بہتر مستقبل کی تلاش:یورپ جانیوالے کشتی کے حادثے کا شکار ہوگئے

ایک سروے کے مطابق حیران کن طور پر اٹلی جانے والے90 فیصد افراد انسانی اسمگلروں کے ذریعے ہی وہاں پہنچے ہیں

پاکستان کی معیشت کئی سال کی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب شدید گراوٹ سے دوچار ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں اور مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بینکوں کی جانب سے ایل سی نہ کھولنے کے سبب صنعتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور روز کارخانے بند ہورہے ہیں۔ ملک میں خراب ہوتی اس معاشی صورت حال کے پیش نظر نوجوان اپنی معاشی حالت کے سدھار اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے جان خطرے میں ڈال کر غیرقانونی راستے اختیار کرکے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال انتہائی شرمناک ہے اور ہمیں مایوسی کا شکار کردیتی ہے۔ کوئی بھی اپنے ملک کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا لیکن غربت، لاقانونیت اور بھوک لوگوں کو ہجرت پر مجبور کردیتی ہے۔ بیرونِ ملک رہنے والے یہاں اپنے خاندان کو ایک شاہانہ طرزِ زندگی فراہم کرتے ہیں جو نئے لوگوں کو اپنی قسمت آزمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پاکستان سے ہر سال چالیس ہزار افراد غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسمگلر پاکستان میں محدود مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیںکہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا متبادل ہے جو مقامی افراد کی زندگی اتنی تیزی سے بدل سکے! یہ افراد خواب سجاکر آنے والوں کے لیے آئیڈیل ہیں۔ تمام حادثات کے باوجود ایک سروے کے مطابق حیران کن طور پر اٹلی جانے والے 90 فیصد افراد انسانی اسمگلروں کے ذریعے ہی وہاں پہنچے ہیں۔ ہر سال غیرقانونی تارکین وطن کو یورپ لانے والوں کے 40 ہزار ٹرپ ہوتے ہیں۔ اسپین نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ ملک میں دو سال سے رہنے والے وقتی رہائش اور باضابطہ طور پر ملازمت پیشہ افراد کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اٹلی نے بھی ایک اسکیم کا اعلان کیا اور غیرقانونی تارکین کو قانونی طور پر ملک میں رہائش کی اجازت دینے کا قدم اٹھایا تھا، جس کے بعد 2006ء اور 2020ء میں ایجنٹ کے ذریعے گئے لوگوں کے پاس قانونی طور پر وہاں کام کرنے کا حق حاصل ہے اب وہ ماہانہ 12 لاکھ روپے تک گھر بھیج دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو اسپین جانے کی کوشش میں ترکی سے کئی مرتبہ ڈی پورٹ ہوچکے ہیں اور اب تک لاکھوں روپے گنوا بھی چکے ہیں۔ مکسڈ مائیگریشن سینٹر کے 2022ء کے سروے کے مطابق یورپ میں تقریباً 2 ملین پاکستانی ہیں۔ جنوبی ایشیائی ملک سے آنے والوں کے لیے اٹلی پسندیدہ ملک ہے۔ زیادہ تر اسمگلر غیر قانونی طریقوں سے آنے والوں کو یورپ لے جانے کے لیے ایران، ترکی اور یونان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

حادثے کے بعد تین مبینہ انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا گیا، جن میں دو پاکستانی اور ایک ترک شہری ہے۔ پاکستان کی معیشت شدید گراوٹ سے دوچار ہے، نوجوان نسل بہتر زندگی کی خاطر بیرون ملک روزگار کے لیے جن راستوں کا انتخاب کرتی ہے اُن میں یہ راستہ بھی شامل ہے۔ کشتی حادثے کا شکار ہونے والوں میں گجرات کے محمد ندیم بھی شامل تھے۔گجرات سے روزگار کے لیے بیرونِ جانے کے خواہش مند نوجوانوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، 1960ء کی دہائی میں یہاں کے ایک لاکھ سے زائد افراد اُس وقت بیرون ملک گئے تھے جب انہیں برطانوی کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کے لیے بطور مزدور برطانیہ بلایا گیا تھا۔ بیرون ملک جاکر غیر ملکی کرنسی میں کمانے والے نوجوان اپنے گھر کی قسمت بدل دیتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی مزید نوجوان بھی باہر جانے کے خواب سجانے لگتے ہیں۔ اپنے خاندان کو غربت سے نکالنے والے ان نوجوانوں میں سے لاتعداد اپنے اہلِ خانہ کو بھی قانونی طریقوں سے باہر بلا لیتے ہیں اور پھر وہیں زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ پہلے بیرونِ ملک جانے کا طریقہ کار اتنا مشکل نہ تھا لیکن 9/11 کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک میں بے انتہا سخت پابندیاں عائد کردی گئیں جس سے انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کی چاندی ہوگئی۔ آج گجرات شہر اور اس کے نواحی علاقے ایجنٹوں کا گڑھ تصور کیے جاتے ہیں جو بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند لوگوں کو زمین، سمندر یا فضا کے راستے بیرونِ ملک بھیجتے ہیں۔ ندیم جب اپنے گھر سے نکلے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ ان کے بخیریت یورپ پہنچنے کی دعا کریں۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ اعتراض کرتیں، ندیم وہاں سے روانہ ہوگئے۔ دوسرے نوجوان علی حسنین تھے، ان کے اہلِ خانہ کے مطابق دونوں نوجوان گزشتہ ماہ لیبیا سے یورپ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے لیکن کشتی خطرناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ ندیم کی والدہ کوثر بی بی کے مطابق ’’جب یہ خبر ملی تو ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے سر پر آسمان گر پڑا ہو، میں یہ درد برداشت کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ جہاں ایک طرف ندیم کی والدہ اپنے بیٹے کی موت پر صدمے میں تھیں، وہیں دوسرے کمرے میں ان کی اہلیہ شدتِ غم سے نڈھال تھیں۔40 سالہ ندیم پر ایک بیوی کے ساتھ تین بیٹوں کی بھی ذمہ داری تھی، لیکن وہ فرنیچر کی دکان میں کام کرتے ہوئے یومیہ 500 سے ہزار روپے دیہاڑی کما پاتے تھے، اور اسی پریشانی سے نکلنے کے لیے انہوں نے بیرونِ ملک جانے کا فیصلہ کیا، اور چند ہفتے قبل دبئی، مصر اور لیبیا کے راستے اٹلی کے لیے روانہ ہوئے۔ انہیں خوشی تھی کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔ ایجنٹ کو 22 لاکھ کی رقم کی ادائیگی کے لیے قرض کا انتظام کیا، انہیں یقین تھا کہ آرام دہ سفر ہوگا۔ انہیں بتایا گیا کہ اِن دنوں سمندر قدرے پُرسکون ہے اور کسی بھی قسم کی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ ندیم اور حسنین کی آخری گفتگو سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شاید وہ ایک کشتی میں نہ تھے لیکن ایک ویڈیو میں ان دونوں کو ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایجنٹ کی جانب سے ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں ان دونوں کو ایک درجن کے قریب دیگر ایشیائی باشندوں کے ساتھ ایک کمرے میں کمبل پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک شخص کو پوچھتے سنا جا سکتا ہے کہ کیا آپ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں اور کوئی آپ کے ساتھ زبردستی تو نہیں کررہا؟ اس پر یہ تمام افراد ایک آواز ہوکر جواب دیتے ہیں کہ کسی نے ہمیں مجبور نہیں کیا اور اِن شاء اللہ ہم اٹلی پہنچیں گے۔

