برطانوی اسکولوں کے بیرون ملک کیمپس

تعلیم کی تجارت،ثقافتی سامراجیت کو جنم دیتی ہے

برطانیہ کی تعلیم نہ صرف بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے بلکہ اب یہ تعلیم برطانیہ کی معیشت میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔ سالِ گزشتہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2022ء میں 680,000 طلبہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا، اور صرف ایک سال کی فیس کی مد میں تقریباً 26 ارب برطانوی پائونڈ انہوں نے ادا کیے۔ یہ اخراجات یا زرمبادلہ صرف فیس کی رقوم ہیں۔ رہائش، کھانے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ ہر سال برطانیہ میں طالب علموں کی ایک کثیر تعداد بیرونِ ملک سے آتی ہے، جس میں سے ایک معقول تعداد اپنے روزمرہ کے اخراجات اور فیس کی ادائیگی کے لیے ملازمت کرتی ہے، لہٰذا یہ طالب علم نہ صرف ایک کثیر زرمبادلہ اپنے ممالک سے لاتے ہیں بلکہ اس کے بعد برطانیہ کی معیشت کو آگے بڑھانے میں بطور مزدور بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اِس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی، ویزا فیس اور ہیلتھ سرچارج کے بعد ان طالب علموں کے لیے کچھ بچا کر اپنے ملک واپس لے جانا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ہر بڑی برطانوی یونیورسٹی اپنے ریونیو کو بڑھانے کے لیے پوری دنیا میں اپنے کیمپس کھول رہی ہے، اس وقت زیادہ تر جامعات نے خلیجی ممالک اور انڈونیشیا و ملائشیا کو اپنا ہدف بناکر وہاں اپنے کیمپس قائم کیے ہیں، اور یوں وہ اب بیرونِ ملک سے بھی ایک کثیر زرمبادلہ کماکر برطانیہ میں منتقل کررہی ہیں۔ اب یہ معاملہ یونیورسٹیوں سے آگے نکل کر اسکولوں تک پہنچ گیا ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق کوئی بھی تعلیمی ادارہ بشمول اسکول، کالج اور یونیورسٹی فلاحِ عام یا چیری ٹیبل ٹرسٹ کے سوا کام نہیں کرسکتا، یا عام فہم زبان میں تعلیم ایک فلاحِ عام کا میدان ہے لہٰذا اس میں کاروبار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں قائم ہونے والے غیر سرکاری یا نجی تعلیمی ادارے بھی چیری ٹیبل ٹرسٹ کے تحت ہی کام کرتے ہیں، یا اُن کا مالک کوئی فردِ واحد نہیں ہوتا۔ برطانیہ میں اسکول کی تعلیم گوکہ ہر فرد کے لیے مکمل مفت ہے اور یہ ریاست کی ذمے داری ہے، لیکن اس کے باوجود 2366 نجی اسکول بھی کام کررہے ہیں۔ ان نجی اسکولوں میں اشرافیہ کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اعلیٰ ترین مناصب پر پہنچنے والوں کی نصف سے زائد تعداد ان ہی نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہے۔ جبکہ ان نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ برطانیہ میں اسکول جانے والے طلبہ کی کُل تعداد کا محض 7 فیصد ہیں۔

برطانوی معاشرے میں گوکہ سماجی طبقات کے درمیان کش مکش کی صورت حال پاکستان جیسی نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر ریاست تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کی براہِ راست ذمے دار ہے، لیکن اس کے باوجود بھی طبقات کے درمیان کش مکش اب نسبتاً زیادہ ہے۔ برطانوی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کو بحیثیتِ مجموعی اشرافیہ کی نمائندہ جماعت تصور کیا جاتا ہے، جبکہ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کو مزدور اور مہاجرین کی نمائندہ جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گوکہ برطانوی سیاست اور ایوانِ اقتدار میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد مالی طور پر آسودہ حال یا سرمایہ دار ہے لیکن تاحال لیبر پارٹی کی پالیسیوں میں زیادہ جھکاؤ متوسط اور غریب طبقے کی جانب رہتا ہے۔

