آئینی اداروں کا ٹکرا ئو

بالادستی کی جنگ ملک میں تمام قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نئے میثاق کی متقاضی ہے

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر پنجاب اسمبلی کے انتخابات14 مئی کو کرانے کا حکم جاری کردیا ہے اور انتخابی شیڈول بھی دے دیا ہے۔ تحریک انصاف نے فیصلہ تسلیم کرلیا ہے، اس کے حامی وکلا اور سیاسی گروہ فیصلے پر خوش ہیں لیکن وفاقی کابینہ نے عدالت کا فیصلہ ناقابلِ عمل قرار دے دیا ہے، عدالتی فیصلے کے بعد وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا جس میں فیصلے پر وزیر قانون نے بریفنگ دی، جس کے بعد کابینہ نے فیصلہ مسترد کردیا۔ یوں اب دو آئینی ادارے عدلیہ اور مقننہ ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ آئین تمام اداروں کو مربوط کرتا ہے لیکن سیاسی رویّے اس ربط میں رکاوٹ بنے رہے ہیں، اور یہی رویّے بالادستی کی جنگ بن چکے ہیں، ہر آئینی ادارہ خود کو دوسرے سے بالاتر سمجھتا ہے۔ یہ جنگ دراصل اقتدار میں اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کی جنگ ہے۔ بالادستی کی جنگ ملک میں تمام قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نئے میثاق کی متقاضی ہے کہ کوئی ایسا مستحکم فیصلہ کرلیا جائے جس سے ملک میں قانون اورآئین کی بالادستی مستحکم ہو، اور سیاسی شخصیات یا سیاسی جماعتوں کے مفادات پیچھے رہ جائیں۔ بلاشبہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انتخابات ملتوی کیے جانے پر اپنے انتظامی اور آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ازخود نوٹس لیا، جس کے لیے پہلے بڑا بینچ بنایا، اس بینچ کے چار فاضل جج بینچ سے الگ ہوئے تو آخر میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے حتمی فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا، اس نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مؤقف پیش کیا تھا کہ اس نے رول 58 کے تحت یہ فیصلہ کیا ہے کیونکہ انتخابات کے لیے سیکورٹی کے انتظامات اور فنڈز دستیاب نہیں۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ایک ہفتے تک جاری رہی، اس دوران سنسنی خیزی بھی اپنے عروج پر رہی۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تحریک انصاف خوش ہے لیکن حکومتی اتحاد اب اپنی منصوبہ بندی کرے گا۔ الیکشن کی تاریخ دیے جانے کے باوجود بہت سے سوالات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات کی وضاحت نہیںکی کہ سیکورٹی کی فراہمی کے لیے اس کی ہدایات کیا ہوں گی؟ جہاں تک فنڈز کی بات ہے فیصلے سے تین روز قبل کانسالیڈیٹڈ فنڈز کی تفصیلات اکٹھی کی گئی تھیں کہ اس میں سے رقم لے لی جائے، لیکن یہ ایک ایسا فنڈ ہے جس میں رقم جمع کراتے اور نکالتے ہوئے باقاعدہ وجوہات دینا ہوتی ہیں کہ رقم کہاں سے آرہی ہے اور کہاں خرچ کی جائے گی۔ فنڈز کی فراہمی ابہام کی ایک نئی شکل ہے، یہ مرحلہ کیسے طے ہوگا؟ اب فیصلے کے اثرات کیا ہوں گے یا ہوسکتے ہیں؟ مسلم لیگ(ن) اب بیانیہ بنائے گی کہ ہمیں ایک خاص سیاسی فریق کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہاتھ پائوں باندھ کر بے بس کردیا گیا ہے، منصفانہ انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ ترازو کے پلڑے برابر ہوں۔ نوازشریف نے کہا تھا کہ جج قبول نہیں تو فیصلہ کیسے قبول ہوسکتا ہے؟ لیکن مسلم لیگ(ن) کو بیانیے کی تشکیل کے لیے اتحادی جماعتوں خصوصاً پیپلزپارٹی سے کس قدر حمایت ملے گی اس سوال کا جواب واضح نہیںہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کوٹف ٹائم دینے کی حامی ہے، لیکن اسے دوسری جانب کھائی بھی نظر آرہی ہے۔

