہوریت کو دھچکے لگنے لگے۔ مغرب میں 2007-08ء میں رونما ہونے والا اقتصادی بحران جمہوریت کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اور اس کے مضمرات نفسیاتی اور مالیاتی نوعیت کے تھے۔ اس بحران نے مغرب کے سیاسی نظام کی کمزوریوں کو آشکار کردیا اور اہلِ مغرب کو اپنے سیاسی اور مالیاتی نظام کے حوالے سے جو خود اعتمادی حاصل تھی اس میں نمایاں کمی ہوئی۔ اس بحران سے ظاہر ہوا کہ مغربی ممالک کی حکومتوں نے کئی دہائیوں تک قرضوں کی حدود میں وسعت پیدا کی جس کے نتیجے میں قرضوں کو خطرناک حد تک پہنچنے کا موقع ملا۔ جمہوریت کو ایک اور دھچکا عراق کی جنگ سے لگا۔ امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، لیکن یہ دعویٰ یکسر غلط ثابت ہوا تو صدر بش نے جمہوریت اور آزادی کو اس جنگ کا جواز بنا لیا۔ انہوں نے اپنے دوسرے صدارتی دور کے آغاز میں فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزاد قوموں کی جانب سے جمہوریت کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں ہمارے دشمنوں کی شکست کی ابتدا ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض مفاد پرستی تھی۔ بش کو معلوم تھا کہ جب تک مشرق وسطیٰ پر آمروںکا قبضہ رہے گا یہ خطہ دہشت گردوں کی نرسری بنا رہے گا۔ لیکن بہرحال جارج بش کے اس رویّے سے جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ بائیں بازو کے لوگوں نے کہا کہ جارج بش کے بیان سے ظاہر ہے کہ جمہوریت محض امریکی سامراج کی ستر پوشی کا ذریعہ ہے۔ جمہوریت کو تیسرا دھچکا مصر میں جھیلنا پڑا۔ 2011ء میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد جمہوریت کی ایک نئی کرن ابھری اور وہاں ہونے والے انتخابات میں سیکولر اور لبرل عناصر نے نہیں بلکہ اخوان المسلمون نے کامیابی حاصل کی، لیکن اخوان کے صدر مرسی نے اپنی فتح کا مطلب یہ سمجھا کہ ایک فاتح، نظام کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اپنے اشارے پر چلا سکتا ہے۔ بہرحال 2013ء میں فوج نے صدر مرسی کو برطرف کردیا۔ فوج نے مرسی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار اور سیکڑوں کو قتل کردیا۔ شام میں جنگ اور لیبیا میں انتشار نے اس امید پر پانی پھیر دیا کہ عرب بہار مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کے پھول کھلائے گی۔

جمہوریت کے مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں لوگوں کی سیاسی وابستگی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ برطانیہ میں اس وقت صرف ایک فیصد شہری سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں، جب کہ 1950ء میں یہ شرح 20 فیصد تھی۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں رائے دہندگی کی شرح گر رہی ہے۔ 49 ملکوں میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 1980-84ء اور 2009ء سے 2013ء کے درمیان ووٹنگ کی شرح میں دس فیصد کمی ہوئی ہے۔ یورپی اتحاد میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دو میں سے ایک ووٹر کو حکومت پر اعتبار نہیں ہوتا۔ 2012ء کے سروے کے مطابق برطانیہ کے 62 فیصد رائے دہندگان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاست دان ہمیشہ ہی جھوٹ بولتے ہیں۔

اس صورتِ حال سے لوگوں میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام کا مذاق اڑانے اور اس کے خلاف منفی انداز میں احتجاج کرنے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ 2012ء میں آئس لینڈ میں بدعنوان قرار دی گئی Best پارٹی کو مقامی انتخابات میں اتنی نشستیں حاصل ہو گئیں کہ وہ ریجاوک کونسل میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ 2013ء میں ہر چوتھے اطالوی باشندے نے ہیپی گریلو کی پارٹی کو ووٹ دیے، حالانکہ ہیپی گریلو ایک مزاحیہ اداکار ہیں۔ دیکھا جائے تو ’’جمہوری جمود‘‘ کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ امریکہ میں دو جماعتی نظام کام کررہا ہے، اور دونوں جماعتوں نے 2013ء میں جماعتی سیاسی فائدے اور Point Scoring کے لیے ایسی صورتِ حال پیدا کی کہ امریکہ دو برسوں میں دو بار دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ جہاں تک بیرونی دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے کے سلسلے میں امریکہ کی دلچسپی اور سرگرمیوں کا تعلق ہے تو عرب دنیا کی سیاسی صورتِ حال نے اس پر اوس ڈال دی ہے، اور امریکہ محسوس کرتا ہے کہ اکثر جگہوں پر اگر جمہوری عمل آگے بڑھا تو سرکش حکومتیں یا جہادی اقتدار میں آجائیں گے۔

