پاکستان تیزی سے محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مفاہمت کے امکانات کم اور محاذ آرائی کا کھیل بہت حد تک بالادست نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ردعمل کی سیاست ہے، یعنی ہر فریق یا تو غصے میں ہے، یا بدلہ لینے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کو احساس نہیں کہ یہ طرزعمل قومی سیاست، جمہوریت اور ملک کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ بظاہر ہمارا رویہ مسائل حل کرنے کا نہیں بلکہ بگاڑنے کا ہے، اور اس کھیل میں کوئی ایک فریق نہیں بلکہ ہم سب ہی ان حالات کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت عمران خان حکمران اتحاد، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے ایک بڑے حلقے میں بڑے خطرے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ عمران خان پر دہشت گردی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، بغاوت، توہینِ مذہب، توہینِ عدالت، توہینِ ججز اور قتل جیسے الزامات کے تحت درجنوں مقدمات قائم ہوگئے ہیں۔ انہیں قومی سطح پر ایک بڑے باغی کے طور پیش کیا جارہا ہے۔ اسی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کی راہنما مریم نواز نے عمران خان دشمنی میں ایک قدم آگے بڑھ کر ان پر اور ان کی سیاسی جماعت پر ہی پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ان کے بقول عمران خان کی جدوجہد سیاسی اورجمہوری کے مقابلے میں عسکریت پسندی پر مبنی ہے۔ اس لیے انہوں نے حکومتِ پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی جماعت پر پابندی عائد کردی جائے۔ عمران خان کے گھر پر جس انداز سے پولیس کا حملہ ہوا اور جو طور طریقہ پنجاب کی پولیس نے اختیار کیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ مقصد عمران خان کو گرفتار کرنا کم اور ان پر دبائو یا خوف وہراس پیدا کرنا زیادہ ہے۔ عمران خان نے بھی گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے ہی سیاسی کارکنوں کو ڈھال بنایا، جس پر کئی حوالوں سے تنقید بھی ہورہی ہے۔ مگر عمران خان کو لگتا ہے کہ اُن کی گرفتاری کے نام پر اُن کو ختم کرنا یا اُن پر تشدد کرنا ہی اصل ایجنڈا ہے جس کی پارٹی میں ہر سطح پر مخالفت کی جارہی ہے۔
عمران خان کا مؤقف ہے کہ حکمران طبقات کا اصل مقصد دو صوبوں میں انتخابات سے فرار ہے اور وہ کسی بھی صورت میں آئینی تقاضوں کے تحت انتخابات نہیں چاہتے۔ ان کے بقول حالات کو خراب کرنا ہی وفاقی اورنگران حکومت کا ایجنڈا ہے تاکہ اس کو جواز بنا کر وہ انتخابی عمل سے باہر نکل سکیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنے مخالفین کے خلاف شاندار جدوجہد کی ہے اوران کی مزاحمت کا پہلو مضبوط ہے، بلکہ ان کی جماعت نے بھی خود کو مزاحمت کی سیاست میں منوایا ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کا بڑا مسئلہ عمران خان کے خلاف نہ بننے والا بیانیہ ہے۔ عمران خان حکمران اتحاد کے خلاف ایک مضبوط بیانیے کے ساتھ موجود ہیں اور ان کی مقبولیت پر بھی کوئی شک نہیں، اور حکمرانوں کی جانب سے انتخابات سے فرار کی وجہ بھی عمران خان کی مقبولیت ہی ہے۔ عمران خان جس انداز سے عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں اورجیسے ان کا وہاں استقبال ہورہا ہے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول عمران خان سیاسی طور پر خاصے بھاری ہوگئے ہیں اوران کے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین ان کی اس بھاری بھرکم سیاسی شخصیت سے خوف زدہ ہیں۔ جس انداز سے عمران خان کے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین ان کا سیاسی قد کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ حکمت عملی اپنا نتیجہ نہیں دے رہی، بلکہ اس کافائدہ بھی عمران خان کی سیاست کو ہی ہورہا ہے۔ عمران خان پر رسمی میڈیا پر پابندی ہے اور پیمرا کے مطابق ان کی سرگرمیوں کو نہیں دکھایا جاسکتا۔ لیکن آج کے سوشل میڈیا کے دورمیں یہ ممکن نہیں، اور وہ نہ صرف سوشل میڈیا کی دنیا میں چھائے ہوئے ہیں بلکہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر عالمی میڈیا میں بھی اپنا بیانیہ پیش کررہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں عمران خان کو ملنے والی پذیرائی بھی حکومت کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے، اورحکمرانوں کو لگتا ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر روکنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری، ان کو جیل میں بند کرنا یا ان کو عملًا سیاسی طو رپر نااہل کرنے کو ہی حکمت ِعملی سمجھا جارہا ہے۔ اس حکمت ِعملی کے تحت حکمرانوں کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی حمایت درکار ہے، مگر ان کو عدلیہ کی جانب سے خاصی مزاحمت کا سامنا ہے۔
ایک مسئلہ دو صوبوں میں انتخابات کا ہے۔ حکمران طبقہ الیکشن نہیں چاہتا۔ الیکشن کمیشن میں وفاقی اور دونوں صوبائی نگران حکومتوں اوروفاقی یا صوبائی اداروں نے جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق انتخابات ممکن نہیں اور ملک کے سیکورٹی حالات انتخابات کے لیے سازگار نہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالے سے اپنی رپورٹ دوبارہ سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا پلان بناچکا ہے اوراس میں یہی کہا جائے گا کہ وفاقی اور نگران صوبائی حکومتیں انتخابات کے لیے تیار نہیں۔یعنی اب معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں جانے والا ہے، اب دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے؟کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود جس طرح سے وفاقی حکومت اوراس کے اداروں سمیت صوبائی نگران حکومتوں نے الیکشن سے انکار کیا ہے، کیا اِس پر اُن پر توہینِ عدالت لگے گی؟کچھ سیاسی پنڈت حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ایک ہی حل ہے کہ ہم نئے عام انتخابات کا راستہ اختیار کریں۔ویسے بھی حکومت خود مان رہی ہے کہ صوبائی انتخابات پہلے کروانے سے مسائل بڑھیں گے توایسے میں عام انتخابات کا راستہ ہی مفید لگتا ہے۔ لیکن حکومت کو نہ تو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور نہ ہی عام انتخابات حق میں لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کا معما ابھی تک موجود ہے اور لوگوں میں ابہام ہے کہ انتخابات ممکن ہوسکیں گے یا نہیں؟ حکمران طبقے کا انتخابات سے انکار کا کھیل نیا نہیں، کئی ماہ سے حکمران مسلسل یہی کہہ رہے تھے کہ ہم انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔اس لیے حکمرانوں کو تو انتخابات نہیں کروانے، اور اگر ہوئے تو یہ صرف اور صرف سپریم کورٹ کے فیصلے یا دبائو کی صورت میں ہی ہوسکتے ہیں۔اگر انتخابات نہیں ہوتے تو اس کا مقصد صاف ہے کہ ملک کے حالات استحکام کی طرف نہیں بلکہ بگاڑ کی طرف جائیں گے اوراس کے ذمہ دار تمام ہی فریق ہوں گے۔حکومت کی جانب سے عدلیہ مخالف مہم کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے، اوربالخصوص مریم نواز جس شدت کے ساتھ عدلیہ پر حملہ آور ہوئی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی ہمیں عدلیہ کے خلاف خاصی شدت دیکھنے کو ملے گی۔عدلیہ پر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ عمران خان کے پیچھے کھڑی ہے اوراس وقت عمران خان کے لیے معاون کا کردار ادا کررہی ہے۔
