اسلامی جمہوریہ پاکستان ان دنوں بحرانوں کی سرزمین بنا ہوا ہے، شدید سیاسی انتشار کی فضا میں ملک سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور نظریاتی بحرانوں کی دلدل میں دھنستا ہوا محسوس ہو رہا ہے، قومی وحدت کی علامت آئینی ادارے خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے دکھائی دیتے ہیں، اقتصادی پہیہ جام ہو چکا ہے، سیاستدان باہم دست و گریباں ہیں، کسی کو پرواہ نہیں کہ اس لڑائی اور خود غرضی کا نتیجہ کس قدر تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے… قرآن حکیم انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہر طرح کے حالات اور تمام معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، چنانچہ سورۂ الحجرات میں پاکستان کو درپیش صورت حال میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ’’اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔‘‘ پھر اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘
مقام شکر ہے کہ قرآن حکیم کی اسی رہنمائی کی روشنی میں جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ملک کی متحارب اور متصادم قیادت کے مابین مفاہمت اور مصالحت کی راہ تلاش کرنے کی مثبت کوشش کا آغاز کر دیا ہے، جو یقینا قابل قدر اور قابل ستائش ہے، یہ کوشش جماعت اسلامی ہی کو زیبا تھی کیونکہ بڑی ہونے کی دعویدار جماعتیں انتہائی چھوٹے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس نچلی سطح پر آ کر ایک دوسرے پر الزام تراشی بلکہ گالم گلوچ میں مصروف ہیں، ان سے کسی اصلاح اور بہتری کی توقع عبث ہے، جماعت اسلامی ہی اس وقت ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت فریقین کو ایک میز پر بٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ جماعت کے قائدین نے دیگر سیاستدانوں اور حکمرانوں پر تنقید تو ضرور کی ہے مگر اس کام میں کبھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے جانے دیا ہے اور نہ ہی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے کو شعار بنایا ہے، اسی لیے ان کی کاوشوں کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بھی روشن ہیں چنانچہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے منجھے ہوئے سیاسی رہنما لیاقت بلوچ اور جماعت کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم کے ہمراہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم عمران خاں سے جو ملاقاتیں کی ہیں وہ خاصی مثبت اور حوصلہ افزا رہی ہیں، ان ملاقاتوں کے دوران جماعت کے قائدین نے موثر انداز میں فریقین کو احساس دلایا کہ وہ کشمکش اور کشیدگی میں اضافہ اور تصادم کی جس راہ پر گامزن ہیں، اس کا انجام ملک اور قوم اور خود آپ کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور اس کی وجہ سے کسی تیسری قوت کو بھی مداخلت کا جواز مل سکتا ہے، بہتر ہو گا کہ باہم مل بیٹھ کر اجتماعی دانش سے مسائل کے حل کی راہ تلاش کی جائے چنانچہ موجودہ اور سابق وزیر اعظم نے جماعت اسلامی کی قیادت سے اتفاق کیا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں کے مابین بات چیت ضروری ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے جماعت اسلامی کی کوششوں میں مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی جس کی عملی شکل یوں سامنے آئی ہے کہ میاں شہباز شریف نے وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق اور سردار ایاز صادق کو مذاکرات کے ضمن میں پیش رفت کا اختیار دے دیا ہے جب کہ عمران خاں نے پرویز خٹک، اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید پر مشتمل تین رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے! مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سے یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ فریقین واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہیں اور مسائل کے حل پر آمادہ ہیں تاہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے کہ دونوں طرف کے انتہا پسندانہ سوچ کے حامل عناصر مذاکرات کے آغاز سے قبل سرگرم ہو گئے اور ان کی جانب سے منفی بیان بازی شروع کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور جناب عمران خاں پر لازم ہے کہ وہ ان عناصر کی بیان بازی پر سختی سے پابندی عائد کریں تاکہ پہلے سے کشیدہ فضا کو مزید زہر آلود ہونے سے بچایا جا سکے ورنہ خدشہ ہے کہ کہیں مذاکراتی عمل آغاز سے پہلے ہی سبوتاژنہ کر دیا جائے، خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک و قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہو گا…!
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اگلے مرحلے میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ آصف علی زرداری خود بھی چند روز قبل وزیر اعظم کو حزب اختلاف سے مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں اس لیے توقع ہے کہ وہ سراج الحق صاحب کی کوشش کی تائید و توثیق کے ساتھ ساتھ اپنا موثر کردار بھی اس ضمن میں ادا کریں گے کہ وہ موجودہ حکومت میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط بھی سامنے لائی جا رہی ہیں تاہم امیر جماعت اسلامی نے اچھا کیا کہ ابتدا ہی میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ابتدائی ملاقاتوں کے مرحلہ کی تکمیل پر عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس منعقد کریں گے جس کا ایجنڈا آئین کا تحفظ اور ایک دن انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہو گا… امید رکھنا چاہئے کہ تمام جماعتیں مثبت سوچ اور ملک و قوم کے مفاد میں کردار ادا کرنے کے جذبہ کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوں گی اور کوئی ایسا منفی عمل ان کی طرف سے سامنے نہیں آئے گا جس کے سبب بحران ختم ہونے کی بجائے مزید سنگین ہو جائیں۔ دعا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت مل بیٹھ کر قومی مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے اور عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوسکے… ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد…!!! (حامد ریاض ڈوگر)