دسمبر2013ء ضلع مونگیر بہار 9 جون 2000ء، کراچی
مولانامحمدناظم ندویؒ کا شمار برصغیرپاک و ہند کے اُن مشاہیر میں ہوتا ہے جنہیں اللہ نے علم و فضل کے ساتھ علوم دینیہ اور عصری علوم میںبھی مہارت عطا فرمائی تھی۔مناسب ہوگا کہ یہاں ان کے بارے میں ان کے زمانہ طالب علم کے ساتھی اور عالم اسلام کے عظیم مفکرو مورخ مولانا سید ابوالحسن ندوی کے مضمون کا ایک اقتباس پیش کروں:
’’میرے احباب میں جن کے انس و اخلاص سے میری زندگی کی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں ان میں سے مولانا محمد ناظم ندوی کو عربی زبان و ادب اور نحو کی باریکیوں پر عبور حاصل ہے‘ ان کا خاْص فن تو مفردات کی تحقیق اور اس کے شواہد کا علم ہے‘ اس باب میں ان کے اقوال فتاویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کی جامعیت اور ثقافت کا تنوع ان کی تحریروں سے جھلکتا ہے۔‘‘
مولانا محمد ناظم ندویؒ سید سلیمان ندویؒ کے اُن تین شاگردوں سید مسعود عالم ندوی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی (علی میاں) میں سے ایک تھے جنہیں لوگ علامہ سید سلیمان ندوی کے ’’ثلاثہ مثلثہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں جن کا شمار ندوۃ العلماء کے ان اوّلین طلبہ میں ہوتا ہے جنہیں مراکش سے آنے والے استاذ علامہ تقی الدین ہلالی سے عربی زبان و ادب میں تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
مولانامحمد ناظم ندویؒ کو ندوہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں بطور استاذ اور بعدازاں ندوہ کے شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ مولانامحمد ناظم ندویؒ کے بعد ندوہ کے شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔
مولانا محمد ناظم ندویؒ نے ہندو پاٹھ شالا اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد بہار کے معروف دینی درس گاہ مدرسہ عزیزیہ سے درسِ نظامی مکمل کی اور اس کے بعد جامعہ ندوہ سے چار سالہ کورس مکمل کیا۔ واضح رہے جامعہ ندوہ سے فارغ ہونے والے طلبہ کی اسناد کو برصغیر میں سرکاری طور پر ایم اے کے مساوی درجہ حاصل ہے۔
مولانامحمد ناظم ندویؒ کو عربی زبان و ادب میں انشاء پردازی کے ساتھ عربی شاعری میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ اسی طرح انہیں اردو‘ فارسی اور انگریزی میں بھی کمال درجے کی دسترس تھی۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’خطبات‘‘ (خطبات مدراس) کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی مولانا محمد ناظم ندویؒ کو حاصل ہوا۔ ان کی دیگر عربی تصانیف ’’باقۃ الازھار‘‘ (گلدستہ‘ جو کہ زیادہ تر شعری و ادبی نثری ادب پاروں کا مجموعہ ہے۔) القصیدہ الرائیہ ہیں۔
’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ان کی ایک اہم تصنیف ہے جسے اہل علم کے ساتھ عوام و خواص میں بھی بڑی پذیرائی ملی۔ ان کی عربی شاعری میں ایک خاص چیز شاہ فیصل کی شہادت پر کہی جانے والی عربی نظم کو بھی عالم عرب میں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے سیکڑوںکی تعداد میں ایسے مقالات ہیں جو انہوں نے پاکستان اور بیرون پاکستان انٹرنیشنل کانفرنس میں عربی‘ انگریزی اور اردو میں پڑھے تھے۔
24 اگست 2016ء کو دہلی یونیورسٹی سے شیخ احتشام الدین نے مولانا کی علمی‘ ادبی اور تدریسی خدمات پر مبنی ریسرچ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ (واضح رہے کہ شیخ احتشام الدین قطر یونیورسٹی میں بطور استاذ خدمات انجام دے چکے ہیں۔)
مولانامحمد ناظم ندویؒ ندوہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1934ء میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ہدایت پر ڈابھیل(سورت) عربی ادب کے استاد کے طور تشریف لے گئے تھے جہاں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ‘ مولانا بدرعالم میرٹھی اور مفتی محمد شفیعؒ (مفتی اعظم پاکستان) پہلے سے درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ 1937-38ء میں انہیں ڈابھیل سے جامعہ ندوہ واپس بلا لیا گیا جہاں پہلے بطور استاذ خدمات انجام دیں بعدازاں ان کا تقرر ندوہ کے سربراہ شیخ الجامعہ کے طور پر ہوا جہاں وہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان منتقل ہونے تک فائز رہے۔ پاکستان آنے کے بعد کچھ عرصہ سعودی سفارت خانے میں بطور مشیر تعلیم خدمات انجام دیں۔ بعدازاں ان کا تقرر جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ کے طور پر ہو گیا جہاں 1962ء تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔ کراچی یونیورسٹی سمیت کئی جامعات کے اساتذہ سلیکشن بورڈ کے ممبر بھی رہے۔
