پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال

انتخابات سے فرار کے لیے ملک ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بنادیا

اگلے ماہ کی 10 تاریخ کو پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی حکومت ختم ہوئے پورا ایک سال ہو جائے گا۔اس ایک سال میں جہاں انہوں نے ساری توانائیاں قبل از وقت انتخابات منعقد کروانے پر صرف کیں، وہیں حکومت نے انہیں دیوار سے لگانے پر تمام وسائل جھونک دیے۔لیکن سال بھر کی رسّاکشی کے بعد نہ ہی وہ قبل از وقت انتخابات کروانے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور نہ ہی حکومت انہیں دیوار سے لگانے میں۔ عمران خان پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہوگئے،انہوں نے عوام میں اپنی سپورٹ کو اس انداز سے استعمال کیا ہے کہ حکومت باوجود کوشش کے ان کو نقصان نہیں پہنچا سکی۔ تمام کوششوں کے باوجود عمران خان کا سپورٹ بیس کیمپ ختم نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی نے مظلومیت کا جو کارڈ استعمال کیا ہے اس سے انہیں حمایت ملی ہے، عمران خان نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے بہترین حکمت عملی اپنائی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کو جتنا متحرک رکھیں گے اتنا کامیاب ہوں گے،دوسری طرف حکومت کی معاشی کارکردگی انتہائی بری ہے اس کا براہِ راست فائدہ عمران خان نے اٹھایا ہے۔ ان کی اولین حریف سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کو انتخابات میں کامیابی کے لیے سخت محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ عمران خان کے لیے ساز گار فضا اس لیے بھی ہے کہ نوازشریف کی مخالف تمام سیاسی قوتیں بھی چاہتی ہیں کہ وہ مسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں کمزور نہ ہوں، اسی لیے ملک کے عام لوگ اور مڈل کلاس بھی ان کی حمایت میں نظر آتی ہے، اور وہ ایسے تمام نعرے اور اصطلاحات استعمال کررہے ہیں جو لوگوں کو پسند آتے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی نے مخالفین کے لیے کامیابی محدود بنا دی ہے، لہٰذا ملک میں اپنے وقت پر عام انتخابات لازمی ہیں، کوئی تیسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ عمران خان کے خلاف 13 سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں کے حمایتی کچھ نہیں کر سکے۔ اب پی ڈی ایم چاہے بھی تو سیاسی شہید نہیں بن سکتی۔ لیکن عمران خان کی مقبولیت انہیں اقتدار دلاتی ہوئی نظر نہیں آرہی، جو کچھ عمران خان اب کر رہے ہیں دبائو کا یہ حربہ ماضی میں مذہبی جماعتیں استعمال کرچکی ہیں، اور عمران خان کی حکومت اس کو کچلنے کے لیے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر چکی ہے، لہٰذا انہیں حکومت کی طاقت کا اندازہ ہے، تحریک انصاف اسی لیے خوف میں بھی مبتلا ہے۔ عمران خان جن طاقتوں سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں وہ ان سے معاملات طے کرنا نہیں چاہتیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی عدالت کے رو برو حاضری کے وقت جوڈیشل کمپلیکس میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کی وجہ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، کارکنوںنے پولیس چوکی، پولیس موبائل اور کئی گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا۔اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے کشیدگی کے باعث توشہ خانہ کیس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیئے اور فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔سابق وزیراعظم عمران خان کی پیشی کے موقع پر اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملے کے الزام میں اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کے 198 افراد گرفتار کیے ہیں، اور مزید گرفتاریاں ہوں گی۔اسلام آباد پولیس نے پُرتشدد واقعات پر تھانہ سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج کیے ہیں۔ پولیس کے 58 افسران و جوان زخمی ہوئے، پولیس کی 4 گاڑیاں جل گئیں، 9 گاڑیاں توڑی گئیں جبکہ 25 موٹر سائیکلیں جلادی گئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کا سیاسی اور قومی امور پر 6 گھنٹے طویل اجلاس ہوا، جس کا متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق 22 مارچ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیاگیا ہے، جس میں ریاستی عمل داری یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے ہوں گے۔ اعلامیے میں عمران خان کے حکم پر پولیس اور رینجرز پر حملوں کی مذمت کی گئی کہ یہ ریاست دشمنی ہے، جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویشناک ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شواہد اور ثبوت موجود ہیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔وزیراعظم نے سوشل میڈیا، بیرون ملک اداروں بالخصوص آرمی چیف کے خلاف مہم کی شدید مذمت کی۔اعلامیے کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانی مذموم ایجنڈے کا حصہ نہ بنیں، لسبیلہ کے شہدا کے خلاف غلیظ مہم بیرونِ ملک بیٹھے عناصر چلارہے ہیں، ایسے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ رویہ قابلِ قبول نہیں ہوگا، یہ آزادیِ اظہار نہیں۔اعلامیے کے مطابق عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے سلوک سے پلڑے برابر نہ ہونے کا تاثر مزید گہرا ہورہا ہے، ایک ملک میں انصاف کے دو معیار قبول نہیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ جوڈیشل کمپلیکس پر حملے، پولیس افسران اور اہلکاروں کو زخمی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔اجلاس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی آڈیو لیک کو تشویشناک قرار دیا گیا۔اعلامیے کے مطابق اجلاس کے شرکاء نے آڈیو لیک میں مریم نواز کے بارے میں گھٹیا گفتگو کی مذمت کی۔اجلاس میں ملک کی معاشی، سیاسی، داخلی اورخارجی اور امن و امان کی صورت حال پر تفصیلی غور کیا گیا، ساتھ ہی معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر بریفنگ دی گئی۔اعلامیے کے مطابق اجلاس کو عوامی ریلیف کے لیے وزیراعظم کے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا، عوامی ریلیف میں کسان پیکیج، رمضان میں غریب خاندانوں کو آٹے کی مفت فراہمی شامل ہے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ کم آمدن والوں کے لیے پیٹرول کی قیمت میں 50 روپے رعایت دینے کی اسکیم ہے جبکہ شمسی توانائی کے فروغ، نوجوانوں کے لیے بلاسود اور رعایتی قرض پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔اجلاس کے شرکاء کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی سمیت دیگرریلیف پروگرام شامل ہیں جبکہ ملک بھر کے نوجوانوں کے لیے سی ایس ایس کے خصوصی امتحان کا انعقاد کیا جارہا ہے۔اعلامیے کے مطابق شرکاء نے معیشت، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے وزیراعظم کے اقدامات کو سراہا۔ اس اجلاس کا پس منظر یہ ہے کہ توشہ خانہ کیس میں پیشی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس آمد کے موقع پر پارٹی کارکنان کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے الزام میں سابق وزیراعظم کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ایس ایچ او تھانہ رمنا ملک راشد احمد کی مدعیت میں اسلام آباد کے تھانہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) میں درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (1997) کی دفعہ 7 سمیت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور دفعہ 506 شامل کی گئی ہیں۔مقدمے میں علی امین گنڈاپور، حماد اظہر، خرم نواز، امجد نیازی، اسد عمر، عامرکیانی، فرخ حبیب سمیت پی ٹی آئی کے متعدد اہم رہنماؤں اور کارکنان کو نامزد کیا گیا ہے۔ایف آئی آر میں جوڈیشل کمپلیکس کو نقصان پہنچانے میں ملوث 18 افراد، جوڈیشل کمپلیکس کے پارکنگ ایریا کو نقصان پہنچانے اور آگ لگانے میں ملوث 22 افراد اور پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے میں ملوث 19 افراد کو نامزد کیا گیا ہے، ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ ان میں سے کچھ افراد کے پاس سے پتھر، لائٹر اور پیٹرول سے بھری بوتلیں برآمد ہوئی ہیں۔ ایف آئی آر میں ایس ایچ او ملک راشد احمد نے کہا کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے 17 دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ مل کر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی اور سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ایس ایچ او ملک راشد احمد نے ایف آئی آر میں لکھا کہ پی ٹی آئی کارکنان پتھروں سے لیس تھے جو انہوں نے ڈھوک کشمیریاں پولیس اسٹیشن کی چیک پوسٹ پر پھینکے اور چیک پوسٹ پر لگے بیریئرز اور خیموں کو جلا دیا۔ایف آئی آر

