تحریک ِپاکستان جب فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گئی تھی تو آل انڈیا مسلم لیگ نے ’’مسلم انڈیا‘‘ کی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرلیا۔ یہ تاریخی اجلاس 7 سے 9 اپریل 1946ء تک دہلی میں منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کے منتخب نمائندے شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں ’’قرارداد ِدہلی‘‘ کی متفقہ منظوری کے بعد ہر رکن اسمبلی نے ایک عہدنامے پر دستخط کئے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد قائداعظم نے ایک تقریر کی۔ یہ عہد نامہ اور قائداعظم کی تقریر ملاحظہ کیجئے۔
……٭٭٭……
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
’’قل ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للہ رب العالمین‘‘ (الانعام:162)
(کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے‘‘۔
میں لیجسلیٹو اسمبلی کونسل کی مسلم لیگ پارٹی کا رکن پوری سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ اپنے اس قطعی یقین کا اعلان کرتا ہوں کہ برعظیم ہند میں بسنے والی مسلم نیشن کی خیر و عافیت (سیفٹی) اور حفاظت و صیانت (سیکیورٹی) اور نجات (سالویشن) اور منزلِ مقصود (ڈسٹنی) صرف حصولِ پاکستان میں مضمر ہے، جو واحد معقول، منصفانہ اور عزو وقار کا حامل و عادلانہ حل ہے تمام آئینی مشکلات کا۔ اور جس کے ذریعے امن و امان، حریت و آزادی اور خوش حالی (کی فضا) اس رفیع الشان برعظیم کی سب قومیتوں اور جمعیتوں (نیشنلیٹر اور کمیونیٹر) کو میسر ہوگی۔
میں انتہائی سنجیدگی و متانت سے اس بات کی بھی توثیق کرتا ہوں کہ پوری خوش دلی اور جرأت مندی کے ساتھ ان تمام ہدایات اور اوامر و احکام کی تعمیل کروں گا اور ان کو روبہ عمل لائوں گا جو آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے ہمارے محبوب مطلوب قومی نصب العین، پاکستان کے حصول کی خاطر، جس تحریک و اقدام کی صورت میں بھی سامنے لائے جائیں گے۔ اور چونکہ میں اپنے مقصد کے منصفانہ اور برحق ہونے کا یقین رکھتا ہوں اس لیے خود اپنے سے بھی یہ عہد اور عزم صمیم کرتا ہوں کہ ہر خطرے کا مقابلہ کرنے اور ہر آزمائش سے گزرنے یا قربانی دینے کے لیے بھی کمربستہ رہوں گا جس کا یہ نصب العین مجھ سے تقاضا کرے گا۔
ربنا افرغ علیناصبراً وثبت قدامتا و نصرناعلی القوم الکافرین (البقرہ:250)
’’اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں لڑائی میں ثابت قدم رکھ اور لشکر کفار پر فتح یاب فرما‘‘ (آمین)
عہد نامے پر اسمبلیوں کے ہر رکن نے دستخط کئے۔ چند نے جذبات کی شدت میں اپنے خون سے اس پر دستخط ثبت کئے تھے۔ قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی۔ اس کے بعد قائداعظمؒ نے اختتامی کلمات کہے اور فرمایا کہ:
’’دین و مذہب ہمیں بے حد عزیز ہے۔ ہم جب دین و مذہب کی بات کرتے ہیں تو پھر تمام دنیاوی مفادات ہماری نظروں میں حقیر ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بہت اہم اور بنیادی ہیں، مثلاً ہماری معاشرتی زندگی اور ہماری معاشی زندگی۔ مگر جب تک سیاسی قوت ہمارے ہاتھوں میں نہ ہو ہم اپنے دین و ایمان کی مدافعت کس طرح کرسکتے ہیں؟ ہماری معاشرتی اور معاشی زندگی کا تحفظ کس طرح ہوسکتا ہے؟
آج ہم نے اس بلند مرتبہ اور تاریخی کنونشن میں پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک عہد کیا ہے۔ بہترین نتائج کی توقع رکھیے اور بدترین صورت ِحال کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار رہیے۔ پانچ سال کے اندر ہماری جو نشاۃِ ثانیہ ہوئی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ ہم نے اس عرصے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ہمیں تو یہ بالکل خواب سا لگتا ہے۔ دس کروڑ مسلمانوں کی تقدیر سازی کیا برطانیہ کرے گا؟
جی نہیں! سب کچھ ہمیں خود کرنا ہے۔ برطانیہ اور دوسرے حریف ہماری راہ میں صرف اڑنگے ہی لگا سکتے ہیں، وہ صرف مزاحمتیں ہی کھڑی کریں گے، لیکن یقین کیجیے وہ ہمیں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے سے روک نہیں سکتے۔
اس کنونشن سے جب آپ اٹھیں تو دلوں میں امید لے کر اٹھیں، حوصلے اور ایمان و یقین سے مالامال ہوکر نکلیں۔ انشاء اللہ ہم لوگ کامیاب ہوکر رہیں گے‘‘۔
(قرارداد ِپاکستان کی واضح تصویر۔ از:رضوان احمد (سوانح نگار قائداعظم) ماہنامہ ’’نظریہ‘‘ اسلام آباد)
مجلس اقبال
مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد
اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