غرض یہ کہ بگڑا ہے آوے کا آوا

جدہ، سعودی عرب سے شہاب بھائی لکھتے ہیں کہ ’’حاطب بھائی! اُردو کا ایک محاورہ ہے ’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘ جوعموماً اُس موقع پر بولا جاتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ سبھی لوگ خراب اور بدعنوان ہیں۔ تو معلوم یہ کرنا ہے کہ اس محاورے میں ’آوا‘ آخر کیا چیز ہے؟ اپنی روزمرہ زندگی میں تو الگ سے کبھی یہ لفظ ’آوا‘ سننے میں نہیں آتا‘‘۔

شہاب بھائی! ٹھیک فرماوا۔ الگ سے’آوا‘ کبھی سننے میں نا آوا۔ مگرصاحِب! شکر کیجیے۔ ورنہ کیا خبر یہ بگڑا ہوا ’آوا‘اور کیا کچھ نہ بگاڑ جاتا۔ روزمرہ زندگی میں تو جب بھی ’آوا‘ یا ‘آوے‘ کا ذکر آوا، اِی لوگ ہم کواِہی بتاوا کہ کم بخت ایک دم بگڑا ہوا ہے۔ شایدکبھی کسی نے ٹھیک کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔

اصل میں یہ فارسی لفظ ہے اور اس کا اصل املا ’آوہ‘ ہے۔ ’آوا‘ نہیں۔ فارسی میں اس املا کے ساتھ ’آوا‘ لکھا جائے گا تو یہ ’آواز‘ کا مخفف بن جائے گا۔ مثلاً ایک اصطلاح ہے: ’آوا شناسی‘۔ یہ صوتیات کا علم ہے۔ اِسے انگریزی میں ‘Phonetics’ کہتے ہیں اور عربی میں ’علم الاصوات‘۔ آواز کو تحریر میں منتقل کرنے کے عمل کے لیے ہمارے ماہرین کو ‘Transcribe’ کے سوا کوئی لفظ نہیں سُوجھتا۔ مگر فارسی میں یہ عمل ’آوا نویسی‘ کہلاتا ہے۔ اُردو زبان کے پنچ اور سرپنچ اگر پسند فرمائیں تو اُردو میں “Transcription”کے لیے ’’آواز نویسی‘‘کی اصطلاح بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ مسلسل استعمال سے یہ عام فہم اصطلاح نہ صرف رائج ہوجائے گی بلکہ مقبول بھی۔ مگر ’آوا نویسی‘ بھی کیا ہی دل کش لفظ ہے، چاہے کام دل کش ہو یا نہ ہو۔ایک زمانے میں ہمارے بھائی کلیمؔ چغتائی بھی اپنے دونوں کانوں سے بڑے بڑے ’کھوپے‘ باندھے، بیٹھے ’آوا نویسی‘ کرتے رہتے تھے۔ یہی کرتے کرتے ’’آوارہ گردِ عالمِ ہُو ہوگئے تھے وہ‘‘۔ دونوں کان ’کر‘ ہوتے ہوتے بچے۔ بالآخر انھوں نے یہ کہتے ہوئے وہ نوکری ہی چھوڑ دی کہ…’کان بچے سو لاکھوں پائے‘۔

’آوہ‘ کے لفظی معنی تو گنبد کے ہیں۔ مگر اس سے مراد وہ بھٹی ہے جس میں کمھار کچے برتن پکاتے ہیں۔ مٹی کے کچے برتن پکانے کے لیے بھٹی میں رکھنے کے عمل کو ’آوہ چڑھانا‘ کہا جاتا ہے۔ پک جانے کے بعد جب یہ برتن نکالے جاتے ہیں تو یہ عمل ’آوہ اُتارنا‘ ہوجاتا ہے۔ اینٹیں پکانے کا بَھٹّا بھی ’آوہ‘ کہلاتا ہے۔ مولانا ظفرؔ علی خان بھی (غالباً اپنے کسی کانگریسی ہمسائے کو) یوں للکارا کرتے تھے:

بہت سی جمع کر لو گھر میں اینٹیں
چڑھا رکھا ہے میں نے بھی اِک آوہ

مٹی کے چولھوں کے مہکتے میٹھے، مستانے اور سہانے زمانے میں چولھے کے سامنے رکھی ہانڈی کو گرم رکھنے کے لیے عارضی طور پر آگ اور راکھ سے جو گھیرا سا بنا دیا جاتا تھا، اُس گھیرے کو بھی ’آوہ‘ کہتے تھے۔ مگر اب یہ سب گھیرے ٹوٹ گئے ہیں۔ بناؤ کے نام پر بنی ہر چیز میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ قدیم چولھوں کو بگاڑ کر جو جدید چولھے بنائے گئے ہیں، شاید انھیں پر پکنے کی وجہ سے ’آوہ‘ بھی بگڑ کر ’آوا‘ ہوگیا ہو۔ پھر آوے کا ہی آوا بگڑ گیا۔ صاحب! ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ بگڑتے بگڑتے یہ ’آوا‘ اتنا بگڑا کہ انگریزی کا ‘Oven’ جا بنا۔ آوا کو اوون بناکر اسے ہمارے ہر گھر میں لاکر دھر دیا گیا ہے۔ یہ جدید برقی ’آوا‘ وہ ’آوا‘ ہے جو ہماری بگڑی نسل کو خوب بناتا ہے۔ ننھی ننھی برقی لہروں پر کئی دنوں کا باسی کھانا گرم کرکے مزید کئی دنوں تک انھیں رج رج کے کھلاتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ ’آوا‘ بھی بگڑ جاتا ہے اور اچھا خاصا خرچہ کروا دیتا ہے۔ آوے کا ایک بگاڑ، محاورے کی زبان میں بھی سامنے آیا۔ ’’آوے میں ناند کھو گئی‘‘۔ بہت دلچسپ اور وطنِ عزیز کے حسبِ حال محاورہ ہے۔ صاحب! چھوٹے موٹے کوزے یا آب خورے تو ’آوے‘ کی تپتی اور دہکتی ہوئی گرماگرم گہرائیوں میں گم ہوسکتے ہیں۔ مگر ناند بڑی چیز ہے۔ بہت مشکل ہے اتنی بڑی شے کا اس چھوٹی سی بھٹی میںکھو جانا یا گُم ہوجانا۔ پھر بھی لوگ باگ ہاتھ کی صفائی کا یہ کمال کر دکھاتے ہیں۔ لہٰذا یہ محاورہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی کھلی خیانت کرکے اس کی بودی تاویلیں پیش کرنے لگے اور اصرار کرنے لگے کہ بدعنوانی کا الزام اُس کے سر سے ہٹادیا جائے اور مان لیا جائے کہ ’آوے میں ناند کھو گئی‘۔