شیخ الجامعہ عباسیہ کے طور پر انہوں نے 1958ء کے اوائل میں اہل علم کی ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمارے دینی مدارس کو عصری علوم کو بھی اپنے نصاب میں اس طرح سمونا لازم ہو گیا ہے کہ جس کے بعد ان کا نظامِ تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو جائے اور مدارس کی انفرادیت بھی برقرار رہے‘ اس طرف قدم بڑھائے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کے لیے انہوں نے جامعۃ ندوۃ کی مثال دی تھی کہ ندوہ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اس کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا تھا۔ بعدازاں برسوں بعد اسی تجویز کو انہوں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کا اسلام آباد میں قائم کردہ ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزکے زیر انتظام اپنے خطبۂ صدارت میں بھی پیش کی تھی۔ 1996ء میں مولانا علی میاں ندویؒ کے ساتھ ترکی کا دورہ اس وقت ترکی کے وزیراعظم نجم الدین شیخ اربکان کی دعوت پر کیا تھا‘ اپنے دورے کے بعد انہوں نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’ترکی اپنے اصل کی طرف پلٹ رہا ہے اور بہت جلد یہاں دین کے احیا کا کام پوری قوت سے جلوۂ گر ہوگا۔‘‘ یاد رہے کہ وہ انٹرنیشنل عربی ادب نامی تنظیم سے بھی وابستہ تھے جس کا صدر دفتر سعودی عرب میں تھا اور مولانا ناظم ندوی اس تنظیم کے پاکستان چیپٹر کے صدر تھے۔
ان کے دور کو جامعہ عباسیہ کا اس اعتبار سے سنہری دور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جامعہ عباسیہ میں مختلف نکتۂ نظر رکھنے والے اہل علم کو جمع کیا جن میں لغات القرآن کے مؤلف علامہ عبدالرشید نعمانیؒ، مولانا احمد سعید کاظمیؒ اور دیگر اہل علم شامل تھے۔1962 ء میں مدینہ میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی یونیورسٹی میں بطور استاذمقرر کیے گئے۔ مدینہ یونیورسٹی سے واپس آنے کے بعد کافی عرصے بہاولپور میں ہی مقیم رہے بعدازاں انہوں نے کراچی آکر ملیر درخشاں سوسائٹی میں اپنا گھر تعمیر کرایا اور مستقل رہائش اختیار کرلی۔
ِمولانا محمد ناظم ندویؒ درس و تدریس کے میدان میں عربی زبان کی مشکل ترین معروف کتابیں مقدمہ ابن خلدون ‘ہلال الاعجاز‘ اسرار البلاغہ‘ حجۃ البلاغہ وغیرہ کا درس اس طرح دیتے کہ مبتدی طلبہ بھی انہیں باآسانی سمجھ لیتے۔ وہ دس سال تک ان کتابوں کا درس دیتے رہے۔
کراچی منتقل ہونے کے بعد ان کی رہائش گاہ پر اکثر و بیشتر اہل ِعلم اُن سے استفادہ کے لیے تشریف لاتے رہتے تھے اور وہ خندہ پیشانی سے تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ واضح رہے کہ مولانا سید علی میاں ندویؒ جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو اُن کی قیام گاہ پر ضرور تشریف لاتے۔
مولامحمد ناظم ندویؒ کے آبا و اجداد کا روزگار زراعت کے شعبے سے تھا‘ اُن کے والد اشفاق احمد مرحوم نے انہیں میٹرک کے بعد درس نظامی کرایا اور بعدازاں 1928 میںندوہ میں تعلیم کے لیے بھیجا۔ محمد ناظم ندویؒ اپنی والدہ کے سایۂ شفقت سے بچپن میں ہی محروم ہو گئے تھے۔ ان کے اپنے سگے دو بھائی اور ایک بہن تھیں۔ ان کے والد نے ان کی والدہ کے انتقال کے کئی سال بعد دوسری شادی کی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 1940ء میں ندوہ تشریف لے گئے تو ان کے میزبان مولانا محمد ناظم ندویؒ ہی تھے۔ مولانامحمد ناظم ندویؒ درس و تدریس کی مصروفیت کے باعث عملی سیاست سے ہمیشہ کنارہ کش رہے تاہم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ان کا تعلق بڑا قریبی رہا۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کو جامعہ عباسیہ میں بھی خطاب کے لیے بلایا تھا۔ 1962 ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی صدارت میں کراچی میں ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘‘ قائم ہوئی تو اس کا مولانا محمد ناظم ندویؒ کو نائب صدر بنایا گیا ۔وہ اس ِمنصب پر اپنے انتقال تک فائز رہے۔
