رمضان المبارک :تقویٰ اور احتساب کا مہینہ

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور انعامات کا شمار ممکن نہیں، لیکن اللہ کی ان نعمتوں میں رمضان المبارک کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مہینے کا انتظار رہتا تھا اور اس کا وہ جس شوق کے ساتھ استقبال کرتے تھے، اس کا احساس اور ذکر خود ایمان افروزاور اس انعامِ الٰہی کی قدرومنزلت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ آپؐ رجب کا چاند دیکھتے تو دعا فرمایا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبْ وَشَعْبَان وَبلغنَا رَمضَان، اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔

اور پھر جب رمضان کا چاند نظر آجاتا تو لسانِ نبویؐ سے یہ الفاظ گوہر بن کر ضوفشاں ہوتے:
اَللّٰھُمَّ اَھْلِہٗ عَلَیْنَا بِالْامْنِ وَالْاِیمَانِ والسَّلَامۃِ والْاسِلَام ربّی وربَّک اللّٰہ (بخاری) اے اللہ ! ہم پر یہ چاند امن و ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ (اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ دیا جس میں رمضان کے بابرکت مہینے کے استقبال کے لیے ہمیں اس طرح تیار فرمایا:

”اے لوگو! بہت بڑی عظمت اور برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اور رات کے قیام ( مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں دل کی خوشی سے ایک نیکی کا کام کرے گا اس کو دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر ثواب ملے گا، اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو دوسرے مہینوں کے ستّرفرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔ یہ ’صبر‘ کا مہینہ ہے، صبر کا اجر جنت ہے اور یہ غریبوں کی مالی ہمدردی اور امداد کا مہینہ ہے۔“ (مشکوٰۃ)

رمضان کی برکتوں کا ذکر فرماتے ہوئے آپؐ نے اس خطبے میں روزے کے دو اہم پہلوئوں کو اُجاگر فرمایا ہے جو روزے کی روح اور مقصد کو سمجھنے میں مد د دیتے ہیں، یعنی صبر کا مہینہ اور مواساۃ کا مہینہ، یعنی غریبوں اور دوسرے انسانوں کے لیے مالی ہمدردی اور امداد کا مہینہ۔ صبر کا تعلق خواہشات اور جذبات پر قابوکی صلاحیت پیدا کرکے اور رب کی اطاعت اور حق کی راہ میں ثابت قدمی سے ہے، اور مواساۃ کا تعلق دوسرے انسانوں کے لیے رحمت اور اخوت کے جذبات کو پروان چڑھاکر ایک دوسرے کے لیے سہارا بننے اور انسانی معاشرے کو محبت، تعاون اور سلامتی کا گہوارہ بنانے سے ہے۔ قرآن کی تعلیمات کا خلاصہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کے بندوں کے لیے رحمت کی صفات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

روزے کے باب میں قرآن نے تین چیزوں کی طرف خصوصیت سے ہمیں متوجہ کیا ہے:
لَعَلَّکُمْ یَتَّقُوْنَ، تاکہ ہم صاحب ِ تقویٰ بن جائیں۔
لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ، تاکہ تم اپنے رب کا شکر ادا کرو۔ اس کی اس نعمت پر کہ اس نے تم کو قرآن سے جو عطیہ فرقان و ہدایت ہے، نوازا اور اس مہینے میں اس کا نزول شروع ہوا۔

لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ،تاکہ تم اس انعام خداوندی اور عطائے ہدایتِ ربانی پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور قرآن کے پیغام کو پھیلااور بلند کرکے اس انعام کا شکر ادا کرو۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مبارک مہینے سے فائدہ اُٹھانے کا مؤثر ترین نسخہ اس طرح بیان فرمایا : ’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مبارک مہینے کو نیکیوں کی فصلِ بہار قرار دیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک انعامِ خاص ہے کہ پاکستان کا قیام اس مبارک مہینے میں بلکہ 27رمضان المبارک کو ہوا۔ آیئے رمضان المبارک کے نعمتِ خداوندی ہونے کے مختلف پہلوئوں پر غور کریں اور پھر اس مبارک مہینے میں اپنے، اپنے ملک اور اُمت ِمسلمہ کے حالات پر ایمان اور احتساب کے ساتھ نظر ڈالنے کی کوشش کریں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی توفیق سے نوازے اور پاکستان، اُمت ِمسلمہ اور تحریکِ اسلامی کو بھی ان اخلاقی، مادی اور اجتماعی قوتوں کے حصول کی سعادت سے فیض یاب کرے جو دورِحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لائق بنائیں۔

