گزشتہ 50 برسوں سے علم کے دیئے روشن کرنے میں سرگرم عمل ہیں!
کسی دانا کا قول ہے کہ ’’اچھے استاد سمجھاتے ہیں، عمدہ استاد کرکے دکھاتے ہیں، جبکہ عظیم استاد شاگردوں کو تخلیق پر ابھارتے ہیں‘‘۔ موخر الذکر صفت ہمارے مربی اور شفیق استاد سید علی اشرف پر پوری طرح صادق آتی ہے، جو والدین اور طلبہ کے حلقوں میں سر علی اشرف کے نام سے معروف ہیں۔ اجمالی قصہ یہ ہے کہ جب 2009ء میں ہماری بڑی صاحبزادی اریبہ اسرار اپنی تعلیمی منازل طے کرتے ہوئے نویں(سائنس) جماعت میں پہنچی (خیر سے اب اریبہ کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ کی فارغ التحصیل ہیں) تو ہمارے برادر نسبتی شیخ ظفر نے جو خود بھی ایک تجربہ کار، لائق استاد اورگھریلو اتالیق ہیں، ہمیں اس اہم مرحلے پر یہ قیمتی مشورہ دیا کہ اریبہ کو یا تو میں پڑھائوں گا، یا پھر سر علی اشرف پڑھائیں گے تاکہ اس کا تعلیمی مستقبل روشن ہوسکے۔کیونکہ نویں اور دسویں جماعت کا دور کسی بھی طالب علم کی تعلیمی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر طالب علم نویں اور دسویں جماعت کے اس مرحلے میں اپنے تعلیمی نتائج بہتر سے بہتر بنانے میں کامیاب ہوجائے تو اسے مستقبل میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پیشہ ورانہ تعلیم کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔ لہٰذا اس دو سالہ تعلیمی دور میں طلبہ کو بورڈ کے امتحانات میں شرکت کے لیے کسی منجھے ہوئے اور تجربہ کار استاد کی تعلیمی معاونت اور رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ ایک دن ظفر میاں نے ہماری محترم علی اشرف صاحب سے ملاقات کرادی، اور ہم تو پہلی ہی ملاقات میں نامور اور مخلص استاد سید علی اشرف کی تدریسی، علمی اور متاثر کن شخصیت کے گرویدہ ہوگئے، جو گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصے سے طلبہ کو زیورِ تعلیم اور تربیت سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں۔
درمیانہ قد، سنتِ نبوی سے مزین چہرہ، سیمابی فطرت کے مالک، بنیادی طور پر سائنس کے استاد سید علی اشرف جب کمرۂ جماعت میں طلبہ کو اپنے مخصوص اندازِ تکلم میں درس دیتے ہیں تو ان کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ علم کے متلاشی شاگردوںکے ذہن نشین ہوتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو طبیعیات، ریاضی اور کیمیا جیسے بے کیف مضامین اور انگریزی زبان کی عام فہم اور انتہائی متاثر کن انداز میں تعلیم دیتے ہیں۔ کیمیا توسید علی اشرف کا خاص مضمون ہے جس کے Subject Specialistکی حیثیت سے انہیںٖ اس مضمون پر بھرپور گرفت اور تجربہ حاصل ہے۔ سرعلی اشرف میں طلبہ کو پڑھانے، سکھانے اور تربیت فراہم کرنے کی خداداد صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔آپ اپنے شاگردوں کو نصابی کتابیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کا ایک کارآمد اور نیک فرد بنانے کے لیے ان کی اخلاقی و دینی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ آپ کے پڑھائے ہوئے اسباق کی مدد سے آپ کے شاگرد وں کی اکثریت میٹرک سائنس کے امتحانات میں ہمیشہ اعلیٰ گریڈ میں کامیابی حاصل کرتی چلی آرہی ہے۔