حاصلِ کلام یہ کہ کسی گھر میں، کسی صحبت میں، کسی گروہ میں، کسی جتھے میں، بلکہ پورے ملک میں اگر بہت سے لوگ کسی بُرائی میں یکساں طور پر مبتلا ہوجائیں تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘۔ یعنی پوری بھٹی ہی کا بَھٹّا بیٹھ گیا ہے اور سانچا ٹیڑھا ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس ’آوے‘ سے پک کر نکلنے والے جتنے برتن ہیں سب کے سب خراب اور ٹیڑھے میڑھے ہو ہو کر نکلنے لگے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بقول حضرتِ نسیم امروہوی:

نہیں کرتا کوئی مرض کا مداوا
غرض یہ کہ بگڑا ہے آوے کا آوا

بفر زون، کراچی سے عزیزہ راحت عائشہ ملتجی ہیںکہ’’مجھے دو ٹوک کا صحیح تلفظ بتا دیں۔ ٹوک کا تلفظ بھوک ولا ہوگا یا روک والا؟ میں نے روک والاتلفظ سنا بھی ہے اور بولتی بھی وہی ہوں۔ مگر کل مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک بیان سنا۔اُس میں اُنھوں نے ٹوک کا تلفظ بھوک والا استعمال کیا تو میں چونکی۔اندازہ تو ہوگیا تھا کہ یقینا میں ہی غلط ہوں گی، لیکن آپ سے تصحیح کروانا اس لیے ضروری سمجھا کہ سو فیصد درست ہوجائے‘‘۔

بی بی! آپ کو بالکل صحیح اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ کا تلفظ غلط ہے۔ ’مفتیانِ کرام کو دُنیا شمس و ماہ و نجوم کہتی ہے‘۔ مفتی صاحب کے منہ سے صحیح تلفظ سننے کے بعد آخر آپ کو ہم سے فتویٰ لینے کی کیا مار آئی ہوئی تھی؟ محترم مفتی تقی عثمانی صاحب مستند اہلِ زبان ہیں۔ اُن کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ہم سب کے لیے سند ہے۔

’دو ٹُوک‘ بات کرنے کا مطلب ہے: بات دو ٹکڑے کردینا۔ صحیح اور غلط کو جدا جدا کر دکھانا۔صاف صاف اور کھری کھری بات کہنا۔ وہ بات کہنا جس میں کوئی لگی لپٹی نہ ہو، واضح اور فیصلہ کُن بات ہو۔ صاف انکار کردینے کے معنوں میں بھی ’دو ٹُوک کہہ دینا‘ بولا جاتا ہے۔ دو ٹُوک میں ٹُوک دراصل’ ٹکڑے‘ کا ایک ٹکڑا ہے۔ قدرؔ کے اِس شعر کے پہلے مصرعے میں دوٹکڑے کی جگہ دو ٹُوک پڑھ لیجے، کوئی حرج نہیں:

دو ٹکڑے بات کہتی ہے کس منصفی کے ساتھ
رستم بھی ہو تو کہتی ہے منہ پر کھری کھری
دوستی و دشمنی، تعلق و لاتعلقی اور قطع محبت یا رشتہ توڑلینے کے معنوں میں’دو ٹُوک‘ کے استعمال کی مثال داغؔ کے اس شعر میں ملتی ہے:
کل کچھ طبیعت اپنی جو مشکوک ہو گئی
آج اُن سے دو ہی باتوں میں دو ٹُوک ہو گئی
اس شعر میں بھی دو ٹُوک کا تلفظ مشکُوک کے وزن پر کیا گیا ہے۔دو ٹوک کے’ٹوک‘ کا غلط تلفظ عام ہوجانے کا باعث ہمارے خیال میں کثرت سے ’روک ٹوک‘ کا رواج ہے۔ روک ٹوک میں جو ٹوک ہے اس کاتلفظ روک ہی کے وزن پر کیا جاتا ہے۔ ’ٹوکنا‘ در اصل مزاحمت کرنا، ممانعت کرنا اور تعرض کرنا ہے۔ نظر لگانے کو بھی ’ٹوکنا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر اب تو یہ ہماری قومی عادت سی بن گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ’دو ٹُوک‘ بات کرنا چاہے تو سبھی روک ٹوک کر نے کو اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔غرض یہ کہ بگڑا ہے آوے کا آوا۔