مقبوضہ کشمیر میں صحافت کا قافیہ تنگ

بھارت کا گونگا، اندھا، بہرا عدالتی نظام

مقبوضہ کشمیر کی صحافت کسی دور میں جرات اور حق گوئی کا استعارہ ہوتی تھی۔ بدترین حالات کے باوجود اہلِ صحافت اپنی بات کہنے کا کوئی انداز اپناکر اپنا مافی الضمیر دنیا تک پہنچاتے تھے۔ کئی کارٹونسٹ آڑھی ترچھی لکیروں سے اپنی بات صفائی اور خوبصورتی کے ساتھ دنیا تک پہنچانے کے لیے مشہور رہے ہیں۔ صحافت کے اس سفر میں کئی صحافی اپنی جان بھی گنوا بیٹھے، اور کئی زخمی ہوکر قلم کی حرمت کا علَم بلند رکھنے میں کامیاب رہے۔ آج بھی کشمیر کے بہت سے اخبار نویس جیلوں میں مقید ہیں اور ان کا جرم حق اور سچ کا اظہار ہے۔ کشمیر میں صحافت کا قافیہ تنگ کرنے کا عمل بدستور جاری ہے۔ صحافیوں کو سچ بات کہنے سے روکنے اور سچ بولنے اور لکھنے کی سزا دینے کا آسان طریقہ یہ رہ گیا ہے کہ انہیں ممنوعہ فنڈنگ کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد وہ صحافی ہو یا معاشرے کا کوئی بھی دوسرا فرد.. شکنجے میں پھنسنے سے بچ نہیں پاتا۔ اس سلسلے میں تازہ واردات کشمیر کے معروف نوجوان صحافی عرفان معراج کی گرفتاری ہے۔

عرفان معراج کشمیر کے ایک فعال صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ دو سال قبل گرفتار کیے جانے والے کشمیر میں انسانی حقوق کے علَم بردار خرم پرویز کے ساتھی ہیں۔ خرم پرویز جموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی اداروں میں رپورٹ کرتے تھے اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں خرم پرویز کو ایک مقامی آواز اور چشم دید گواہ سمجھ کر خاصی اہمیت دیتی تھیں۔ یہ وہ بات تھی جس سے بھارت نالاں تھا اور وہ کشمیر میں اس آزاد سوچ اور آواز کو خاموش کرنا چاہتا تھا۔ آخرکار خرم پرویز کو گرفتار کرکے اس آواز کو خاموش کردیا گیا۔ خرم پرویز اب دہلی کی جیل میں انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات کے تحت بند ہیں۔ اب ان کے ایک ساتھی کی گرفتاری کو اسی پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ترجمان نے کہا ہے کہ اکتوبر میں درج کیے جانے والے این جی او ملیٹنسی فنڈنگ کیس میں وسیع بنیادوں پر تحقیقات کے بعد این آئی اے نے عرفان معراج کو گرفتار کیا ہے۔ عرفان معراج خرم پرویز کا قریبی ساتھی تھا جس کی تنظیم کشمیر میں عسکریت کی فنڈنگ کررہی تھی اور انسانی حقوق کی آڑ میں علیحدگی پسند ایجنڈے کی تشہیر کررہی تھی۔

کشمیر کے صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن پر یہ فردِجرم نئی نہیں۔ یہ الزامات کا وہ لگا بندھا انداز ہے جو کسی بھی ناپسندیدہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عسکریت کی حمایت اور علیحدگی پسندی کی تشہیر ایک ایسا الزام ہے جس کا دفاع کرنے کا کسی شخص کو حق حاصل ہے نہ اس دفاع کا کوئی فائدہ.. کیونکہ کشمیر کے حوالے سے بھارت اور مقبوضہ کشمیر کا عدالتی نظام گونگا اور بہرہ ہوچکا ہے اور مکمل طور پر سیاسی اور فوجی دبائو کی زد میں ہے۔ اس لیے ایسے الزامات اور مقدمات میں فرد کو بہت کم ہی انصاف ملتا ہے۔ برسوں سے مقبوضہ کشمیر کے کئی صحافی جن میں ”کشمیر والا“ نامی ویب سائٹ کے ایڈیٹر امین شاہ بھی شامل ہیں، دہشت گردی کی حمایت اور تشہیر کے الزام میں قید کاٹ رہے ہیں۔

کشمیری صحافت اس وقت شدید بندشوں اور رکاوٹوں کا سامنا کررہی ہے۔ سیدھے اور آسان لفظوں میں کہا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحافت کو بے روح کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر کے اندرونی حالات سے دنیا کو بے خبر رکھنا چاہتا ہے۔ سول سوسائٹی تتربتر کردی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی آخری آواز کو خرم پرویز کی صورت میں دبا دیا گیا ہے۔ اب عتاب کا یہ سلسلہ ان کے ساتھیوں تک دراز ہوگیا ہے۔ کشمیر کی صحافت اب موسم کا حال اور کھیلوں کے مقابلوں کی رپورٹنگ تک محدود ہوگئی ہے۔ یہ وہ آئیڈیل ماحول ہے جس کی تمنا بھارت میں کی جاتی رہی۔ قبرستان جیسی خاموشی کا شکار کشمیر دنیا کی توجہ کا طلب گار ہے۔ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی عرفان معراج کی گرفتاری پر بھرپور ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرفان معراج جیسے صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی پر گرفتار کیا جاتا ہے اور سچ بولنے پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ محبوبہ مفتی نے عملی طور پر عرفان معراج کی بے گناہی کا مقدمہ لڑا ہے، کیونکہ یہ اب ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ کشمیر کے ہر گھر کی داستان ہے۔

کشمیر میں اس وقت بھارتی فوج کا ایک کریک ڈائون جاری ہے۔ یہ کریک ڈائون مساجد، مدرسوں، ٹرسٹس اور سماجی تنظیموں کے خلاف چل رہا ہے، جس میں ان اداروں کو دہشت گردی کی حمایت کے نام پر یا تو محدود کیا جارہا ہے، یا پھر ان کی جائدادیں ضبط کی جارہی ہیں۔ جائدادیں ضبط کرنا بھی ان دنوں بھارت کا عام ہتھیار ہے جس کے تحت کشمیریوں کی زمینیں اور جائدادیں سرکاری کنٹرول میں لی جارہی ہیں۔ ان جائدادوں کا آگے کیا استعمال کیا جاتا ہے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان جائدادوں کا استعمال آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے کیا جانا ہے۔