قصہ مختصر، ہم اپنی صاحبزادی اریبہ کو ٹیوشن کی غرض سے مسلسل دو برس تک سید علی اشرف کی درس گاہ واقع فردوس کالونی، ناظم آباد لاتے اور لے جاتے رہے، جس کے نتیجے میں ہماری صاحبزادی نےA1گریڈ میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ صاحبزادی کی دو گھنٹے کی تدریس کے دوران ہم سر علی اشرف کے سادہ سے مہمان خانے میں وقت گزاری کے دوران اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ذاتی کتب خانے سے بھرپور استفادہ کرتے رہے۔ آپ نے ہمارے ذوقِ مطالعہ کو بھانپتے ہوئے ہمیں اپنے دارالمطالعہ سے فیض یاب ہونے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ آپ ہمیں بڑی محبت اور خلوص سے نت نئی کتابیں مطالعے کے لیے پیش کیا کرتے تھے اور ان پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ دو سال کی طویل مدت کے دوران ہم نے سر علی اشرف کے کتب خانے میں موجود بے شمار تاریخی، مذہبی، سوانح حیات جن میں مختار مسعود کی آواز دوست، سفر نصیب، لوح قیام… مشتاق احمد یوسفی کی چراغ تلے، خاکم بدہن، آب گم، اور زرگزشت… بابا یحییٰ خان کی پیا رنگ کالا، کاجل کوٹھا اور شب دیدہ… سینئر پولیس افسر سردار احمد چودھری کی خودنوشت جہا ن حیرت… اورسفارت کار کیپٹن(ر) جمیل احمد خان کی سپاہ گری سے سفارت کاری تک سمیت کئی درجن کتابیں شامل ہیں،ایک ایک کرکے پڑھ ڈالیں،جس کے باعث ہماری معلومات اور علم میں خاصا اضافہ ہوا۔
کراچی کی فردوس کالونی ناظم آباد میں واقع یہ سادہ سا مکان علم کے متلاشیوں کے لیے ایک مینارۂ نورکی حیثیت رکھتا ہے، جہاں ایک شفیق معلم سید علی اشرف حصولِ علم کے لیے آنے والے طلبہ اوران کے والدین کے لیے مشعلِ راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
ہندوستان کے مردم خیز خطے بہار کے ایک نجیب الطرفین گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید علی اشرف نے فردوس کالونی کے اسی قدیم گھر میں 1951ء میں آنکھیں کھولیں۔ آپ نے سرکاری اسکول سے1966ء میں میٹرک سائنس، 1968ء میں انٹر سائنس، اور1970ء میں بی ایس سی کے امتحانات پاس کیے، اور 1971ء میں گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول لانڈھی نمبر1سے غیر تربیت یافتہ استاد کی حیثیت سے اپنے طویل ملازمتی دور کا آغاز کیا۔ آپ نے تدریسی ملازمت کے دوران ہی شعبہ تعلیم کی پیشہ ورانہ بیچلر آف ایجوکیشن(B.Ed) اور ماسٹر آف ایجوکیشن (M.Ed.) کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں کورنگی کے ایک سرکاری اسکول اور پھر گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جہانگیر روڈ، پٹیل پاڑہ میں33برس کے طویل عرصے تک اپنے شاگردوں میں علم کا نور بانٹتے رہے، اور 2011ء میں میجر ضیاء الدین عباسی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول ناظم آباد سے ٹائم اسکیل 19سے بطور سینئر سائنس استاد ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ سید علی اشرف کے درس و تدریس سے جنون کا یہ عالم ہے کہ آپ نے محض تدریسی عمل سے اپنا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے انتظامی عہدے ہیڈ ماسٹر اور ثانوی تعلیمی بورڈ کے اعلیٰ عہدوں پر اپنی ترقی کو قبول نہ کیا۔
سید علی اشرف کو حصولِ علم اور مطالعے سے جنون کی حد تک لگائو ہے۔ آپ کے ذاتی کتب خانے میں مختلف موضوعات پر ساڑھے چار ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، اور آپ آج بھی اپنی پنشن کی قلیل رقم میں سے ہر ماہ شائع ہونے والی تازہ ترین کتب خرید لیتے ہیں۔ جونہی انہیں کسی نئی کتاب کی آمد کی اطلاع ملتی ہے تو وہ پہلی فرصت میں سیدھا لبرٹی بکس، اردو بازار یا نیشنل بک فائونڈیشن کے دفتر جاکراس کتاب کوخرید لیتے ہیں۔ جب تک وہ نئی کتاب حاصل نہ کرلیں ان کی طبیعت میں قرار نہیں آتا۔ ان کے پسندیدہ مصنفین میں مختار مسعود، مشتاق یوسفی، قدرت اللہ شہاب، قرۃ العین حیدر، منظورالٰہی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اوربابا یحییٰ خان شامل ہیں۔ آج کل ڈاکٹر ابدال بیلا کی تصنیف سیرت پاکﷺ آپ کے زیر مطالعہ ہے۔ ان کے کمرۂ تدریس اور مہمان خانے کے چاروں طرف آہنی الماریوں اور شیلف پر جا بجا کتابیں ہی کتابیں سجی نظر آتی ہیں۔ سید علی اشرف اپنی کتابوں کو نہایت احتیاط، نفاست اور قرینے سے رکھتے ہیں۔ آپ کوئی بھی نئی کتاب خریدنے کے فوراً بعد اس پر خوبصورت انداز سے تحریر شدہ اپنے نام کی چٹ یا مہر لگاتے ہیں اور پھر اس کی حفاظت کے لیے اس پر شفاف پلاسٹک کا غلاف چڑھا لیتے ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی طرح کتاب کو بھی مناسب دیکھ بھال درکار ہوتی ہے،کیونکہ گرد اور دیمک کتاب کو کھا جاتی ہیں۔
سید علی اشرف کا گھر اُن کے شاگردوں کے لیے مرکزِحصولِ علم کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ پناہ گاہ کا بھی درجہ رکھتا ہے، جہاں سہ پہر سے رات گئے تک علم کے شیدائیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ سید علی اشرف اپنے گھر میں داخل ہونے والے ہر طالب علم کے لیے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ خود ہی بار بار دروازہ کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ بچوں کو واپس لینے کے لیے آنے والے والدین کی آمد پر بھی کسی قسم کی جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کیے بغیرتدریسی عمل روک کر بڑی خندہ پیشانی سے ان کے لیے بار بار دروازہ کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ 73 برس سے زائد عمر کے باوجود علاقے میں لوڈشیڈنگ کے باعث بجلی چلے جانے کی صورت میں آپ کسی شاگردکی مدد لیے بغیر خود ہی بھاری بھرکم جنریٹر چلاتے ہیں۔آپ اس قدر متحمل مزاج اور عاجزی کا پیکر ہیں کہ اس صورتِ حال کے باعث تدریسی عمل میں بار بار کے خلل کے باوجود آپ کی پیشانی پر بیزاری کی ایک شکن تک نہیں آتی۔
ماضی میں کراچی شہر میں کسی بھی واقعے کی بنا پر اچانک ہڑتال اور جلائو گھیرائو ایک عام بات تھی، جس کے باعث نامعلوم افراد اچانک کاروبار اور دکانیں بند کرا دیتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں پر ٹریفک معطل ہوجاتا اور گاڑیوں کی چہل پہل سے بھری سڑکیں یکدم ویران اور تاریکی میں ڈوب جاتی تھیں، جس کے باعث عوام میں سخت خوف و ہراس اور افراتفری پھیل جاتی تھی۔ لیکن اس ناگہانی صورتِ حال کے باوجود سیدعلی اشرف کے گھر میں قائم درس گاہ میں جاری تعلیمی سلسلے میں کسی قسم کا کوئی خلل واقع نہ ہوتا تھا۔ شہر کے مختلف دور دراز علاقوں سے شاگردوں کے والدین کی جانب سے آنے والی پریشان کن اور گھبرائی ہوئی ٹیلی فون کالز کے جواب میں وہ بڑے سکون اور اطمینان سے پریشان حال والدین کی نہ صرف دلجوئی کرتے بلکہ ہمت بندھاتے ہوئے کہتے ’’آپ بالکل بے فکر رہیں! میں بھی تو ان بچوں اور بچیوں کا باپ ہوں، یہ ان کا بھی اپنا گھر ہے، جب تک حالات بہتر نہ ہوں، براہِ کرم بچوں کو لینے کے لیے تشریف نہ لائیے گا‘‘۔ اس مخدوش صورتِ حال میں آپ اپنے شاگردوں میں ڈر و خوف اور پریشانی کی کیفیت ختم کرنے اور ان کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے انہیں سبق آموز اور شگفتہ واقعات سنا سناکر ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیا کرتے تھے۔
سید علی اشرف اپنے پیغمبری پیشے سے جنون کی حد تک مخلص ہیں،اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی ہے۔