ازخود نوٹس کیس کی سماعت جس طرح تلخی کے ماحول میں مکمل ہوئی ہے، ملکی سیاست پر اس کے گہرے اثرات پڑنے کا امکان موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے فیصلے پر کہاکہ اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے۔ یہ بھی ایک نئی تقسیم کی جانب اشارہ ہے۔ اس پورے ایک ہفتے میں حکومت کا یہی مؤقف رہاکہ پہلے دو تین یا تین چار کے فیصلے کی وضاحت ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ اس پر اپنی وضاحت دے کر کیس کی سماعت آگے بڑھاتی رہی۔ حکومت جوابی وار کرتے ہوئے پارلمینٹ سے ازخود نوٹس قانون میں تبدیلی لے آئی اور ازخود نوٹس کارروائی کے لیے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کردیے، اس کی روشنی میں متعدد جج صاحبان نے ازخود نوٹس پرکارروائی روک دی تو اگلے لمحے رجسٹرار نے ایک سرکلر کے ذریعے ججوں کے فیصلے پر لکیر پھیر دی، ردعمل میں رجسٹرار کی تبدیلی کا مطالبہ ہوا تووفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ رجسٹرار عشرت علی کی خدمات واپس لینے کا اعلان کرکے انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج سیکرٹری کابینہ سیکرٹریٹ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو خط میں لکھا تھا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار کو فوری طور پر واپس بلائیں۔کابینہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ صدر عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر دستخط کریں، لیکن صدر یہ معاملہ قانونی رائے لینے کے لیے سپریم کورٹ بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری دفاع کو طلب کیا کہ عدالت کی معاونت کریں اور الیکشن کے لیے فنڈز کی فراہمی اور سیکورٹی ایشوز پر رپورٹ پیش کریں۔ سیکرٹری دفاع جنرل(ر) حمود عدالت میں پیش ہوئے لیکن انہیں چیف جسٹس نے کھلی عدالت کے بجائے چیمبر میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اب فیصلہ آجانے کے بعد بھی ملک میں سیاسی بحران ٹلتا ہوا نظر نہیں آرہا بلکہ انتخابات سے متعلق سوال باقی رہے گا کہ انتخابات مئی میں ہوں یا نہیں۔ پنجاب اسمبلی کی حدتو عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے، کے پی کے انتخابات کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، اور ازخود نوٹس پر پارلیمنٹ نے جو قانون سازی کی ہے اس کی اپنی اہمیت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد یہ معاملہ اب صدر مملکت کے پاس ہے۔ قوی امکان ہے کہ صدر ازخود نوٹس کے قانون میں ترمیم پر سپریم کورٹ سے اس کی رائے معلوم کرنے کے لیے صدارتی ریفرنس بھیج دیں اور یوں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صدر علوی دستخط کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’عدالت کا پیغام پہنچائیں کہ ابھی بھی وقت ہے معاملات کو سیاسی طور پر حل کریں، ایسا نہ ہو کہ کوئی دوسرا غیر ضروری ایشو آجائے، یہ اپنے ججز خود چننا چاہتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات کے لیے ججز خود منتخب کیے ہوں، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، حکومت نے کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، رکاوٹیں دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے۔‘‘

یہ ریمارکس فیصلہ ہی سمجھے جاسکتے ہیں۔ جواب میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے گزارش کی کہ’’جسٹس فائز کے فیصلے کو سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے، انتخابات کا معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