روزہ اسلام کے نظامِ تربیت و اصلاح کا ایک بنیادی رکن ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام کے نظامِ تربیت میں عبادات اور معاملات کے ذریعے نہ صرف فرد، بلکہ معاشرے اور پوری انسانیت کے لیے کرنے کے ایسے کام فرض کیے ہیں جن میں سے ہر ایک اس نظامِ تربیت کو قوت اور سہارا دیتا ہے ۔ روزے کے بارے میں جامع تعریف مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے یوں فرمائی ہے: ’’روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیرمعمولی نظامِ تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً 720گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، لاہور، 1977ء، ص 67)۔ اسی پہلو کو کچھ مختلف الفاظ میں محترم مولانا یوں فرماتے ہیں : ’’نہ صرف روزہ بلکہ تمام عبادات کی غرض یہی ہے کہ ان کے ذریعے آدمی کی تربیت کی جائے اور اسے اس قابل بنادیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے‘‘(خطبات، لاہور، 2012ء، ص 119)۔ گویا عبادات انسان کے مقصد وجود کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریات 51:56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا اسی لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت و بندگی کریں‘‘۔

ایک بنیادی فرق روزے اور دیگر عبادات میں یہ ہے کہ ان کی ادائیگی ایک قابلِ محسوس شکل رکھتی ہے، جب کہ روزہ ایک ایسی مخفی عبادت ہے جسے صرف وہ جس کی عبادت کی جارہی ہے، جانتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ابن آدم کا ہر (نیک) عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک نیکی 10نیکیوں کے برابر، حتیٰ کہ 700 گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔ اللہ کریم فرماتا ہے: سوائے روزے کے جو صرف میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔(مسلم، حدیث 1151)

یہ دوسروں کو نہ نظر آنے والی عبادت اثرات و نتائج کے اعتبار سے صحیح معنی میں جہادِاصغر کہی جاسکتی ہے، کیونکہ اس میں نفس میں پائی جانے والی اور مخفی بغاوت (طاغوت) اور انانیت (شیطان) جو ایک انتہائی بھلے اور راست باز انسان کو وقتی طور پر اپنے قابو میں لے آتی ہے، اس کو پورے ایک ماہ کے لیے ایک نظر نہ آنے والے قیدخانے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے بیڑیاں پہناکر قیدکردیا جاتا ہے۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: تمھارے پاس رمضان کا مہینہ آپہنچا۔یہ بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے، اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اس میں شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (سنن نسائی، حدیث2106، بخاری، حدیث3277)

عام دنوں میں شیطانی وساوس مومن کو بہت سے نیک کاموں سے روکنے کے لیے نئی نئی شکلوں میں مزاحم ہوتے ہیں لیکن رمضان ایسا موسمِ بہار لے کر آتا ہے جس میں فضا بھلائیوں کے لیے سازگار اور بُرائیوں کے لیے سدِراہ بن جاتی ہے۔ روزہ ایک ڈھال بن کر آتا ہے۔ اس لیے اگر کسی روزہ دار کو کوئی شخص جھگڑے پر آمادہ کرنا چاہے تو وہ صرف یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ (بخاری، حدیث 1904، مسلم، حدیث 2760)

