زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا:سندھ کے سرکاری اداروں میں ناقابل اصلاح بدعنوانی

ایک ڈاکٹر کی خودسوزی کی ناکام کوشش

کیسا ظلم ہے، کتنی ستم ظریفی ہے اور کیسی اندھیر نگری ہے کہ وطنِ عزیز میں اب جائز کام کی تکمیل اور اپنے جائز حق کے حصول کے لیے بھی ایک عام فرد کو بے حد دشواری اور مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر اس کی راہ میں رکاوٹوں اور مشکلات کے ایسے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں جنہیں سر کرنا اس کے لیے کارِ دارد اور ایک طرح سے جان کا عذاب بن جاتا ہے۔ اس پر مستزاد کوئی ادارہ یا پلیٹ فارم ایسا نہیں ہے جہاں وہ اپنی دادرسی کے لیے رجوع کرسکے اور اپنے حق یا انصاف کے حصول کی امید باندھ سکے۔ مطلب یہ ہے کہ مایوسی سی مایوسی ہے اور ناامیدی سی ناامیدی ہے۔ ہر دور میں مفاد پرست حکمران طبقے، نوکر شاہی اور اقتدار کی حریص پی پی پی، پی ٹی آئی، پی ایم ایل این نے کبھی اپنے عہدِ حکومت میں عوامی مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے اب حالات مزید بدتر سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ خاص طور پر وطنِ عزیز کے دوسرے بڑے صوبے، صوبہ سندھ میں تو صحیح معنوں میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایک عام فرد تو بے حد پریشان اور بدحال ہے ہی، اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران بھی حالات کے ہاتھوں مضطرب اور بڑھتی محکمانہ کرپشن کے ہاتھوں نیم جان اور نڈھال ہوچکے ہیں۔ خود انہیں اپنے ہی بڑے سرکاری عہدے داروں اور اعلیٰ ترین افسران کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر جائز کام کے کرانے یا تکمیل کی خاطر رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ پہلے تو عام افراد کی جانب سے حالات سے دل برداشتہ ہونے کی وجہ سے عالمِ مایوسی میں اقدامِ خودکشی کی خبریں آیا کرتی تھیں جو ایک طرح سے زندگی کا معمول بن چکی تھیں، لیکن اب تو مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین کی جانب سے بھی اپنے ہاں کے پریس کلبوں کے سامنے تنخواہ بند ہوجانے، بلاسبب اپنے افسران کی طرف سے ستائے جانے، اور رشوت طلبی جیسے الزامات پر مبنی معاملات کی بنا پر خود کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے اور ناکام خودسوزی کے واقعات کی خبریں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے خودسوزی کرنے کی کوشش کے بیشتر اقدامات اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں کہ آس پاس سے گزرنے والے افراد یا پھر پولیس اہلکار بروقت لگی آگ کو بجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، یا خودسوزی کی کوشش کرنے والے سے پیٹرول کی بوتل اور ماچس کی ڈبیا زبردستی چھیننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ورنہ ہر روز ہی کہیں نہ کہیں سے انسانی جان کے اتلاف کی المناک خبریں ضرور ہی سامنے آئیں۔ یہ صورتِ حال صوبہ سندھ کے سرکاری اداروں میں بڑھتی ہوئی شدید کرپشن اور بدترین بدانتظامی کا منہ بولتا ایسا ثبوت ہے جسے کوئی بھی کسی صورت جھٹلا نہیں سکتا۔ صورتِ حال اتنی زیادہ بگڑ چکی ہے اور ناقابلِ اصلاح ہوگئی ہے کہ ہفتۂ رفتہ محکمۂ صحت سندھ کے گریڈ 19 کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر کو بھی خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت پڑگئی۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی تو بچ گئی ہے تاہم ان کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے، کیوں کہ زہر کے اثرات تاحال ان پر باقی ہیں اور وہ اوجھا اسپتال کراچی میں زیر علاج ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر کی خودکشی کی ناکام کوشش کا یہ واقعہ آج کل سندھی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سندھی اخبارات میں کالم لکھے جارہے ہیں اور تجزیہ و تبصرہ نگار مذکورہ واقعے کا ذمہ دار حکومت ِ سندھ، محکمہ صحت سندھ کے بدعنوان اور راشی افسران، سندھ سیکریٹریٹ میں براجمان اعلیٰ افسران اور نوکر شاہی کو قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر نے خودکشی کا ناکام قدم اٹھانے سے پہلے کامل پانچ صفحات پر محیط ایک بے حد تفصیلی خط بھی میڈیا، اعلیٰ افسران اور سارے ذمہ داران کے نام تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اُن تمام بدنما کرداروں کے نام اور عہدے بھی لکھے ہیں جنہوں نے اُن سے پہلے لاڑکانہ سے کراچی تبادلے کے لیے 10 لاکھ روپے رشوت طلب کی، کیوں کہ وہ اپنے بچوں کا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ ہونے کی وجہ سے کراچی منتقل ہونا چاہتے تھے۔ جب بڑی کوشش، سفارش اور رشوت دینے کے بعد بہ مشکل اُن کا لاڑکانہ سے کراچی تبادلہ ہوا تو انہیں شہر سے بہت دور واقع ایک اسپتال میں رکھا گیا جہاں انہیں بے حد ناسازگار حالات میں کام کرنا پڑا اور اپنے ذاتی خرچ سے ضروری سہولیات مہیا کرنا پڑیں اور اسٹاف سے محروم سرکاری اسپتال کے امور سرانجام دینے پڑے۔ ڈاکٹر موصوف کی ریٹائرمنٹ میں عرصہ ڈیڑھ برس باقی رہ گیا ہے اور وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں اس وجہ سے اور آبائی گائوں وارہ کے سیلابی پانی سے متاثر ہونے کی وجہ سے انہیں مجبوراً چار ماہ کی چھٹی لینے پر مجبور ہونا پڑا، اس کی بھی انہوں نے بھاری رشوت دی۔ جب وہ چھٹیاں گزار کر کراچی ڈیوٹی کرنے پہنچے تو انہیں محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران نے بتایا کہ کراچی میں ان کے لیے 19 ویں گریڈ کی پوسٹ خالی نہیں ہے، جس پر انہوں نے چارونا چار دوبارہ لاڑکانہ تبادلہ کرانے کی اعلیٰ افسران سے خواہش ظاہر کی تو مبینہ طور پر ان سے 5 لاکھ روپے رشوت دھڑلے سے طلب کی گئی۔

ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر کا یہ تفصیلی خط پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہم اخلاقی تباہی و بربادی کے آخری دہانے پر اور انتہا پر کھڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف محکمہ صحت سندھ نہیں بلکہ ہر سرکاری ادارے میں خواہ وہ محکمہ تعلیم ہو یا پھر کوئی اور سرکاری ادارہ… انسانی روپ میں بھڑیئے کرسیوں پر براجمان ہیں، جن کے منہ کو کرپشن کا غلیظ ترین اور مکروہ خون لگا ہوا ہے، جنہیں رشوت کی ہڈی چبائے بغیر سکون اور قرار نہیں آتا، جو اپنے ہی سرکاری اداروں کے ملازمین سے جائز کام کرانے کے لیے بھی بھاری رشوت بڑی ڈھٹائی، بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ طلب کرتے ہیں اور اپنے لیے دن رات اس طرح سے نارِ جہنم جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر تو محض ایک نام، مثال اور فردِ واحد ہے، ورنہ ہر سرکاری ملازم اسی ذہنی کیفیت اور پریشانی سے اپنے اعلیٰ افسران اور سندھ سیکریٹریٹ میں متمکن نوکر شاہی کے ہاتھوں خوار و خستہ، پریشان اور ذلیل ہوا کرتا ہے جب وہ اپنے کسی جائز کام کے سلسلے میں اُن سے رجوع یا رابطہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تفصیلی خط میں جن افسران کو مورد الزام ٹھیرایا ہے ان سب کے خلاف سخت تادیبی محکمانہ کارروائی ہونی چاہیے اور ایف آئی آر کا اندراج بھی، تاکہ رشوت خور افسران عبرت کی ایک مثال بن سکیں۔

ان کے خط میں وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کس طرح DHO ڈاکٹر مقبول میمن نے ان سے ACR,s کے عوض 20 ہزار روپے، چھٹیوں کے لیے بھی الگ سے بھاری رشوت دھڑلے کے ساتھ طلب کی۔ اس کے علاوہ سیکشن آفیسر نے کس طرح 4 ماہ کی چھٹی کے لیے کتنی رشوت مانگی اور دوبارہ جوائننگ کے لیے کتنی رشوت طلب کی گئی؟ ان کی خودکشی کی ناکام کوشش کے پسِ پردہ کون سے عوامل تھے؟ سندھ سیکریٹریٹ میں کس طرح سرِعام کرپشن ہورہی ہے؟ جائز کاموں کے لیے بھی رشوت علانیہ اور کھلے عام کس طرح سے لی جاتی ہے اور بے خوف و خطر سب رشوت خور افسران اور ملازم کس طرح جائز کاموں کے لیے آنے والے سرکاری ملازموں کو تنگ اور بلیک میل کرتے ہیں؟ خط کی یہ ساری تفصیل حکومت ِ سندھ کے ذمہ داران اور سندھ سیکریٹریٹ کے رشوت خور بدعنوان افسران اور ملازمین کو بالکل بے نقاب اور بیچ چوراہے پر عریاں کردیتی ہے۔ ڈاکٹر موصوف کے مطابق انہیں سندھ سیکریٹریٹ کے دو افسران، ایک سیکشن آفیسر آغا الطاف حسین اور دوسرے صدرالدین شاہ جو شاید ہیلتھ سیکریٹری کے پرنسپل سیکریٹری تھے، بہت زیادہ رشوت کے حصول کے لیے تنگ کیا کرتے تھے۔ مذکورہ واقعے سے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اب ہمارے ہاں کے سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کے رگ و پے میں کرپشن اس حد تک سرایت کرگئی ہے کہ ایک عام فرد بلکہ سرکاری ملازم کو بھی اپنا جائز کام کرانے یا اپنے حق کے حصول کی خاطر لاکھوں روپے دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، یا پھر وہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھائے تو اسی صورت میں پھر اس کا کام ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔

ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا کے مصداق ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر جو ہنوز زیر علاج ہیں، انہیں ستانے والے سیکشن آفیسر آغا الطاف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ایک انکوائری کمیٹی اس معاملے کی تحقیق کے لیے اسپیشل سیکریٹری صحت محمد نواز سوہو کی نگرانی میں تشکیل دے دی گئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز کو مع مکمل تنخواہ تین ماہ کی چھٹی آرام کے لیے دے دی گئی ہے جس کے بعد انہیں ان کی پسند کے مطابق پوسٹنگ دی جائے گی۔ انتظامیہ اوجھا اسپتال کو ہدایت کی گئی ہے کہ ڈاکٹر موصوف کے علاج کے سارے اخراجات حکومتِ سندھ برداشت کرے گی۔

حرفِ آخر یہ کہ ہم اس معاشرے میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں جہاں زندہ رہنے اور اپنے حق کے لیے مرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سوڈھر کا واقعہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