آپ ہر معاملے میں نفاست اور اعلیٰ ذوق کی حامل شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ کے پاس درس و تدریس میں استعمال ہونے والے ہر قسم کے کاغذ و قلم، ضروری مدد گار آلات، سائنسی آلات، عمدہ معیاری قسم کے قیمتی اور نایاب رنگ برنگے قلم، پنسل، مسطر، ربر، زاویہ پیما اور پرکاروں وغیرہ کا وسیع انتخاب اور ذخیرہ موجود ہے۔
سر، سید علی اشرف نے کبھی روپے پیسے کو اپنی مجبوری اور ضرورت نہیں بنایا۔ آپ توکلت علیٰ اللہ پر یقین رکھنے والے اور مثالی کردار کے استاد ہیں جو والدین کو اپنی واجبی سی تدریسی فیس بھی بڑے انکسار کے ساتھ بتاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تقریباً 50 برسوں سے نوجوان نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے والے اس بے لوث اور عظیم استاد کے پاس اب تک اپنی کوئی ذاتی سواری تک موجود نہیں ہے۔ چنانچہ آپ آمد ورفت کے لیے اکثر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں، اور اگر اہلِ خانہ ساتھ ہوں تو بحالتِ مجبوری رکشہ جیسی سواری استعمال کرتے ہیں۔
سید علی اشرف کی ذاتی توجہ اور لگن کی بدولت اُن سے علم کی دولت حاصل کرنے والے بے شمار طلبہ آج ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر پیشہ ورانہ ماہر کی حیثیت سے ملک اور بیرون ملک اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ ان میں ایک قابلِ فخر طالب علم حافظ محمد احمد، پی ایچ ڈی ہیں جو اُم القریٰ یونیورسٹی،مکہ معظمہ میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ کی رائے میں رائج نظام تعلیم اور نصاب ہماری نئی نسل کو ایک اچھا انسان، مسلمان اور پاکستانی بنانے میں مکمل ناکام ثابت ہوا ہے۔آپ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں اکثر والدین اور اُن کے بچوں کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے مستقبل میں ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیشنل بنیں، لیکن افسوس وہ اچھا انسان بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کرتے، جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
سید علی اشرف دورانِ تدریس اپنے شاگردوں کو سوال کرنے کی ترغیب دیتے اورتجسس پیدا کرنے پر اکساتے ہیں۔آپ کے خیال میںبچوں میں دورانِ تعلیم سوال کرنے اور تجسس کا جذبہ ابھارنا بے حد ضروری ہے۔اس سلسلے میں وہ انگریزی زبان کے حروف پانچ W پر زور دیتے ہیں، یعنی what, why, where, when اورwho۔ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے آپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ میری رائے میں علم کے حصول کے دوران بچوں کو اپنے والدین اور اساتذہ سے سوالات ضرور کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں آپ ایک امریکی ماہر طبیعیات اور سائنس دان پروفیسر Julius Sumner Miller (1909-1987) کاحوالہ دیتے ہیں جو 1963ء سے1986ء تکABC ٹیلی ویژن پر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں نشر ہونے والے بچوں کے تعلیمی سائنسی سلسلےWhy is it so? کے معروف پیش کار تھے۔ پروفیسر Julius Sumner Miller اپنے ایک معروف زمانہ لیکچر ’’تو آپ سائنس داں بننا چاہتے ہیں؟‘‘ میں اپنے طلبہ کو اکثر یہ نصیحت کیا کرتے تھے:
Plague yourself with the question Why?
Why is the sky blue?
Why the sunset red?
Why do the clouds stay up in the sky?
Who does a brook gurgle?
Learn to ask questions,beyond the pale of the book and the classroom.
یہ حقیقت ہے کہ آج غیر معیاری تعلیم کے دور، اور زوال پذیر معاشرے میںسر، سید علی اشرف جیسے تجربہ کار، مخلص اور شفیق استاد عنقا ہیں اورطلبہ کے لیے آپ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں۔