میں کہا گیا کہ ہجوم نے جوڈیشل کمپلیکس کو چاروں طرف سے گھیر لیا، اس کے مرکزی دروازے کو توڑ دیا اور پھر عمارت پر پتھراؤ کیا جس سے اس کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے ایک اور گروپ نے جوڈیشل کمپلیکس کی پارکنگ میں 16 سرکاری گاڑیوں، پولیس کی گاڑیوں اور 4 موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی، انہوں نے پولیس کی گاڑی سے 9 ایم ایم پستول، 20 ہزار روپے اور ایک وائرلیس سیٹ بھی چُرا لیا۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں سے 8 اینٹی رائٹ کٹس چھین لیں، پولیس اہلکاروں کو لاٹھیوں سے مارا اور ان پر پتھراؤ کیا۔پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے سیف سٹی کی فوٹیج شناخت کے لیے نادرا کو بھجوادی ہیں، ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کی شناخت کرکے ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

پاکستان کیخلاف عالمی گریٹ گیم اور آئی ایم ایف

پاکستان کے خلاف عالمی سازشیں عروج پر ہیں، یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط کے بدلے پاکستان سے میزائل پروگرام منجمد کرنے کے لیے کہا جائے گا، آگے جاکر ایٹمی پروگرام پر بھی بلیک میل کیا جاسکتا ہے، یعنی پاکستان کو معاشی طور پر اتنا مجبور کردیا گیا ہے کہ چند ارب ڈالر کے بدلے میزائل اور ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کی شرائط عائد کی جاسکتی ہیں۔ قوم اپنی آنکھیں کھولے اور پاکستان کے خلاف جو گریٹ گیم کھیلا جارہا ہے اُسے اپنے اتحاد اور یکجہتی سے ناکام بنانے میں کردار ادا کرے، اوورسیز پاکستانی زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھیجیں تاکہ وطنِ عزیز عالمی طاقتوں کے معاشی جال سے نکل سکے۔ مگر یہ کام کیسے ممکن ہو؟

