تعمیر کراچی کنونشن

جماعت اسلامی کے کارکنان ملتوی شدہ نشستوں کے انتخابات کے لیے بھرپور تیاری کریں،جماعت اسلامی کراچی کے زیر اہتمام کنونشن سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، حافظ نعیم الرحمٰن و دیگر کا خطاب

کراچی میں بلدیاتی انتخابات شہر کی ضرورت ہیں اور پیپلز پارٹی کسی طور پر نہیں چاہتی تھی کہ یہ انتخابات ہوں اور شہر کے میئر کا فیصلہ ہو، یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے ملتوی شدہ بلدیاتی نشستوں کے انتخابی شیڈول کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا، جس پر امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت بلدیاتی انتخابی عمل کو مکمل نہیں ہونے دینا چاہتیں، بلاول بھٹو کی سندھ حکومت کو انتخابی شیڈول سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی ہدایت 18اپریل کی تاریخ کو مزید آگے بڑھانے کی سازش ہے، سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کا یہ رویہ نہ صرف انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت بلکہ غیر جمہوری، غیر آئینی، آمرانہ اور جابرانہ ہے۔ اس سے قبل جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ 18 اپریل کو قبول کیا ہے، گو کہ یہاں بھی الیکشن کمیشن کی بدنیتی صاف ظاہر ہورہی ہے کیونکہ یہ انتخابات منگل کے بجائے دو دن قبل اتوار کو بھی کرائے جاسکتے ہیں، لیکن تاحال یہ بھی نہیں ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی غلطی درست کرلے۔ لیکن جماعت اسلامی اس انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد متحرک ہوچکی ہے، اس پس منظر میں عوامی رابطے اور انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک بڑا پروگرام ”تعمیر کراچی کنونشن“ منعقد ہوا جس سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے صوابی سے آن لائن ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔

کنونشن کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا اور محمد کاشف نے نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔ کنونشن میں شہر بھر سے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اور کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء میں خواتین کارکنوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جن کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا تھا۔ کنونشن میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا اور کارکنوں نے ”تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو“، ”اب کے برس اہلِ کراچی اپنا پورا حق لیں گے“ سمیت دیگر نعرے لگائے۔ کنونشن میں مختلف نظمیں اور ترانے بھی پیش کیے گئے۔ نیو ایم اے جناح روڈ پر ایک بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر ایک بڑا بینر لگایا گیا تھا، بینر پر جلی حروف میں ”تیز ہو تیز ہو، جدو جہد تیز ہو، تعمیر کراچی کنونشن“ تحریر تھا اور حافظ نعیم الرحمٰن کی تصویر اور انتخابی نشان ترازو بھی نمایاں تھا۔ کنونشن سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا :

”کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، یہ ملک کی معاشی اور نظریاتی شہ رگ ہے، یہ اُن لوگوں کا شہر ہے جن کے بزرگوں نے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی، تحریک چلائی، ہجرت کی اور گھر بار چھوڑ کر سب کچھ اس ملک پر قربان کیا، بدقسمتی سے 75 سالوں سے اس شہر کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کی گئی۔ پورے ملک میں ظلم اور ناانصافی ہے، اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے لیکن کراچی ملک کا سب سے بڑا اور تین کروڑ سے زائد آبادی والا شہر ہے، اگر یہ شہر پریشان ہو اور یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہو تو ظاہر ہے اس کے اثرات پورے ملک پر ہوتے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں عوام نے جماعت اسلامی پر اعتماد کیا۔ یہ حقیقت میں جماعت اسلامی کے کردار، نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی پر اعتماد ہے، جماعت اسلامی کو کراچی میں جو بڑا اور زبردست مینڈیٹ ملا ہے وہ اس لیے ملا ہے کہ ہمیں لوگ ایمان دار اور دیانت دار کہتے ہیں، اس لیے کہ جماعت اسلامی نے آج تک جن کو بھی اسمبلیوں میں بھیجا ہے اور جس قیادت کو کراچی کی بلدیہ میں موقع ملا ہے انہوں نے دیانت داری کے ساتھ عوام کی خدمت کی ہے، قربانیاں دی ہیں اور کراچی کے حقوق کے لیے جان لڑائی ہے۔ آج کامیابی کے اس مرحلے پر ہم ان تمام شہداء کو بھی یاد کرتے ہیں جنہوں نے مصیبت اور تکلیف کو برداشت کیا ہے، میں ان سب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے کارکنان، خواتین اور نوجوانوں نے دن رات ایک کرکے جماعت اسلامی کی کامیابی کے لیے کام کیا ہے، ان سب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان سب نے حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں مثالی اور تاریخی جدو جہد کی ہے۔ سندھ حکومت کے ظلم و جبر اور چوری کے باوجود اہلِ کراچی نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو جو عوامی مینڈیٹ دیا ہے اس کا تحفظ کریں گے، اور ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی کامیابی سے پورے ملک میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے، 18اپریل کا دن بھی جماعت اسلامی کی فتح کا دن ثابت ہوگا اور اس فتح و کامیابی سے اہلِ کراچی کے مسائل حل ہوں گے، آنے والے ہر مرحلے میں پورے ملک کی جماعت اسلامی اہلِ کراچی کے ساتھ کھڑی ہوگی، ہم چاہتے ہیں کہ کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن جائے۔ یہ شہر جب ہمارے پاس ہوگا ہم ماضی کی طرح عوام کی خدمت کریں گے اور عوام نے جو اعتماد کیا ہے اسے ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، جب بھی عوام کی امانت ہمارے پاس آئی ہے ہم نے اس کی حفاظت کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ 18اپریل کو ملتوی شدہ نشستوں پر انتخابات کارکنوں کی صلاحیتوں کا ایک بار پھر امتحان ہے، کارکنان تیار ہوجائیں، پہلے کی طرح جدوجہد کرنی ہے اور نتائج کے حصول تک پہرہ دینا ہے۔ بدقسمتی سے دو ماہ کے دوران سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن نے کراچی کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے، ناانصافی کی ہے، جن حلقوں میں تحفظات اور اعتراضات تھے ان پر کارروائی نہیں کی گئی، اور جن حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی تو سب نے دیکھا کہ اس میں بھی حق اور انصاف سے کام نہیں لیا گیا، اس پورے عرصے میں ووٹوں کے سارے تھیلے تو ان کے پاس تھے یہ کیسے پھٹے ہوئے نکلے؟ ان دو ماہ کے دوران جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی سیٹوں پر نتائج تبدیل کیے گئے، جماعت اسلامی کے بیلٹ پیپرز کو ضائع کیا گیا، اس ظلم اور ناانصافی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔“

