قوم جس کا حافظہ کھویا گیا

اب سے تین برس پہلے کا قصہ ہے۔ ۲۰۲۰ء کے اوائل میں ملک کے ایک مؤقر نصاب ساز ادارے سے دعوت ملی:

’’چند دنوں کے لیے کراچی چلے آئیے اور ہمارے شہر کے تعلیمی اداروں میں اُردو پڑھانے والے اساتذہ کو اُردو پڑھائیے‘‘۔

ہم حیران رہ گئے: ’’صاحب! آپ نے عجیب فرمائش کی: ساحلِ سمندر پر چلے آئیے اور مچھلی کے جائے کو تیرنا سکھائیے‘‘۔

زوردار قہقہہ لگایا اور ’قہقہاتے‘ ہوئے فرمایا: ’’حضور! پچھلے دو تین عشروں میں ’نیٹی جیٹی‘ کے پُلوں تلے خاصا پانی گزر چکا ہے۔ اس پانی کی روانی میں املا، تلفظ، قواعد و انشا سب بَہ گئے‘‘۔

’’سب بَہ گئے؟تعجب ہے! مگر یہ کیا؟ انگریزوں کے رکھے ہوئے نام “Native Jetty”(یعنی ولایتی نہیں ’ دیسی گودی‘)کا تلفظ آپ نے ’نیٹی جیٹی‘ کر کر آج تک محفوظ رکھا ہے۔ آخر یہ کیوں نہیں بہا؟ بقول علامہ تاجورؔ نجیب آبادی:

نہ میں بدلا، نہ وہ بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبارِ انقلابِ ناتواں کر لوں؟

اچھا خیر، یہ فرمائیے کہ تیرنا سکھانے کو اب تک آپ کتنے ’مچھلی کے جائے‘ پکڑ کر لائے؟‘‘
جواب ملا: ’’اب تک مختلف تعلیمی اداروں میں اُردو پڑھانے والے پچیس اساتذہ نے اپنے ناموں کا اندراج کروا لیا ہے‘‘۔

مشورہ دیا: ’’مزید اندراج نہ کروائیے۔ اتنی تعداد کافی ہے۔ اب باقی تفصیلات بھی ارسال کردیجے‘‘۔
’برنامہ‘ موصول ہوا تو اُس کا ’سَرنامہ‘ (یعنی عنوان) لفظ ‘Programme’ سے مزین تھا اور نیچے جلی حروف میں”Three days’ Urdu Workshop” کی سرخی جمائی گئی تھی۔ تین صفحات پر تین دنوں کی تفصیلات درج تھیں۔ فوراً رابطہ کرنا پڑا:

’’سرکار! اُردو پڑھانے والے خاک اُردو پڑھیں گے؟ آپ تو آغاز ہی انگریزی پڑھانے سے کررہے ہیں۔ اگر چہ انگریزی لفظ ’پروگرام‘ اب اُردو زبان کا حصہ ہے اور اس کی جمع بھی اُردو قاعدے کے مطابق مختلف ’پروگراموں‘ میں سننے کو مل جاتی ہے۔ لیکن اُردو پڑھانے والوں کو اگر آپ اُردو سکھانا چاہتے ہیں تو انھیںاُردو متبادل بھی بتائیے۔ اُردو میں پروگرام کے لیے لائحۂ عمل، دستورِ کار دستورالعمل اور بَرنامہ جیسے الفاظ استعمال ہوتے رہے ہیں، گو کہ اب متروک ہوئے جاتے ہیں، پھر بھی اقبالؔ کا کہا مان لیجے کہ: انھیں زندہ کر دوبارہ‘‘

کہنے لگے: ’’اب آپ یقینا ’ورکشاپ‘ پر بھی اعتراض فرمائیں گے۔ گوکہ یہ لفظ بھی اُردو زبان کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستان بھر میں ہر روز کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی موضوع پر نِت نئی ’ورکشاپیں‘ منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ تو جہاں اُردو میں انگریزی کے دیگر الفاظ رائج ہیں، وہیں ’ورکشاپ‘ کو بھی رائج رہنے دیجے۔ لوگ اس سے مانوس ہوچکے ہیں۔ شاید اُردو میں ’ورکشاپ‘ کا متبادل ہے بھی نہیں‘‘۔

عرض کیا: ’’بے شک اُردو اُن الفاظ کو دل سے قبول کرتی ہے جن کا متبادل موجود نہیں مثلاً نل، مثلاً بوتل، مثلاً کیمرا وغیرہ… اور ایسے الفاظ کو بھی قبول کرلیتی ہے جن کی ادائی آسان ہو اور مفہوم بہتر ادا ہوتا ہو مثلاً ’بور ہونا‘ یا اسی سے مشتق لفظ ’بوریت‘ وغیرہ۔ تاہم ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ماہرینِ لسانیات انگریزی اصطلاحات کے اُردو متبادل فی الفور پیش کردیا کرتے تھے۔ پھر تحریر و تقریر میں مسلسل اور متواتر استعمال کرتے رہتے۔ اِس سے یہ متبادل اصطلاحات رائج بھی ہوجاتی تھیں اور مانوس بھی۔ ہمیں اپنے اکابر کا احسان مند رہنا چاہیے کہ صرف اُنھیں کی بنائی ہوئی اصطلاحات چل رہی ہیں۔ مثلاً اداریہ، نامہ نگار، نشریات، خبرنامہ، اخبار کی لوح، سرخی اور شہ سُرخی وغیرہ۔ مائیکرو اسکوپ کے لیے خُردبین، ٹیلی اسکوپ کے لیے دُوربین، اور کمپاس کے لیے قطب نما تو رائج ہوگیا، مگر ٹیلی وژن کے لیے مختصر سا سُبک لفظ ’دُور نُما‘ رائج نہ ہوسکا۔ کیوں کہ ٹیلی وژن پر ہم نے اس لفظ کو استعمال ہی نہیں کیا۔ تمسخر اُڑانے کے لیے ’آلۂ مکبرالصوت‘ کا حوالہ تو دے دیا جاتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کے لیے نہایت موزوں اور رواں لفظ ’بلندگو‘ موجود ہے جو “Loud Speaker” کا نہ صرف ٹھیک ٹھیک لفظی ترجمہ ہے بلکہ ہمیں ببانگِ دُہُل بتاتا ہے کہ یہ آلہ کس کام آتا ہے۔ شاید ہمارے اہلِ علم و دانش نے اب اُردو میں سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے‘‘۔