دی اکنامسٹ نے جمہوریت کو لاحق دو اور مسائل کا ذکر خطرات کے طور پر کیا ہے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق عالمگیریت نے قومی سیاست کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ تجارت اور زرمبادلہ کے بہائو پر عالمی منڈیوں اور عالمی اداروں کا دبائو بڑھ گیا ہے، اور اس کے نتیجے میں سیاست دان محسوس کررہے ہیںکہ ان کے اختیارات کم ہورہے ہیں، اور وہ کم اختیارات کے ساتھ اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرسکتے۔ عالمگیریت کے نتیجے میں سیاست دان ٹیکنو کریٹس پر انحصار کرنے لگے ہیں جس سے ان کے اختیارات مزید محدود ہوگئے ہیں۔ ملکی معاملات میں ٹیکنو کریٹس کی بڑھتی ہوئی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1985ء میں ایسے ملکوں کی تعداد صرف 20 تھی جہاں خودمختار مرکزی بینک موجود تھے، مگر 2013ء میں ایسے ملکوں کی تعداد بڑھ کر 160 ہوچکی تھی۔ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جمہوری حکومتوں کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کو آسان بنادیا ہے، لیکن جمہوری نظام کے لیے اکیسویں صدی میں ایک بڑا خطرہ چین اور اس کا ابھار ہے۔ دی اکنامسٹ کے بقول معاشی ترقی کے اعتبار سے چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جمہوری دنیا کی اجارہ داری کو ختم کردیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے لیری سمبرز کا کہنا ہے کہ امریکہ تیز ترین ترقی کررہاتھا، امریکہ اپنے عوام کے معیارِ زندگی میں 30 سال کے دوران دو گنا بہتری لایا، لیکن چین گزشتہ تین دہائیوں سے ہر دس سال میں اپنے عوام کے معیارِ زندگی کو دوگنا کررہا ہے۔ اس طرح اُس نے امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چین کے اعلیٰ طبقے کے مطابق کمیونسٹ پارٹی کی کنٹرول کی پالیسی اہل افراد کی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کی ضمانت ہے۔ چنانچہ چینی نظام جمہوری نظام سے زیادہ مؤثر ہے اور اس کے جمود کا شکار ہونے کے امکانات کم ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ہر دس سال بعد تبدیل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ’’اہلیت‘‘ یا ’’ٹیلنٹ‘‘ کی ترسیل جاری رہتی ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے چین نے صرف دو برسوں میں اپنے 24 کروڑ باشندوں کو پنشن کی سہولت فراہم کی ہے۔ یہ تعداد امریکہ کے پنشن یافتہ افراد سے بہت زیادہ ہے۔ مغرب کے ایک تحقیقاتی ادارے PEW کے سروے کے مطابق چین کے 85 فیصد افراد اپنے ملک کی سمت سے مطمئن ہیں، جب کہ امریکہ کے صرف 31 فیصد افراد اپنے ملک کی سمت کے حوالے سے اطمینان رکھتے ہیں۔ اس منظرنامے میں چین کے دانش ور ژینگ دیوئی نے کہا ہے کہ جمہوریت مغرب بالخصوص امریکہ کو تباہ کررہی ہے کیوں کہ جمہوریت معاشی جمود کو اداراتی بنادیتی ہے یا اسے Institutionalize کردیتی ہے، چنانچہ امریکہ میں جارج بش جونیئر جیسے دوسرے درجے کے رہنما صدر بن جاتے ہیں۔ بیجنگ یونیورسٹی کے یوکیلپنگ کی دلیل ہے کہ جمہوریت سادہ امور کو پیچیدہ بنادیتی ہے۔ چنانچہ چین کے اہلِ دانش کے مطابق چین متبادل طرزِ حکمرانی کا ایک نمونہ پیش کررہا ہے۔ تاہم دی اکنامسٹ کے مطابق چین کا نظام بدعنوانی سے پاک نہیں۔