یہ ہمت، یہ اعتماد اور یہ حوصلہ کہ ایک دھمکی کا جواب ہاتھ سے دینے کی صلاحیت ہو اور پھر بھی صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں، صرف ایسی صورت حال ہی میں ہوسکتا ہے جب ایک شخص کو یہ شعور اور آگہی ہو کہ وہ ایسے نظامِ تربیت سے گزر رہا ہے جس میں ہرنفسیاتی ردعمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشی کے تابع ہو۔ یہ ضبطِ نفس صرف اور صرف رمضان ہی کی برکت سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس ماہ کی برکات اور اس عبادت کے ذریعے اپنی شخصیت و سیرت میں انقلابی تبدیلی کا عمل ہم اسی وقت کرسکتے ہیں جب چند باتوں سے اجتناب کیا جائے اور ایسے عمل کو وظیفۂ حیات بنا لیا جائے جو رمضان کے دوران اور اس کے بعد ہمارے ہر سانس، ہرقدم، ہرخیال، ہرمنصوبے اور ہر ارادے کو صحیح رُخ اور معنی دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جن چیزوں سے بچنے اور اجتناب کرنے سے یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے لیکن تعداد میں کم ہونے کے باوجود ان سے بچنے کے لیے مضبوط عزم اور اللہ تعالیٰ کے آنکھوں کے سامنے ہونے کا تصور ضروری ہے۔ ان میں جنسی لذت کی نیت سے قربت، غذا، پانی، جھوٹ اور جاہلیت کے دور میں کی جانے والی عادات شامل ہیں۔ ’’جو شخص جھوٹ بولنا، اس کو پھیلانا اور جہالت کی باتوں کو ترک نہیں کرتا تو اللہ رب العزت کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے کھانے پینے کو ترک کرے‘‘(بخاری، حدیث 1903)۔ خصوصاً زبان کی احتیاط کہ کوئی فحش بات نہ ہونے پائے۔

یہ نظامِ تربیت جن مطلوبہ صفات کو جِلا بخشتا ہے ان میں سرفہرست تقویٰ کی روش ہے (البقرہ2:183)۔ دوسری صفت صبر، یعنی ایک جانب اپنے آپ کو نفس کے مطالبات سے روکنا اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری پہلو سے بھلائی، قیامِ حق اور نظامِ عدل کے قیام، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کے نظام کو نافذ کرنے کی جدوجہد کو استقامت کے ساتھ کرتے ہوئے اس پر جم جانا ہے۔ ’’صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘ (الزمر 39:11)۔ وھو شھرُ الصَّبرِ (مشکوٰۃ عن سلمان الفارسیؓ)۔ تیسری مطلوبہ صفت حاجت مندوں اور معاشرے کے غریب افراد کے ساتھ ہمدردی کی صفت کا پیدا کرنا ہے … وَشَھرُ المُواسَاۃِ (مشکوٰۃ عن سلمان الفارسیؓ)۔ یہ ہمدردی مالی بھی ہوسکتی ہے، غذا فراہم کر کے، لباس دے کر، حتیٰ کہ ایک ملازم پر سے اس کا بوجھ کم کرنے کی شکل میں بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اس مہینے میں غیرمعمولی طور پر آپؐ کی جود و سخاوت بارش لانے والی ہوائوں کو مات کردیتی تھی (متفق علیہ)۔ اس دوران آپؐ سے جو کچھ مانگا جاتا آپؐ انکار نہیں فرماتے تھے۔ (مسنداحمد)

رمضان اور احتساب
ان اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کی تربیت کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ ایک اور اہم پیغام بھی لے کر آتا ہے جو تمام عبادات اور معاملات کے مغز کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی جو بھلائی بھی کی جارہی ہے یا جس کے کرنے کی تربیت حاصل کی جارہی ہے اس کا محرک اصل میں کیا ہے۔ صادق الامین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من صام رمضان ایماناًواحتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘ (بخاری، حدیث 1901، مسلم، حدیث 175)۔ اگر غور کیا جائے تو یہ جامع قولِ حق و صداقت، یعنی ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے کا رکھنا روزے کی روح ہے اور رمضان سے قبل پیش آنے والے تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت۔ ان کا تجزیہ کرکے اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے کی تربیت ہے۔اس سلسلے میں وہ حدیث بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے جس میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : ’’قیامت کے دن اللہ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لے لیا جاتا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن مشاغل میں گزاری، دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، جسم کو کس کام میں گھلایا۔ (ترمذی،عن ابی برزۃ الاسلمی )

