کرپشن صرف حکومت میں ہی نہیں ہوتی، غیر سرکاری تنظیموں اور این جی اوز کے نام پر عالمی امدادی اداروں سے پروجیکٹ لے کر ہضم کرنے والوں کا احتساب بھی ناگزیر ہے
آزادکشمیر احتساب بیورو کے چیئرمین سردار نعیم شیراز نے ادارے کی سالانہ کارکردگی رپورٹ صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری کو پیش کی۔ اس موقع پر صدر آزاد کشمیر نے احتساب بیورو کو مزید فعال اور احتساب کے نظام کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
آزادکشمیر میں احتساب کے نظام کی جس گاڑی کے ٹائر ماضی کی حکومتوں نے پنکچر کرکے چھوڑے تھے، پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی وہ گاڑی سرِراہ جوں کی توں کھڑی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے احتسابی عمل کو نشانِ عبرت اس لیے بنایا تھا کہ میثاقِ جمہوریت کے بعد کوہالہ پار ان کی مادر تنظیموں کا خیال تھا کہ احتساب ایک غیر ضروری عمل ہے اور سیاست دانوں کا احتساب عوام کرتے ہیں، اور پانچ سال بعد جب انہیں ووٹ کا حق ملتا ہے تو یہی احتساب ہوتا ہے۔ یہ ایک نرالی اور غیر جمہوری سوچ اور منطق ہے۔ اس کے برعکس موجودہ حکمران جماعت کی مادر تنظیم کا سارا ڈھانچہ اور سوچ ہی احتساب کے نعرے کے گرد گھومتی ہے۔ ایسے دور میں احتساب کی گاڑی کا یوں انجر پنجر ہونا لمحہ فکریہ ہے۔
آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کو کئی ماہ ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ایک اہم انتخابی سلوگن احتساب بھی تھا، مگر تاحال اس سمت میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اس کی کوئی معقول وجہ بھی سامنے نہیں آئی۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مل کر اسمبلی میں ایسی قانون سازی کی جس سے احتساب کا نظام غیر موثر اور احتساب بیورو کا وجود سوالیہ نشان بن کر رہ گیا، حالانکہ احتساب کا موثر نظام 1990ء کی دہائی میں آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں ہی اپنایا گیا تھا۔ اُس وقت بیرسٹر سلطان محمود ہی آزادکشمیر کے وزیراعظم تھے۔ اُس وقت احتساب بیورو اس قدر فعال تھا کہ کئی وزراء کو بدعنوانی کے ثبوت ملنے پر دفاتر سے گرفتار کرکے احتساب عدالتوں میں پیش کیا گیا تھا۔ کئی ایک کی خلاصی پلی بارگین کے نتیجے میں ممکن ہوئی تھی۔ ترقیاتی اداروں کے سربراہ اور بیوروکریٹس بھی احتساب کے شکنجے سے بچنے نہیں پاتے تھے۔ بعد میں حالات بدلتے چلے گئے اور احتساب کے نظام کی یہ فعالیت سیاسی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ ایک مرحلے پر احتساب کے قانون میں ایسی ترامیم کردی گئیں جس سے یہ نظام بے روح ڈھانچہ بن کر رہ گیا، جس میں سب سے اہم نکتہ احتساب بیورو کا ازخود کارروائی کا خاتمہ اور بارِ ثبوت شکایت کنندہ پر ڈالنا تھا۔ اس طرح احتساب کے قانون کی نوعیت تبدیل اور افادیت ختم ہوکر رہ گئی۔
اب آزادکشمیر میں احتساب بیورو کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے ایک مسودئہ ٔترمیم تیار ہے جس کی منظوری کے بعد احتساب کے نظام کے تنِ مُردہ میں جان پڑنے کا معمولی سا امکان ہے۔ یہ مسودہ اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ اسے ایک کند تلوار کی طرح سروں پر لٹکا کر خوف زدہ رکھنے کی حکمت عملی سے کام چلایا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی اسمبلی میں بھرپور قوت رکھنے کے باوجود ان ترامیم کو منظورکرانے سے گریزاں ہے تو اس کا مطلب ہے اُس کی اپنی صفوں میں کچھ لوگوں کو احتساب کا فعال نظام قبول نہیں، جس پر ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کی بات صادق آتی ہے۔
آزادکشمیر میں گزشتہ دہائیوں سے جس طرح بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ یہاں حکومتی اور غیر حکومتی شعبوں میں وسائل اور اختیارات کی لوٹ سیل لگی رہی جس نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہی ہلا کر رکھ دیا۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے خطے کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ وہ رقم جس سے یہ خطہ پیرس اور جاپان بن سکتا تھا ذاتی محلات، دبئی اور انگلینڈ میں کاروباری وسعتوں کے لیے استعمال ہوئی۔ ترقیاتی اسکیمیں، غیر ملکی امداد سے چلنے والے پروجیکٹس، محکمانہ فنڈز ہر شے کرپشن کی نذر ہوکر رہ گئی۔ اس عرصے میں احتساب سے متعلق تمام ادارے عضوِ معطل بن کر رہ گئے۔ 8 اکتوبر2005ء کے تباہ کن زلزلے نے خطے کو قدیم تہذیب اور قیمتی انسانوں سے ہی محروم نہیں کیا بلکہ اس ملبے تلے ہماری بہت سی اخلاقی روایات بھی دب گئیں۔ تعمیر نو، متاثرین اور بحالی کے کاموں کے لیے آنے والے غیر ملکی فنڈز کے ساتھ جو ہوا، خدا کی پناہ۔ لوکل گورنمنٹ، کشمیر کونسل کی اسکیموں پر زمین کے بجائے مریخ پر عمل درآمد ہوتا رہا۔ پن بجلی کے منصوبوں، معدنیات، جنگلات، تعلیم، صحت.. کہاں کہاں کرپشن کی داستانیں رقم نہیں ہوئیں! معاشرے کی اس کرپشن کے لیے عملِ جراحی کی ضرورت ہے۔ یہ کام شلجموں سے مٹی جھاڑ کر نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کے بدعنوان عناصر مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف سمیت کسی بھی چھتری تلے بیٹھے ہوں یا وہ بیوروکریٹس کی صورت میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہوں ان کی جانچ کرنا اور ماضی کے معاملات کی چھان بین کرنا ناگزیر ہے۔
کرپشن صرف حکومت میں ہی نہیں ہوتی، غیر سرکاری تنظیموں اور این جی اوز کے نام پر عالمی امدادی اداروں سے پروجیکٹ لے کر ہضم کرنے والوں کا احتساب بھی ناگزیر ہے۔جن حساس اداروں کے پاس ایسی فائلیں موجود ہیں وہ بھی مصلحت کا شکار ہو کر انہیں درازوں میں سنبھال کررکھنے کے بجائے احتسابی اور تفتیشی اداروں کو فراہم کریں تاکہ آزادکشمیر میں ہمہ جہت اور ہمہ گیر احتساب کا آغاز ہوسکے۔حکومت بظاہر احتساب کا بھاری پتھر اُٹھانے کے لیے پُرعزم اور تیار دکھائی دیتی ہے مگر عملی طور پر احتساب ہوتا ہوا نظر نہیں آتا، بلکہ ایک سال یونہی احتساب کے ہونے کی امید پر گزر گیا مگر ابھی تک مطلوبہ قانون سازی بھی نہیں کی جا سکی،جس پر صدر آزادکشمیر کو احتساب کے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت کا احساس دلانا پڑا۔