کنونشن سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے خطاب میں کہاکہ جماعت اسلامی کے ووٹر، سپورٹر اور کارکنان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے طویل جدوجہد کی، میں سلام پیش کرتا ہوں جماعت اسلامی کی خواتین کو بھی جنہوں نے دن رات انتھک محنت کی۔ بدترین سیاسی صورت حال میں بھی کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو تاریخی عوامیمینڈیٹ دیا۔

جماعت اسلامی پورے شہر کی امیدوں کا مرکز بن گئی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان ملتوی شدہ نشستوں کے انتخابات کے لیے بھرپور تیاری کریں، کارکنان عوامی رابطہ مہم مزید تیز کردیں۔ ترازو نشان پر انتخابات لڑیں گے۔ پیپلز پارٹی کی ایما پر ری کاونٹنگ کے نام پر جماعت اسلامی کے ووٹ ضایع کرکے نتائج تبدیل کیے گئے۔ پیپلز پارٹی ہو یا کوئی بھی بادشاہ سلامت… کراچی میں میئر جماعت اسلامی کا ہی ہوگا، تم عزت کے ساتھ قبول کرو یا بے عزتی کے ساتھ قبول کرو۔ ایک ایک ووٹ کا تحفظ کریں گے۔ الیکشن کمیشن پیپلزپارٹی کا آلہ کار نہ بنے اور حقائق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔

راجا سکندر صاحب جواب دیں کہ ملتوی شدہ نشستوں کے انتخابی شیڈول کا اعلان دو ماہ بعد کیوں ہوا؟ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں میں جعل سازی کی لیکن اس کے باوجود کراچی کے عوام نے پیپلز پارٹی کو تاریخی شکست دی۔ بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کے لیے گورنر ہاوس، سی ایم ہاؤس، بہادرآباد میں سازشیں ہوتی رہیں، لیکن تمام تر سازشوں کے باوجود انتخابات ہوئے، الیکشن کے دن 5 بجے کے بعد نتائج جاری ہونے لگے اور جماعت اسلامی کی واضح جیت سامنے آنے لگی تو الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت نے فارم 11 اور 12 جاری کرنے سے روک دیے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان نے پولنگ اسٹیشنوں پر رات دیر گئے تک فارم 11 اور 12 حاصل کیے۔ جماعت اسلامی کا مقابلہ جمہوری قوت کے ساتھ نہیں بلکہ آمریت اور فسطائیت کے ساتھ ہے۔ جماعت اسلامی سیاسی میدان میں ایک ایک طالع آزما سے مقابلہ کرے گی۔“ امیرجماعت اسلامی کراچی کا مزید کہنا تھا کہ ”کراچی کے عوام نے بہت ساری پارٹیوں کو اپنا مینڈیٹ دیا لیکن کراچی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب آتا رہا، جماعت اسلامی نے کراچی کے مسائل پر آواز اٹھائی اور کراچی کے عوام کی امید کی کرن بنی۔ کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو کراچی کی نمبر ون پارٹی بنایا ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنی پارٹی میں جمہوریت نہیں رکھتے، ڈکٹیٹر شپ، وصیت اور خاندان پر پارٹیاں چلائی جاتی ہیں، یہ وہ پارٹیاں ہیں جو وڈیروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر چلتی ہیں، وڈیروں اور جاگیرداروں کی ایما پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیاں قائم رہتی ہیں، غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی ان پارٹیوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، جاگیردار اور وڈیروں پر مشتمل پارٹیاں اپنے پارٹی ورکرز کے حقوق بھی نہیں دیتیں۔ جماعت اسلامی واحد پارٹی ہے جس میں عام شہری بھی شامل ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی میں رہنے والے ہر طبقہ فکر سے وابستہ افراد کی جماعت ہے اور سب جماعت اسلامی کی پشت پر کھڑے ہیں۔

کنونشن سے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی، پبلک ایڈ کمیٹی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈووکیٹ، جماعت اسلامی کراچی کے ناظمِ انتخاب راجا عارف سلطان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