مولانا مودودی نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ مولانا ناظم ندوی صاحب ہی ‘‘ تفہیم القرآن’’ کا عربی میں ترجمہ کریں۔ یہ بات مولانا مودودی جیسے محتاط اور بلند مرتبہ اسلامی اسکالر کا مولانا ندوی پر اعتماد ایک ایسا اعزاز ہے جو عربی زبان وادب اور علم و فضل پر مولاناکے اعتراف کا بہترین مظہر ہے۔
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال کے وقت مولانامحمد ناظم ندویؒ نیویارک میں موجود تھے‘ انہوں نے وہاں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کی اور بعدازاں نیویارک میں ایک بڑا تاریخی تعزیتی جلسہ ہوا جس کی صدارت مولانا محمد ناظم ندویؒ نے کی جب کہ مہمان خصوصی اُس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ آغا شاہی تھے۔
مولانامحمد ناظم ندویؒ نے مولانا مودودیؒ پر کیے جانے والے اعتراض کا علمی انداز میں دفاع کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ مولانامحمد ناظم ندویؒ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل مولانا ظفر احمد انصاری کے سمدھی تھے۔ مولانا انصاری کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاریؒ کی اہلیہ مرحومہ‘ مولانا محمد ناظم ندویؒ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا شمار بھی عالم اسلام کے بڑے محقق اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ مولانا محمد ناظم ندویؒ کے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ جن میں سے دوصاحبزادیاں اور بڑے صاحبزادے علی کاظم اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر طیب عاصم (معروف آرتھوپیڈک سرجن) زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کی شوریٰ کے رکن بھی رہے ہیں جب کہ بڑے بیٹے محمدمبارک ظہیر بھی زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت سے وابستہ رہے اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
مولانا علی میاں ندویؒ خواہ کتنے ہی مختصر وقت کے لیے پاکستان تشریف لاتے‘ وہ اپنے عزیز دوست مولانا محمد ناظم ندوی کے گھر ضرور آتے جہاں مولانا کے دیگر احباب بھی جمع ہوتے تھے۔ مولانا محمد ناظم ندویؒکے قریبی احباب میں قیام پاکستان سے قبل جامعہ ملیہ کے سربراہ ڈاکٹر ذاکر حسین (بعدازاں بھارت کے صدر مملکت)‘ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمود حسین خان (سابق وزیرتعلیم پاکستان اور سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی) سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ ان کے قریبی احباب میں مولانا مودودیؒ‘ ابواللیث اصلاحی ندویؒ (سابق امیر جماعت اسلامی ہند) اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی سالوں میں پاکستان میں متعین مصر کے سفیر ڈاکٹر عبدالوہاب عزام مرحوم‘ مولانا عبدالرشید نعمانیؒ‘ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم‘ حکیم محمود احمد برکاتی مرحوم‘ حکیم نصیرالدین ندوی (نظامی دواخانہ والے)‘ معروف شاعر و نقاد اور ماہنامہ فاران کے ایڈیٹر ماہر القادریؒ، شاہ حسن عطا‘ ڈاکٹر الٰہی علوی (ڈاکٹر عارف علوی کے والد)‘ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر‘ ملک کے ممتازشاعر و ادیب‘ نقاد اور عربی زبان پر مکمل دسترس رکھنے والے ڈاکٹر خورشید رضوی‘ خالد اسحاق ایڈووکیٹ‘ اسماعیل احمد مینائی ؒ‘ علامہ عبدالعزیز میمنؒ‘ پروفیسر ڈاکٹر رضوان احمد ندویؒ‘ علامہ خلیل عرب اور ان کی صاحبزادی عطیہ خلیل عرب شامل تھے۔
یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کی نواسی سمیراکی شادی مولانا محمد ناظم ندویؒ کے نواسے یاسر ظفر اسحاق انصاری کے ساتھ ہوئی ہے۔