جنوبی اٹلی میں غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں مرنے والی سابق پاکستانی ہاکی اسٹار شاہدہ رضا بھی شامل تھیں۔ شاہدہ رضا نے 2012ء اور 2013ء میں پاکستان کی خواتین ہاکی ٹیم کے ساتھ بین الاقوامی چیمپئن شپ میں حصہ لیا تھا اور ایک موقع پر انہیں ٹیم کی ’جان‘ قرار دیا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں پے درپے پیش آنے والے سانحات کی وجہ سے شاہدہ رضا مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے تین سالہ بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے اس کا علاج کروائیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں پیسے اور موقع کی اشد ضرورت تھی۔ پاکستان میں ان کے لیے راستے بند ہوگئے تھے اور وہ اپنے بچے کو گھر پر چھوڑ کر ترکی چلی گئیں۔ وہ لکڑی سے بنی اس بدقسمت کشتی پر سوار ہوئیں جس میں تقریباً ڈیڑھ سو افراد موجود تھے۔ وسطی بحیرہ روم کا یہ راستہ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والے افراد استعمال کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے ہلاکت خیز سمندری راستہ ہے۔ شاہدہ رضا نے کشتی میں سوار ہوتے ہوئے اپنے گھر بات بھی کی۔ شاہدہ خاندان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھیں۔ اس المناک واقعے سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے اتوار کی صبح ساڑھے چھ بجے انہوں نے گھر بات کی تھی اور بتایا تھا کہ وہ ٹھیک ہیں اور کشتی پر ہیں۔ کشتی جس میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے، سمندری طوفان کے باعث زیرآب چٹان سے ٹکرا کر ٹوٹی اور ڈوب گئی۔ مرنے والوں کی لاشیں، جوتے اور دوسرا ملبہ طویل ساحل پر پہنچ کر پھیل گیا۔ اس المناک حادثے میں 70 کے قریب افراد کی موت ہوئی۔ شاہدہ کی لاش اٹلی میں مقیم ایک جاننے والے کی مدد سے تلاش ہوئی۔ تصویروں اور ایک قیمتی لاکٹ جو ابھی تک ان کے گلے میں تھا، اس کی مدد سے ان لاش کی شناخت کی گئی۔ شاہدہ رضا نے 2003ء میں ہاکی کھیلنا شروع کیا تھا۔ وہ 2019ء تک پیشہ ورانہ مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد کوچنگ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ بیٹے کی بیماری، طلاق اور بے روزگاری نے انہیں بدل کر رکھ دیا تھا، وہ خاموش رہنے لگی تھیں اور اکیلے رہنا پسند کرتی تھیں۔شاہدہ رضا نے حکومت اور پاکستان اسپورٹس فیڈریشن سے مالی مدد کی اپیل کی تھی۔ وہ ملک کے بڑے ہسپتالوں میں گئیں، لیکن ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے بیٹے کو جو مرض لاحق ہے اس کا پاکستان میں کوئی علاج ممکن نہیں۔ اس کے بعد شاہدہ نے یورپی ملکوں کے ہسپتالوں میں اپنے بیٹے کے علاج کے امکانات دیکھنے کا عزم کرلیا۔انہوں نے بیٹے کے علاج کو زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور اسی مشن کی تکمیل میں جان دے دی۔