حضرت عمرؓ کے مشہور قول حاسبوا قبل ان تحاسبوا ’’احتساب کرو، قبل اس کے احتساب کیا جائے‘‘ اور رمضان کے روزے احتساب کے ساتھ رکھنے والی حدیث مبارکہ کی اہمیت تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے غیرمعمولی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس احتساب کے مختلف پہلوئوں پر اپنے ذہن کو تازہ کرتے ہوئے اس نسخۂ کیمیا کے ذریعے اپنی تمام بھول چوک کے لیے اس مبارک مہینے کے روز و شب میں رب کریم سے خصوصی استغفار، استعانت و نصرت کی طلب کے ساتھ کیا جائے، تاکہ بھول اور لغزش فیصلے کی ہو، ذاتی طور پر ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہو، انفاق فی سبیل اللہ میں کی گئی ہو، اپنی صلاحیتوں کو وقت پر استعمال نہ کرنے کی ہو، صحیح منصوبہ بندی نہ کرنے کی ہو یا پورے خلوص کے ساتھ ایک ایسا رویہ اختیار کرنے کی ہو جس کی توقع ایک داعی سے نہیں کی جاتی، کے اثرات نہ ہوں۔ غرض کہ ضرورت ہے کہ ماضی کے ہرہرعمل کے بارے میں خود احتسابی اور دیانت و امانت اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس رمضان کا استقبال کیا جائے۔

اس احتسابی عمل کا آغاز، ایک کارکن ہو یا ذمہ دار، اسے اوّلاً اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کی مہم میں چاہے وہ انتخابی مہم میں حصہ لینے کی شکل میں ہو، کیا وہ فرائض کی ادائیگی میں چاق چوبند رہا، یا اپنے خیال میں ایک بھلائی کے کام میں مصروف ہونے کے عذر نے اسے نمازوں میں سستی پر آمادہ کردیا؟ کیا اس کی زبان سے اس کا پڑوسی، حتیٰ کہ اس کا نظریاتی اور سیاسی مخالف محفوظ رہا اور اُس نے حق کا اظہار اس طرح کیا جیسے کہ قرآن نے سنت ِ رسولؐ کا تذکرہ کیا ہے کہ ’’دیکھو تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے شفیق اور رحیم ہے‘‘۔ (التوبہ 9:128)

داعی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا قول، قولِ لیّن ہو، اس کا میٹھا بول دل اور روح میں جاگزیں ہوجائے (طٰہٰ 20:44)۔ وہ مخالف کی تلخ کلامی، الزام تراشی، درشتی، غرض ہرہر غلط بات کا جواب مخالف کی زبان میں نہ دے بلکہ حکمت سے دے جس طرح ایک داعی کی زبان اظہار کرتی ہے۔ ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ (حم السجدہ41: 33-36)

ان اہم قرآنی ہدایات کی روشنی میں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہرشخص ذاتی طور پر اپنا احتساب کرے اور اس کے ساتھ ہرمسلمان، ہر پاکستانی اور تحریکِ اسلامی کا ہر کارکن موجودہ حالات کے تناظر میں اپنا، اپنے رویوں اور احساسات، اپنے مقاصد، اہداف اور سرگرمیوں کو، اور جو عہد اس نے اپنے اللہ سے کیا ہے اس کی روشنی میں احتساب کے ساتھ عزمِ نو کا عہد کرے، تاکہ رمضان کی برکتوں سے وہ خود بھی فیض یاب ہو اور ملک و ملت اور تحریک و دعوت کو بھی قوت حاصل ہو۔ یہ جائزہ جہاں دنیا، اُمت اور پاکستان کے عمومی حالات کی روشنی میں لیا جانا چاہیے وہیں خود تحریکِ اسلامی اس وقت جس مرحلے سے گزر رہی ہے اس کو سامنے رکھ کر یہ کام کیا جائے۔

ہم نے بات کا آغاز اس حدیث مبارکہ سے کیا تھا جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزوں کو رکھنے کی برکت، یعنی اللہ کی طرف سے مغفرت کا تذکرہ ہے۔ کسی بھی رابطہ عوام مہم میں جو مراحل پیش آتے ہیں وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ کسی بھی نظریاتی گروہ کو پیش آسکتے ہیں۔ ان میں سے چند پر غور کرنے کی ضرورت ہے:

1- وسیع پیمانے پر عوامی رابطہ مہم کا مقصد: اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس مہم کا مقصد کیا صرف حصولِ اقتدار تھا یا رضائے الٰہی کا حصول اور دین کے قیام کے لیے سلطہ کا حصول۔ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا o (بنی اسرائیل 17:80) ’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی تُو لے جا (مکہ سے مدینہ منورہ) سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں کہیں سے بھی نکال (مکہ مکرمہ سے) سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘۔

اقامتِ دین کی جدوجہد میں اقتدار بجائے خود نہ کبھی مقصود تھا نہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ دین کے نفاذ کا تشریعی ذریعہ ہے۔ قرآن کریم کے تمام احکامات کا نفاذ اسی ذریعے کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسلامی رفاہی اصولوں کا نفاذ ہو، یا زکوٰۃ کا نظام ہو یا نماز کا یا حج کا، ابلاغِ عامہ کے برقی ذرائع سے حیا، سچائی ، عدل و انصاف کے اصولوں کی تعلیم دینا ہو، یا تعلیم گاہ میں جدید علوم کی آگاہی، یا جداگانہ نظامِ تعلیم ہو، یا عدالتوں میں سچے، جری اور متقی قاضیوں کا تقرر ہو۔ اسی طرح اسلامی تعزیرات کا نفاذ ہو یا حدود پر عمل، ہر ایک کے نفاذ کے لیے سلطہ، اقتدار کا حصول دینی مطالبہ ہے جو نصوصِ قرآنی کی بناپر قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہے۔ رمضان مطالبہ کرتا ہے کہ اس فریضے کی ادائیگی کے حوالے سے ذاتی اور اجتماعی احتساب کیا جائے کہ رابطہ عوام مہم میں کہیں ذات اور قریب المیعاد مقاصد تو نہیں آگئے؟ کیا یہ صرف اور صرف ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے برپا کی گئی؟

2- مخاطب کی نفسیات و مسائل کا اِدراک: کیا عوامی مہم میں اس بات کو پیش نظر رکھا گیا کہ جن عوام الناس کو افہام و تفہیم کی تلقین کی جارہی ہے ان کے بنیادی مسائل بے روزگاری، تعلیم کا نہ ہونا، صاف پانی کا میسر نہ ہونا، جان مال اور عزت کا تحفظ نہ پایا جانا، ملک میں گرانی کی آفت کا پایا جانا، صحت اور زندگی کی سہولیات کا نہ پایا جانا، صنعت کاروں کا بجلی کی عدم موجودگی کے سبب کاروبار میں خسارہ اور عوام کا گرمی اور سردی دونوں میں پریشان ہونا…کیا اِن مسائل کے قابلِ عمل حل عوام کے سامنے پیش کیے گئے اور انھیں اپنے ساتھ شامل کیا گیا، یا ملاقاتوں اور اجتماعات میں نظری گفتگو اور حالات کی صرف منفی تصویر سامنے پیش کی گئی۔ اسلام اُمید کا نام ہے۔ نصرتِ الٰہی پر یقین کے ساتھ بہترین نتائج کی بشارت اور ان کے لیے کوشاں ہونے کا نام ہے۔ کیا ہم لوگوں میں اُمید اور حالات کے قابلِ تبدیل ہونے کا احساس پیدا کرسکے؟ کیا ملک کے عوام اور نوجوانوں پر طاری مایوسی کو ہم نے ایک الگ، مثبت اور قابلِ عمل منصوبہ پیش کرکے دُور کیا؟ یا ہم بھی منفی اور غیرتعمیری تنقید کے دائرے میں گھومتے رہے؟