مولانامحمد ناظم ندویؒ نے ندوۃ العلما لکھنؤ ‘ ڈابھیل (سورت) کے دارالعلوم جامعہ عباسیہ بہاولپوراور مدینہ منورہ کے اسلامک یونیورسٹی سمیت درس و تدریس کی خدمات کا دورانیہ کم و بیش نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہے۔ جس میں ان سے براہ راست استفادہ کرنے والوں کی تعداد کسی طرح بھی ایک لاکھ سے کم نہیں بنتی۔
مولانا محمد ناظم ندویؒ سے جن حضرات کو ملنے اور ان کی محفلوں میں بیٹھنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایک عالم باعمل انسان تھے جو کبھی زہد و تقویٰ کے زعم میں مبتلا نہیں دیکھے گئے۔ اسی وجہ سے اُن سے ذاتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود کسی مسئلے پر رہنمائی کے لیے اُن کے پاس حاضر ہوتے تو وہ بلا تکلف ان کا خیر مقدم کرتے اور رہنمائی فرماتے۔ اُن کی ایک خاص بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ وہ اگر کسی وقت مسجد نہ جا پاتے تو گھر میں ہی باجماعت نماز کا اہتمام کرتے اگر ان کے مہمانوں میں کوئی غیر محرم نہ ہوتا تو گھر کی خواتین بھی باقاعدگی سے باجماعت نماز ادا کرتیں۔
جب اُن کے گھر پر ملک یا بیرون ملک سے کوئی مہمان تشریف لاتے تو عام طور سے نماز باجماعت کا اہتمام گھر پر ہی ہوتا۔ اسی طرح کی ایک بڑی تقریب جو مولانا علی میاں ندویؒ کی اعزاز میں ان کے گھر پر منعقد ہوئی اس میں شہر کی ممتاز علمی و دینی شخصیات جن مولانا ظفر احمد انصاری‘ اے کے بروہی‘ خالد اسحاق‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ کراچی کے بے شمار اہلِ علم اور اخبارات و جرائد کے ایڈیٹرز موجود تھے۔
مولانا محمد ناظم ندویؒ کے اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد جن میں ان کے پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں شامل ہیں‘ وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جہاں وہ نظم و ضبط کے بڑے پابند انسان تھے وہیں وہ بچوں کے ساتھ نہایت شفیق تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ بچوں کے ساتھ جتنا بھی وقت گزارتے ان کی دلچسپیوں سے محظوظ ہوتے رہتے اور جیسے ہی اذان کی آواز کانوں میں پڑتی تو بچوں سے کہتے آئو چلیں پہلے اللہ میاں سے باتیں کرلیں پھر ہم آپس میں باتیں کریں گے۔
مولانا محمدناظم ندویؒ کے بہاولپور میں ایک پڑوسی جناب کمانڈر (ریٹائرڈ) نفیس احمد صاحب نے اس ناچیز کو بتایا کہ انٹرنیشنل یونیورسٹی مدینہ منورہ میں دو سال کی تدریس کے بعد جب مولانا محمد ناظم ندویؒ بہاولپور تشریف لائے تو ان کا قیام بہاولپور کے محلہ گل حسن میں رہا اور مسجد گل حسن میں ہی وہ نماز ادا کرتے تھے۔ ایک دن اہل محلہ کی درخواست پر انہوں نے اسی مسجد میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس میں شرکت کے لیے لوگ شہر کے دور دراز مقامات سے بھی آتے تھے۔
نفیس احمد صاحب نے بتایا کہ ایک دن عصر کے بعد مسجد میں چند احباب کے سامنے خطاب کے دوران مولانا محمد ناظم ندویؒ نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ ’’اس کائنات میںقدرتی طور پر متحرک اجسام کا مدار (ORBIT) بیضوی ہے جیسے ایٹم کے اندر مرکزہ ہوتا ہے اور اس کے گرد الیکٹرون بیضوی شکل کے مدار میں حرکت کرتے ہیں اور دوسری بات کہ الیکٹران کی حرکت گھڑی مخالف (Anti Clock wise) ہوتی ہے۔ بعینہٖ مسلمان خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں جو بیضوی ہوتا ہے اور یہ طواف گھڑی مخالف (Anti Clock wise) ہوتا ہے۔‘‘
مولانا محمد ناظم ندویؒ کا خاندان ‘جن کی نسبت حضرت شہاب الدین سہروردیؒ سے ہے‘عراق اور ایران کی ساحلی پٹی جسے عرفِ عام میں ’’سنیوں کا علاقہ‘‘ کہا جاتا ہے‘ وہاں سے ہندوستان آیا تھا۔ مولانا محمد ناظم ندویؒ کا ددھیال اور ننھیال دونوں ہی غیر منقسم ہندوستان کے صوبۂ بہار میں آکر آباد ہوئے۔مولانا محمد ناظم ندویؒ اکیلے ہی پاکستان تشریف لائے جب کہ ان کے دو بھائی اور ایک بہن ہندوستان میں ہی آباد رہے۔
مولانا محمد ناظم ندویؒ کا انتقال کراچی میں ہوا۔ آپؒکراچی ائرپورٹ کے سامنے نئے قبرستان میں مدفون ہیں۔
ان کی ہمہ جہت شخصیت پر شاد عظیم آبادی مرحوم کے شعر کا یہ مصرع حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
’’ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