’’عدل‘‘ خالق کائنات کی صفت ہے، عدل ہی کا حکم خالق نے اشرف المخلوقات کو دیا ہے، انسان کے لیے آخری اور لاریب کتاب ہدایت میں جگہ جگہ انسان کو عدل قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے سورۂ انعام میں ارشاد ہے۔ ’’اور جب بات کہو، انصاف کی کہو، خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو …‘‘ سورہ اعراف میں فرمایا گیا ہے: ’’اے محمدؐ! ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی اور انصاف کا حکم دیا ہے…‘‘ سورۂ النحل میں فرمان الٰہی ہے:۔ ’’اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور اہل قرابت کو دینے کا حکم دیتا ہے…‘‘ سورہ النساء میں ہدایت فرمائی گئی کہ: ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو…‘‘ سورۂ الحدید میں واضح کیا گیا کہ: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ تم لوگ انصاف پر قائم رہو…‘‘ انصاف میں اپنے اور پرائے دوست اور دشمن کے درمیان تمیز سے بھی دو ٹوک انداز روک دیا گیا۔ سورہ المائدہ میں حکم دیا گیا کہ:۔ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو، کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ نزدیک ہے، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو…‘‘ اسی سورۂ میں آگے جا کر پھر اسی حکم کا اعادہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ : ’’اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے…‘‘ سورۂ الممتحنہ میں بھی یہی ارشاد ہے کہ ’’دشمنوںسے بھی نیکی اور انصاف کا برتائو کیا جائے…‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو والدین کا حق پہنچانے، ان کا ادب و احترام کرنے اور ان کے سامنے جھک کر رہنے کی قرآن حکیم ہی میں بار بار تاکید کی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار، ان پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ اس سخت تاکید و تنبیہ کے باوجود، دو معاملات ایسے ہیں جن میں والدین کا بھی لحاظ یا طرف داری کرنے کی اجازت نہیں، ایک تو شرک اور دوسرے عدل۔ چنانچہ سورۂ النسا کی آیت 135 میں نہایت واضح الفاظ میں ہدایت فرمائی گئی کہ عدل کے معاملہ میں تمہاری اپنی ذات، تمہارے والدین اور تمہارے رشتے داروں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں… ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘‘
دنیا میں رب رحیم و کریم کی محبوب ترین ہستی حضرت محمد مصطفی ؐ جنہیں ’’عادل‘‘ کا لقب عطا فرمایا گیا ہے کا بھی یہ فرمان عالیشان کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو، میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دوں گا، عدل و انصاف کی اہمیت واضح کرتا ہے، حضرت علیؓ کا مشہور قول کہ ملک کفر کے ساتھ تو چل سکتا ہے، ظلم کے ساتھ نہیں۔ بھی عدل ہی کی تائید و تاکید کا مظہر ہے۔ برطانیہ پر حملہ کے وقت چرچل سے منسوب یہ بیان کہ اگر میرے ملک میں عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ بھی ان کے میزان عدل اور انصاف پر بھر پور اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے۔
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان اگر آج معاشی، معاشرتی، آئینی و قانونی، سیاسی و سماجی ہر شعبہ میں بحران کا شکار ہے تو اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہمارا نظام عدل عوام کو عدل فراہم کرنے میں ناکام ہے اور اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں جب یہ سوال کیا کہ کیا ہماری عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے تو وہاں موجود چار سو ججوں میں سے کسی ایک نے بھی اثبات میں ہاتھ نہیں اٹھایا… یہاں دن دیہاڑے ظلم و ستم اور قتل تک کئے جاتے ہیں مگر قانون ان کو سزا دینے سے قاصر رہتا ہے جب کہ دوسری جانب با اختیار و صاحب اقتدار لوگوں کے لیے چھٹی کے دن اور رات کے بارہ بجے بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ ہماری عدالت عظمیٰ کی پیشانی پر اگر قرآن حکیم کا یہی حکم درج ہے کہ: ’’اِعْدِلو ہوا اَقْرَب للِتقوٰی۔‘‘ مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی سالہا سال تک ذلت و خواری برداشت کرنے کے باوجود ہماری عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے جب کہ بڑے اور با اثر لوگ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں بڑے سے بڑا جرم کرنے کے باوجود یہ لوگ قانون کے شکنجے سے آزاد رہتے ہیں… کیفیت یہ بھی ہے کہ مراعات، آسائشوں، سہولتوں اور معاوضوں کے لحاظ سے ہماری عدالتوں میں براجمان منصفین دنیا کے دس اولین و بہترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں اس کے برعکس اپنے فرض منصبی کی ادائیگی یعنی انصاف کی فراہمی میں ان کا شمار دس نکمے اور نچلے ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ملک کو گونا گوں مسائل و مصائب سے نجات دلانے کے لیے لازم ہے کہ عدل و انصاف کے نظام کی اصلاح پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصفین کو انگریز کے غلام ملک کے باشندوں کے لیے تیار کردہ گنجلک قوانین کی بجائے قرآن و حدیث کے سادہ، صاف اور شفاف احکام و قوانین کے تابع فیصلے کرنے کا پابند کیا جائے، ہماری فلاح کی واحد راہ یہی ہے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)