چیف جسٹس کے ریمارکس اور اٹارنی جنرل کے جواب پر تجزیہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا پچھلا حکم اچھا نہیں بلکہ غلط تھا، مگر شاید اب ایک کلہاڑی ہے جسے تکنیکی انداز میں استعمال کرکے عدلیہ کی جانب سے اپنے پچھلے حکم تبدیل کرنے کی کوشش اور نیا حکم جاری کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ اب اس پورے معاملے میں الیکشن کمیشن ایک فریق ہے، جس نے سیکشن 58 کا سہارا لے کر پنجاب میں انتخابات ملتوی کیے اور 8 اکتوبر کی نئی تاریخ دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے سے قبل فوج، عدلیہ، محکمہ تعلیم، اور دیگر اُن تمام متعلقہ اداروں کو طلب کیا، ان سب نے انتخابات کے لیے افرادی قوت دینے سے انکار کیا تھا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے بھی جواب دیا تھا کہ عدلیہ بھی انتخابات کے لیے ریٹرننگ آفیسرز اور الیکشن ٹریبونل کے لیے افرادی قوت نہیں دے گی۔ عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل بھی ’’تفریحی‘‘ قرار دیے گئے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد میں لمحہ بہ لمحہ صورتِ حال تبدیل ہوتی چلی گئی، دو آئینی ادارے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظر آئے،مقدمے کی سماعت کے دوران حکومتی اتحاد کا اہم اجلاس بھی ہوا جس کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ’’وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں سابق صدرآصف علی زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹوزرداری، مریم نوازشریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور راہنمائوں نے شرکت کی۔اجلاس وڈیو لنک کے ذریعے ہوا۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کے اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید اور حمایت کا بھی اعلان کیا۔ قانون سازی سے عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ ہوگا۔ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے۔ پارلیمنٹ بالا دست ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔امید ہے کہ صدر قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویّے کے تاثر کو چیف جسٹس ختم کریں۔ اجلاس میں حکمران جماعتوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے، حکمران جماعتوں نے اعلان کیا کہ تین رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پہلے ہی تین کے مقابلے میں چار ججوں کی اکثریت سے انتخابی درخواستیں خارج کرچکا ہے، چیف جسٹس اکثریت پر اقلیتی فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں،پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کے آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3) کے تحت زیر سماعت مقدمات پر کارروائی روکنے کا کہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا دوبارہ تین رکنی بینچ میں شامل ہونا غیر منصفانہ ہے، یہ عمل سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور نظائر کی بھی صریح خلا ف ورزی ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ 4 رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔اعلامیے کے مطابق اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہئیں، یہ غیر جانب دارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے۔ایک ہی دن میں الیکشن سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا، یہ صورتِ حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی۔

یہ اعلامیہ بتاتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت کا مؤقف تسلیم نہیں کیا گیا، اسی لیے سماعت کے آخری روز اٹارنی جنرل کے سوا حکومتی اتحاد کی جماعتوں کے کسی وکیل کو دلائل کے لیے طلب نہیں کیا گیا۔ ان وکلا کو طلب نہ کیے جانے کے بعد عدالتی فیصلہ اب کوئی اوجھل نہیں بلکہ دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ حکومت کا مؤقف تسلیم کرنے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ اس فیصلے کے بعد حکومت فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گی یا ازخود نوٹس قانون میں تبدیلی بھی عدالت اڑا کر رکھ دے گی۔ لہٰذا آئندہ تین چار ہفتے سیاست کا بازار گرم رہے گا۔

یہ ہر لحاظ سے قابلِ تحسین عمل نہیں سمجھا جاسکتا کہ اس وقت ملکی سیاست دو ایسے مخالف سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہے جن کے مؤقف اور خواہشات میں بعدالمشرقین ہے۔ ایسی ہی کیفیت1970ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہوئی تھی، مگر اب انتخابات سے قبل ہی بے لچک رویّے ملک کو اپنے حصار میں لیے بیٹھے ہیں۔