3- مخالفین سے رویہ: کیا اس مہم کے دوران ہم نے مختلف الخیال افراد تک پہنچ کر انھیں حکمت، موعظہ حسنہ اور اپنی نرم گفتاری سے اپنے سے قریب کیا، یا انھیں مخالف اور محارب کے خانے میں دھکیل دیا۔ قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ کل تک جو ہمارا دشمن تھا ہم اسے اپنی بھلائی سے ولی حمیم (دلی دولت)میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی وضع کریں، اور پھر احتساب کریں کہ اللہ کی نصرت سے ہم کتنے مخالفین کو غیرجانب دار کرسکے۔ کتنے افراد کو تحریک کے ماحول میں لاسکے اور کتنے ہمدردوں کو سرگرم کارکن بناسکے۔ اگر رابطہ عوام مہموں میں صرف تین ایسے افراد سے رابطے قائم کرکے، جن میں سے ایک مخالف کو ہم خیال، ایک لاتعلق کو متعلق اور ایک متعلق کو کارکن بنانے کی حکمت عملی پر عمل ہو، تو پانچ نہیں ایک سال میں تحریک سے وابستہ افراد میں تین گنا اضافہ ہوسکتا ہے، اور اس طرح دعوتِ دین وسیع تر حلقے تک پہنچانے میں اپنا فرض ادا کرسکتے ہیں۔

4- اپنے گھر کی فکر: اس پہلو سے بھی احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوت کی اشاعت کے لیے جن جن محاذوں پر کام کیا، کیا ان میں گھر بھی شامل رہا ، اور اگر شامل رہا ہے تو کس حد تک ابلاغی خلا (communication gap) دُور کیا جاسکا۔ عام مشاہدہ ہے کہ نظریاتی طور پر بچوں پر اثرات کے باوجود بعض گھروں میں عوامی مہم ہو یا انتخابات کا معاملہ، والدین اور بچوں کے فیصلے حالیہ انتخابات میں یکساں نہیں رہے۔ اس میں جہاں یہ پہلو مثبت ہے کہ بچوں نے اپنی آزادیِ رائے کا استعمال کیا، لیکن کیا انھیں اچھے انداز میں ان کے فیصلے کے اثرات سے آگاہ کیا گیا؟

5- نوجوان قیادت: تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عصرِحاضر میں اسلامی تحریکات کے قائدین نے عمر کے جس مرحلے میں عوامی رابطے کا آغاز کیا وہ خود ان کا بھی دورِ جوانی تھا جس کی بنا پر نوجوانوں کو متحرک کرنے اور attract کرنے میں انھیں آسانی ہوئی۔ اس بات پر غور کرنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ عوامی رابطے میں جن افراد کو اُمیدوار نامزد کیا گیا، کیا وہ نوجوانوں کو اپیل کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے، یا ہماری توقع کے باوجود صحیح نتائج حاصل نہ کرسکے۔ تحریکات کی حیات کا انحصار نئے خون اور نئے ولولے، نئے زاویے، نئے طریقے تلاش کرنے والے ذہنوں کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ حکمت جس چیز کا نام ہے وہ محض علم سے حاصل نہیں ہوسکتی، نہ صرف تجربے سے اور نہ صرف عمر کی بزرگی سے۔ بعض نوعمر صحابہ کرامؓ خلفائے راشدین کی شوریٰ کے رکن تھے۔ بعد کے اَدوار میں بعض نے سندھ اور بعض نے اسپین اور چین پر یلغار کی، جب کہ ان کے بال سیاہ تھے۔ خود حضرت اسامہ بن زیدؓ کا فوج کی قیادت کرنا ایک سبق آموز مثال ہے۔ تحریک کو اپنی عوامی رابطے کی دعوتی مہم کے لیے ایسے نوجوانوں کو آگے بڑھانا ہوگا جو پاکستان کے 66فی صد نوجوانوں سے ان کی زبان میں بات کرسکیں۔ یہ ایک اہم اسٹرے ٹیجک معاملہ ہے اور اسے نظرانداز کرنا تحریک کے مستقبل کے لیے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔

6- انفاق فی سبیل اللہ: عوامی تحریکات میں دُوردراز علاقوں بلکہ مقامی اجتماعات کے لیے جو بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے اور انتظامی اُمور میں جو مالی وسائل درکار ہوتے ہیں، نظریاتی تحریکات اس کے لیے ہمیشہ اپنے کارکنوں پر بھروسا کرتی ہیں اور وہ خود یا دوسروں کے تعاون سے وسائل پیدا کرتے ہیں۔ یہی درست طریقہ ہے، لیکن اسے وسیع کیے بغیر آج کے دور کی ضروریات پوری نہیں کی جاسکتیں۔ اس بات کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہرکارکن نے مالی انفاق میں حصہ لیا؟ اور اگر لیا تو کس حد تک؟ کیا وہ ’ہلکے اور بھاری‘ گھر سے نکلا، یا انتظار میں رہا کہ جس رب کے لیے کام کیا جارہا ہے وہ خود سب کام کرکے اقتدار ہمارے حوالے کردے گا؟ کیا تمام ممکنہ قوتوں وقت، مال، صلاحیت کو لگاکر منزل کے حصول کی کوشش کی گئی؟ یا ضابطے کی کارروائی کے طور پر کام کیا گیا اور اُمید یہ کی گئی کہ ووٹر خود اپنا ووٹ لسٹ میں چیک کریں گے اور خود جاکر رائے کا استعمال کریں گے، جب کہ بہت سے اُمیدواروں نے ووٹرز کے لیے ہرمرحلہ خود آسان کر کے انھیں مدد فراہم کی۔

7- جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال: اس بات کے بھی احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم دین کی دعوت اور عوامی مہم میں کس حد تک برقی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا، مثلاً فیس بک یا ٹویٹر یا دیگر ویب کے ذرائع کو استعمال کرسکے، یا محض ’عرب بہار‘ کے خودبخود واقع ہوجانے کی اُمید پر قانع رہے۔ ہوسکتا ہے بعض حضرات کو یہ باتیں بعد از مرگ واویلا نظر آئیں لیکن میں سمجھتا ہوں تحریکات کسی ایک یا دو انتخابات میں نہ مستقلاً کامیاب ہوتی ہیں اور نہ مستقلاً ناکام۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے احتسابی عمل ایمان اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ہرمرحلے میں انھیں ہمت، حوصلہ اور اُمید سے روشناس کراتا ہے۔ تنقید ہمیشہ صحت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ بعض باتیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں، جب کہ ان میں ہمارے لیے خیر ہوتا ہے اور بعض اچھی معلوم ہوتی ہیں، جب کہ ان میں شر ہوتا ہے۔

ان چند گزارشات کا مقصد صرف سورئہ حم السجدہ کی آیات کی روشنی میں یہ جائزہ لینا ہے کہ کس طرح تحریک اُن افراد کو جو کل تک تحریک سے اختلاف کرتے تھے، آئندہ پانچ برسوں میں ایک جامع اور قابلِ عمل منصوبے کے ذریعے نہ صرف اپنا ہم خیال بلکہ اپنا جگری دوست بناسکتی ہے۔ اس معاملے میں شیطان بے کار نہیں بیٹھتا۔ اگر ہم 10گھنٹے دن میں کام کرتے ہیں تو وہ دن رات کے 24گھنٹے اپنی شرانگیزی میں لگاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ اللہ کی پناہ میں آیا جائے اور شیطان کے شر سے بچا جائے، اور اسی لیے کہا گیا کہ مخالف کی ضد، ہٹ دھرمی، تلخ کلامی، الزام تراشی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ بُرائی کو بھلائی سے دُور کیا جائے تو وہی جو کل تک مخالف تھا، سرگرم کارکن بن سکتا ہے۔

رمضان میں جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اس کے تمام ماضی کے گناہ، بھول، غیرشعوری طور پر غلطی سب کو رب کریم معاف کردیتا ہے۔ جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ جس نے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ رات کو قیام کیا اس کے نہ صرف ماضی بلکہ دو رمضانوں کے درمیان تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ اس ماہ کا ہر لمحہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے تعمیر سیرت، ضبط ِ نفس، عوام الناس کی خدمت، ناداروں اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے اور ملک و ملّت میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی کوششوں میں صرف کیا جائے، تاکہ یہ مہینہ قیامت میں ہماری شفاعت اور گواہی دے کہ ہم نے اس کا حق ادا کردیا۔