ہماری یہ طویل تقریر تحمل سے سنی، پھر روہانسی آواز میں کہا:’’آپ نے یہ نہیں بتایا کہ ’ورکشاپ‘ کی جگہ کون سا لفظ استعمال کریں‘‘۔

’’اَجی بتائے دیتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اُردو پڑھانے والے اُردو سیکھ جائیں تو انھیں اُردو میں سوچنا سکھائیے۔ شاید یہی سوچ سکھانے کو آپ اُنھیں مدعو کررہے ہیں۔ آپ کے مدعوئین آئیں گے، بیٹھیں گے، سنیں گے، پھر وہیں مل جُل کر اس سُنی سنائی کا عملی انطباق کریں گے۔ یعنی کرنے کا کام کرکے دکھائیں گے۔ لہٰذا ہم اسے ’’کارگاہ‘‘ کہیں گے۔ پس یہ جو آپ نے ’خطِ رومۃ الکُبریٰ‘ میں “Three days’ Urdu Workshop” لکھ رکھاہے، اس پر خطِ تنسیخ پھیریے اور خطِ نسخ میں ’’سہ روزہ کارگاہِ اُردو‘‘ لکھوا دیجے۔ پھر ’بچشمۂ خود‘ ملاحظہ فرما لیجے کہ اب بھلا معلوم ہوتا ہے یا نہیں؟ ہاں ’کارگاہ‘ کی کیا تاریخ آپ نے بتائی تھی؟ آٹھ، نو، دس؟ بات ہماری بس!‘‘

بات یہ ہے صاحبو کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہماری نسلوں کے لیے ’جاروبِ دماغ‘ ثابت ہوا ہے۔ ہماری تہذیب، ہماری وضع قطع، ہماری وضع داری، ہماری شائستگی، ہمارے ادب، ہماری میٹھی زبان اور ہماری شیریں بیانی سب پر جھاڑو پھیرگیا۔ ہمارے بچوں کے دماغ کی مکمل صفائی (Brain Washing)کر ڈالی۔ قوم سے اُس کا صدیوں کا حافظہ چھین لیا۔ ہمارے قومی اداروں کے نام بھی قومی زبان میں نہ رہے۔ حتیٰ کہ اپنے نجی اداروں یاذاتی دُکانوں کے نام بھی اب ہم اُردو میں نہیں رکھ پاتے۔ ہمارا شیر محمد شِیرفروش تک ڈرنے لگا ہے کہ اگر اپنی دُکان کا نام ‘Milk Shop’ نہیں رکھے گا تو سارا دودھ رکھے رکھے پھٹ جائے گا، قوم کا کوئی فرد اس کو منہ نہیں لگائے گا۔

قوم، جس کا حافظہ کھویا گیا، کیسے کیسے دل کش الفا ظ سے محروم ہو گئی ہے۔ اب جو کیشیئر ہے پہلے ’حساب دار‘ تھا۔ اب جو لائبریرین ہے پہلے ’کتاب دار‘ تھا۔ ‘Souvinir’ ’سوغات‘ اور ‘Application’ ’درخواست ہوا کرتی تھی۔ دوسرا مطلب ’اِطلاق‘ تھا۔ ‘Meeting’’اجلاس‘ تھی، ‘Proceeding’ کو ’کارروائی‘ کہتے تھے اور ‘Agenda’ ’کارروائی نامہ‘ کہلاتا تھا۔ کارروائی کے نتیجے میں اگر کوئی ‘Committee’ قائم کرنی پڑتی تو اسے ’مجلس‘ کا نام دیا جاتا۔’Standing Committee’ شاید آج بھی ’مجلسِ قائمہ‘ کہلاتی ہے۔ تنخواہ دار ملازمین ہر ماہ اپنی تنخواہوں سے جو ‘Provident Fund’ کٹواتے ہیں اس کو نہ جانے کیا مصیبت سمجھتے ہوں گے۔ مگر اس امانتی رقم کے لیے استعمال ہونے والی ہماری اُردو اصطلاح ’سرمایۂ کفالت‘ سب کچھ سمجھا دیتی ہے۔
عزیزو! باوقار شناخت اور پُروقار قومی تشخص کے ساتھ اقوامِ عالم کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ اپنی اعلیٰ و ارفع تہذیب اوراپنی مہذب لسانی اقدار کو بحال کرنے کی جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ ہر بھلے کام پر اعتراض کے عادی اور ہر خیرو خوبی کی مخالفت کے خوگر راستوں میں خس و خاشاک کی طرح پڑے ملیں گے۔ مگر ان سے متاثر اور مایوس ہوکر فصلِ گُل کی کاشت کا کام ترک نہیں کرنا چاہیے۔ برسات کی بوندیں برستی رہیں تو رُت بدل جاتی ہے۔ پُھول کھل جاتے ہیں۔ لہٰذا اللہ سے امیدرکھیے کہ
لے آئے گا اِک روز گُل و برگ بھی ثروتؔ
باراں کا مسلسل خس و خاشاک پہ ہونا