برطانیہ میں جامعات کے بیرونِ ملک کیمپس تو کمائی کا ایک ذریعہ تھے ہی، لیکن اب ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نجی یا وہ اسکول جو براہِ راست ریاست کے تحت نہیں ہیں انہوں نے اپنے کاروبار اور سرمائے میں اضافے کے لیے بیرونِ ملک اسکولوں کے کیمپس کھولنے شروع کردیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت 40 برطانوی اسکولوں نے بنگلہ دیش، بھارت، قازقستان، میانمر سے لے کر خلیجی ممالک اور مالٹا تک میں یہ عالیشان اسکول قائم کیے ہیں۔ ان اسکولوں کا مقصد رفاہی یا فلاحی کام انجام دینا نہیں بلکہ کثیر تعداد میں سرمائے کو ان ممالک سے جمع کرنا ہے۔ اس بات کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بنگلہ دیش میں قائم برطانوی اسکول کی سالانہ فیس 29000 برطانوی پائونڈ ہے جبکہ بنگلہ دیش میں فی کس شرح آمدن محض 2300 برطانوی پائونڈ سالانہ ہے۔ اس لحاظ سے اسکول کی فیس بنگلہ دیش کی فی کس شرح آمدن سے دس گنا سے بھی زائد ہے۔ برطانیہ میں قائم نجی اسکول کی اوسط فیس 17000 پائونڈ سالانہ ہے، اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں جہاں شرح آمدن برطانیہ سے بھی کئی گنا کم ہے، وہاں برطانیہ سے بھی زیادہ فیس وہ اسکول چارج کررہے ہیں جو ٹرسٹ کے تحت چل رہے ہیں یا ان کا نعرہ تعلیم ہے، کاروبار نہیں۔ برطانوی قانون کے تحت نجی اسکولوں کو ایک فیصد ایسے طالب علموں کو مکمل مفت داخلہ دینا ہے جوکہ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، اور ان کو اسکول میں تمام سہولیات مفت فراہم کرنے کے یہ اسکول پابند ہیں۔ اس کے برعکس بیرونی دنیا میں قائم برطانوی اسکول قانون کی اس پابندی سے بھی آزاد ہیں۔ اب جبکہ برطانوی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر تمام نجی اسکولوں پر ٹیکس عائد کرے گی، نجی اسکولوں کی مکمل توجہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بیرونِ ملک کیمپس کے قیام پر ہے، تاکہ وہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرسکیں۔ گزشتہ دس سال کے عرصے میں برطانوی اسکولوں کے بیرونِ ملک کیمپس میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کے سرمائے میں بھی حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 12-2011ء میں ان اسکولوں کے بیرونی دنیا میں کیمپس کی آمدن 3 ملین برطانوی پائونڈ تھی جو اب بڑھ کر 21-2020ء میں 29 ملین برطانوی پائونڈ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ ان اسکولوں نے اس سرمائے پر ٹیکس بچانے کے لیے صرف ایک سال میں 5 ملین پاؤنڈ بطور تحفہ یا امداد منتقل کیے۔ یہ سارا کام انجام دینے کے لیے ان برطانوی اسکولوں نے اپنے نام کو استعمال کیا اور بیرونی دنیا میں ٹرسٹ سے ملتے جلتے ناموں کی کمپنیاں رجسٹرڈ کروائیں تاکہ ان کے بیرونی ممالک کے کیمپس کا منافع ان کمپنیوں کے اکاؤنٹ میں محفوظ رہے اور ان کو کسی بھی طور پر برطانوی ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں برطانوی حکومت بھی منتقل نہ کرسکے۔ یہ اسکول نہ صرف اپنے نام کو بیرونی دنیا میں اب آسانی سے فروخت کررہے ہیں بلکہ فرنچائز کے ماڈل پر بھی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔

یہ عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ماڈل ہے جہاں نہ کسی اخلاقیات کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قانون کا۔ اب تعلیم اور صحت وہ بڑے شعبے ہیں جہاں خود کو مہذب کہلانے والے اور دنیا کو اخلاقیات، مساوات و قانون کا سبق پڑھانے والے دنیا بھر میں ایک عدم مساوات کی بنیاد رکھنے میں مشغول ہیں۔ حالانکہ ایسا استحصال تو خود ان کے ممالک میں بھی ممنوع ہے۔ ہوش ربا فیس، تعلیم کے نام پر کاروبار، اور ٹرسٹ کی جگہ خاندانی و افراد کے مالی مفاد… یہ سب مل کر دنیا کے مفلوک الحال غریب ممالک کی کمر توڑ رہے ہیں۔ اس تصویر کا ایک پہلو محض یہی نہیں کہ غریب ممالک کا بدترین استحصال کیا جارہا ہے بلکہ اس کے ثمرات یہ بھی ہوں گے کہ ان ممالک میں برطانوی نجی اسکولوں سے پڑھنے والے… جوکہ ان ممالک کے طلبہ کی کُل تعداد کا ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے… تمام اہم حکومتی، سیاسی، سفارتی اور عدالتی عہدوں پر براجمان ہوں گے۔ اس کے بعد دنیا میں کلچرل امپیریل ازم کے بعد اب ایجوکیشنل امپیریل ازم کے نئے باب کا آغاز ہوگا جس میں غریب کے لیے شاید مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔ اس عدم مساوات کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایسے کردار پیدا ہوں گے جوکہ اس نظام سے انتقام لینے کے لیے تشدد کا راستہ اپنائیں گے۔ لہٰذا اگر مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ دنیا میں مزید تشدد نہ پھیلے تو یہ ان کی بنیادی ذمے داری ہے کہ ایسے عوامل، پالیسیوں اور اقدامات کا سدباب پہلے اپنے پاس کریں، دنیا کو آگے بڑھانے کے لیے مساوات کے ساتھ ساتھ علم کے ہر ممکن یکساں مواقع فراہم کرنے کی کوشش کریں، ایسے اداروں پر کڑی پابندیاں عائد کریں جو غریب ممالک کے عوام کا استحصال کرکے نہ صرف غیر قانونی سرمایہ برطانیہ کے نام پر کما رہے ہیں بلکہ ان کے بیرونی ممالک کے اکاؤنٹ میں موجود کثیر سرمائے کو ان ہی ممالک میں تعلیم پر خرچ کریں تاکہ دنیا میں مزید شدت پسندی کو فروغ نہ ملے۔