دی اکنامسٹ کا یہ تجزیہ جمہوریت، اس کے بحران اور جمہوریت کے ساتھ مغربی دنیا کے تعلق کی کئی اہم جہتوں کو سامنے لاتا ہے۔ بلاشبہ مغربی دنیا جمہوریت کو ایک عقیدے کے طور پر لیتی ہے اور وہ اس کی تقدیس کی بھی قائل ہے، لیکن ان امور کا تعلق مغرب میں جمہوریت کی کامیابی سے ہے، اور انگریزی کے ایک مقولے کے مطابق کامیابی کا معاملہ یہ ہے کہ کامیابی کی طرح کچھ بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی مغربی سیاسی نظام کی ناکامیاں نمایاں ہوئیں اہلِ مغرب جمہوریت کا پوسٹ مارٹم کرنے بیٹھ گئے اور مغرب میں جمہوریت ایک عقیدے کے بجائے محض ایک تاریخی تجربہ بن کر کھڑی ہوگئی۔ دی اکنامسٹ کا یہ تجزیہ بتا رہا ہے کہ مغرب کے اقتصادی اور مالیاتی نظام ہی میں نہیں، اس کے سیاسی نظام میں بھی ’’تھکن‘‘ کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں، اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں جمہوریت کی کوئی اخلاقی یا علمی بنیاد نہیں ہے۔ چنانچہ ملک کے سیاسی نظام سے لوگوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں سے لوگوں کی وابستگی کا دائرہ سکڑ رہا ہے، حالانکہ مغربی دنیا اقتصادی اور سائنسی اعتبار سے آج بھی کامیاب اور امیر ترین ممالک پر مشتمل ہے۔

دی اکنامسٹ نے چین کی اقتصادی فتوحات کا ذکر جس انداز میں کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی دنیا چین کی اقتصادی، معاشی اور مالیاتی کامیابیوں کو مبہوت یا Mesmerize ہوکر دیکھ رہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ اگر چین کے اقتصادی ماڈل کی کامیابی کا سفر اسی طرح پچیس تیس سال جاری رہا تو مغربی دنیا چین کے سیاسی نظام کو بھی رشک کے ساتھ دیکھنے لگے گی۔ اس صورتِ حال میں خود مغربی دنیا میں ایسے دانش ور اور مدبرین پیدا ہوجائیں گے جو کہیں گے کہ جمہوریت میں شخصی آزادی زیادہ ہے مگر چینی ماڈل میں معاشی کامیابی زیادہ ہے، اور زندگی میں اصل چیز معاشی کامیابی ہے، اس لیے کہ معاشی کامیابی ٹھوس چیز ہے اور آزادی محض ایک ذہنی چیز ہے۔ چنانچہ ہمارا سیاسی نظام جمہوری نہیں بلکہ چینی نمونے کے مطابق ہونا چاہیے۔ ویسے بھی اقتصادی ترقی بجائے خود آزادی کی علامت ہے۔ آپ کی جیب بھری ہو تو آپ آرام خرید سکتے ہیں، عیش پر ہاتھ صاف کرسکتے ہیں۔

مغربی دنیا جمہوریت کو ’’آفاقی نظام‘‘ کہتی ہے، مگر دی اکنامسٹ کے تجزیے سے ثابت ہوا کہ مغربی دنیا کے نزدیک جمہوریت سیکولرازم اور لبرل ازم کے ساتھ منسلک ہے۔ یعنی جمہوریت سے اگر سیکولر اور لبرل عناصر اقتدار میں آئیں تو جمہوریت زندہ باد، لیکن اگر اس سے مسلم ممالک میں اسلامی تحاریک اقتدار میں آئیں تو جمہوریت مُردہ باد۔ اس صورتِ حال میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کے لیے جمہوریت ایک سیاسی نظام نہیں بلکہ ایک تہذیبی منصوبہ ہے جس کو ہر جگہ اور ہمیشہ مغرب کے تہذیبی تناظر کے مطابق بروئے کار آنا چاہیے۔