یہ بات درست ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اشد ضروری ہے، اس معاہدے کے بعد کیا ہوگا اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آئی ایم ایف کا 3 سالہ پروگرام جو 2019ء میں لیا گیا تھا، ایک سال کی توسیع کے بعد جون2023ء میں ختم ہورہا ہے، جبکہ موجودہ پروگرام کی بحالی اپریل تک متوقع ہے، لہٰذا ہمیں فوراً آئی ایم ایف کے 24 ویں پروگرام کی طرف جانا ہوگا، لیکن 23پروگراموں کے باوجود ہم اہم شعبوں میں اصلاحات نہ لانے کے باعث معیشت میں بہتری نہ لاسکے، حکومتوں کے غیرضروری اخراجات سے مالی خسارے، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوتا گیا، زراعت اور صنعت نظرانداز ہوتی رہیں جس سے درآمدات بڑھ گئیں اور برآمدات کم ہوتی چلی گئیں، اور ناقابلِ برداشت تجارتی خسارے نے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہت زیادہ کمی کردی، جس کی وجہ سے ملک اس وقت بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 5200ارب روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہوا ہے، اسی لیے منی بجٹ لانا پڑا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کا صحرا پھیلتا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف ایک پیج پر نظر آتی ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی ایسا معاشی نظام دیا تھا کہ معیشت کی بہتری کے لیے ٹیکس بڑھاتے چلے جائو۔ آئی ایم ایف کے مطالبات دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور پرانے ڈپازٹس کو رول اوور کرکے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لیے جارہے ہیں جس سے سود کی ادائیگی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی ہے، صنعتیں بند ہونے سے ملک میں بے یروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی گزشتہ 50سال میں بڑھ کر 42فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ مہنگائی کورونا، روس یوکرین جنگ اور پاکستان میں حالیہ سیلاب کا نتیجہ ہے۔ موجودہ معاشی بحران کی ایک وجہ آئی ایم ایف کا رویہ بھی ہے۔ اُس نے ٹیکس اصلاحات پر عمل درآمد کو پروگرام کی بحالی سے جوڑ دیا ہے۔ یہ باہمی عدم اعتماد کی ایک بری شکل ہے، جبکہ آئی ایم ایف نے جون 2023ء تک 10ارب ڈالر کا ہدف دیا ہے۔ معیشت کی ترقی کے لیے پاکستان کو کم از کم 6سے 7فیصد معاشی گروتھ حاصل کرنا چاہیے جو فی الحال ممکن نہیں۔ حکومت نے پُرتعیش اشیا پر 25 فیصد سیلزٹیکس لگاکر ان کی درآمدات روکی ہیں لیکن ادویہ، ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے خام مال، پرزہ جات اور آلات کی درآمدات کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے۔ یہ منفی اثرات ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اشرافیہ کی مراعات میں کمی لائی جاتی اور غیر پیداواری اخراجات کو روکا جاتا تاکہ معیشت کی بحالی کے لیے روڈ میپ بن جاتا، لیکن یہ روڈ میپ نہیں بن سکا۔

ماہِ رواں کے پہلے ہفتے کے دوران آرمی چیف ہاؤس میں ملک کے دس بڑے بزنس مینوں کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات ہوئی تھی، اس میٹنگ کے لیے گوہر اعجاز نے اہم کردار ادا کیا تھا، اُن کے ساتھ ساتھ پنجاب کے پانچ بزنس مین تھے، جب کہ پانچ بزنس مین عارف حبیب کے توسط سے کراچی سے آئے تھے، یوں یہ دس لوگ اس ملاقات میں شریک تھے۔کراچی سے عارف حبیب، بشیر جان محمد، محمد علی ٹبہ، شاہد سورتی اور شہباز ملک تھے، جبکہ پنجاب سے میاں فواد مختار، شہزاد اصغر، فیصل آفریدی اور میاں احسن تھے۔ یہ ملاقات اس لیے ہوئی کہ ان کے خیال میں پاکستان معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس ملاقات میں برآمدات اور درآمدات کے بارے میں سنجیدہ گفتگو ہوئی تھی۔ ملکی معیشت میں یہی وہ شعبہ ہے جس کے پاس 10لاکھ لوگوں کی ورک فورس بھی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ ملک سے باہر نہیں جارہے۔ اس ملاقات کے بعد کاروباری طبقے میں اعتماد بڑھا، ان کا خیال یہ بھی ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو اُس کے پاس فیصلہ سازی کی قوت نہیں ہے، اصل فیصلے جہاں ہوتے ہیں وہیں ملاقات بھی ہونی چاہیے۔