دوسری جانب ایک کوشش مفاہمت کی بھی ہورہی ہے۔ عمران خان نے موجودہ حالات میں سب سے بات چیت کرنے کا عندیہ دیا ہے اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی زور دیا ہے کہ بات چیت کی مدد سے ہی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ وزیراعظم اور وزیر قانون بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ اسی تناظر میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی بھی لاہو رکے دورے پر ہیں جہاں اُن کی پی ٹی آئی راہنما اور سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں معاملات میں بگاڑ ہے، وہیں کچھ لوگ مفاہمت کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا کیانتیجہ نکلے گا۔لیکن اصل مسئلہ بداعتمادی کا ہے، اور فریقین میں جوشدت ہے اس کو کیسے کم کیا جاسکے گا۔کیونکہ انتخابی ماحول میں شدت کا پیدا ہونا فطری تقاضا بھی ہے۔کہا جارہا ہے کہ اگر نتیجہ مفاہمت کی صورت میں سامنے نہیں آتا تو اس کے نتائج حکومت ہویا اپوزیشن… دونوں کے حق میں نہیں ہوں گے، اورجو کچھ ہوگا وہ سیاسی قوتوں کے لیے غیر متوقع ہوگا۔کہا جارہا ہے کہ سیاسی قیادتوں کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ معاملات خوش اسلوبی سے حل کرلیں۔لیکن کیا واقعی اسٹیبلشمنٹ اس سارے کھیل میں نیوٹرل ہے؟ کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے ا س پر فیصلہ سازوں پر بھی تنقید ہورہی ہے۔اصل میں ایک بات سمجھنی ہوگی کہ اب پاکستان میں سیاست کے انداز بدل رہے ہیں، اور جو لوگ بھی پرانے طور طریقوں کے ساتھ سیاست کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کو سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ملے گا۔اب حالات بدل چکے ہیں۔ سب کو ہی اپنے اپنے انداز بدلنے ہوں گے اوراس پرانے کھیل سے کسی کو کچھ حاصل نہیںہوگا۔کیونکہ اگر انتخابات اورجمہوری عمل کو آگے بڑھانا ہے تو پھر سیاسی عمل کو بھی جاری رہنا چاہیے۔ جس انداز سے تحریک انصاف کو انتخابی مہم چلانے سے روکا جارہا ہے اوران کو واضح لفظوں میں کہا جارہا ہے کہ وہ انتخابی مہم نہیں چلاسکیں گے تو اس سے مزید کشیدگی پیدا ہوگی۔حکمرانوں کی یہ کوشش خطرناک رجحان کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ پُرتشدد پالیسی کو آگے بڑھارہے ہیں۔ اور جن لوگوں کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے یا ضمانت پر ہیں اُن کی گرفتاری کا عمل بھی حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔اسی طرح پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کا یہ کہنا کہ اب ہم نے پولیس کو فری ہینڈ دے دیا ہے، حالات کو مزید خراب کرے گا۔ ویسے جب مقصد ہی حالات کو خراب کرنا ہوتو پھر گلہ کس سے کیا جائے! دوسری جانب حکمران اتحاد کے ہنگامی اجلاس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ عمران خان سے کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے اور ان کو گرفتاری سمیت قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ اسی طرح حکومت نے فوج کے خلاف جاری میڈیا مہم کا بھی سارا ملبہ عمران خان پر ہی ڈال دیا ہے اوران کے حامیوں اور ساتھیوں کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس میں میڈیا سے جڑے عمران خان کے حامی بھی شامل ہیں۔ اس صورت حال پر عمران خان نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے اوران سے مداخلت کی اپیل کی ہے، اور ان کے بقول اگر بڑی عدالت نے اس پر بڑی کارروائی نہ کی تو ملک میں انتشار پیدا ہوگا۔کیونکہ عمران خان کہتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت فوج اور ہمارے حامیوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پچھلے 72 گھنٹوں میں پی ٹی آئی کے کئی سو کارکنوں کو جیل بھیج دیا گیا اورکئی اہم راہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا، یا ان کے خلاف سنگین مقدمات بنا دیے گئے ہیں۔ یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ملکی سیاست ایک بڑی محاذ آرائی اور ٹکرائو کی جانب بڑھ رہی ہے جو ملک کے مفاد میں نہیں۔