قبائلی اضلاع بنیادی سہولیات پانی، بجلی اور گیس سے بھی محروم ہیں، امن و امان بھی ناپید ہے
آج سے پانچ سال قبل قبائلی اضلاع کو صوبہ خیبرپختون خوا کے بندوبستی علاقوں میں ضم کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انضمام کے نتیجے میں نہ صرف ان کی باقی ملک سے مخصوص دوری اور تنہائی کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ یہ انضمام ان کے لیے جادو کا ایسا چراغ بھی ثابت ہوگا جسے رگڑتے ہی تمام قبائل کی قسمت پلک جھپکتے میں بدل جائے گی۔ لیکن آج قبائل جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے وہ یہ سوچنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ انضمام کے نام پر ان کے ساتھ محض دھوکا ہی نہیں کیا گیا بلکہ انضمام کے وقت ان سے کیے گئے وعدوں اور اعلانات کا بھی حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ دراصل انضمام کا یہ فیصلہ ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب قبائل اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل تھے اور بے سروسامانی کی حالت میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے تھے، اس لیے انضمام کے وقت قبائل کی جانب سے خواہش کے باوجود کوئی ایسی اجتماعی آواز نہیں اٹھ سکی تھی جس میں حکومت اور مقتدر قوتوں سے انضمام کے نتائج کے حوالے سے کچھ ضمانتیں مانگی جاتیں۔
انضمام کے حوالے سے یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے لیے بہت عرصے سے تانے بانے بُنے جارہے تھے، اور قبائلی علاقوں میں طالبانائزیشن اور عسکریت پسندی کا فروغ دراصل اسی سلسلے کی ایک منظم کڑی تھی۔ اس سلسلے میں بعدازاں اگر ایک طرف مختلف فوجی آپریشن کیے گئے تو دوسری جانب ان ہی آپریشنوں کو جواز بناکر قبائل کو اپنے علاقوں سے بے دخل کیا گیا، اور جن سرکردہ لوگوں کی جانب سے انضمام کی دوٹوک مخالفت کا اندیشہ تھا انہیں بھی مختلف ہتھکنڈوں سے رام کیا گیا، اور جو سر جھکانے یا سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے انہیں مختلف طریقوں سے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ یاد رہے کہ انضمام کے وقت قبائل کو نہ صرف کئی سہانے خواب دکھائے گئے تھے بلکہ ان کے ساتھ ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کے علاوہ قبائلی علاقوں میں دوجامعات، میڈیکل کالج، اور ہرضلع میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے ساتھ ساتھ تمام قبائلی اضلاع کو باہم مربوط کر نے کے لیے باجوڑ سے جنوبی وزیرستان تک ایک مرکزی شاہراہ اور ان علاقوں کو قریب کے بندوبستی اضلاع کے ساتھ رابطہ سڑکوں کے ذریعے منسلک کرنے کے وعدے کیے گئے تھے۔ اسی طرح قبائلی نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور تعلیم وصحت کے بہترین مواقع ان کی دہلیزپر ہی فراہم کرنے کی یقین دہانیاں بھی کرائی گئی تھیں، لیکن پچھلے پانچ سال اس بات پر گواہ ہیں کہ ان کے ساتھ ایک وعدہ بھی ایفا نہیں کیا گیا، بلکہ الٹا ٹی ٹی پی کو آزادی دے کر اسے قبائلی علاقوں میں دوبارہ مسلط کرنے کا پراجیکٹ سامنے آنے کے بعد قبائل کا غصہ اور ناراضی ناقابلِ فہم نہیں ہے۔
افغانستان میں حالات کی تبدیلی اور وہاں بھارت نواز حکمران ٹولے کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ اس بڑی تبدیلی سے اب پاکستان اور بالخصوص قبائلی اضلاع میں امن وامان کا مسئلہ مستقلاً حل ہوجائے گا، لیکن گزشتہ چند ماہ سے مختلف قبائلی اضلاع میں شدید بدامنی اور قتل وغارت کی جو لہر سامنے آئی ہے اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کرتے ہوئے قبائل کے اضطراب اور بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ قبائل کے ساتھ روا رکھے جانے والے سوتیلے سلوک کا اندازہ جہاں ان علاقوں میں بدامنی کی تازہ لہر سے لگایا جاسکتا ہے، وہیں قبائل علاقوں کو اکیسویں صدی میں بھی پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس، سڑکوں، روزگاراور صحت وتعلیم کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھے جانے سے بھی قبائل کا احساسِ محرومی بڑھتا جارہا ہے جس کا فائدہ اگر ایک طرف انضمام مخالف عناصر انضمام کے خلاف پروپیگنڈے اور احتجاج کی صورت میں اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب اس سے غیرملکی پاکستان دشمن قوتیں بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں، جب کہ تیسری جانب اس صورتِ حال کا براہِ راست اثر انضمام کے حق میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے والی سیاسی قوتوں کی بدنامی اور انہیں دیوار سے لگانے کی کوششوں کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ قبائلی علاقوں کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لیے وجود میں لائے جانے والے اداروں کو بھی صوبے کے بندوبستی علاقوں میں ضم کردیا گیا ہے، حالانکہ ان اداروں، ان کے وسائل اور یہاں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی خدمات ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے بروئے کار لائی جانی چاہیے تھیں، لیکن بندوبستی اضلاع کے اداروں اور افسرانِ بالا نے ان وسائل کو شیر مادر سمجھ کر جس بے دردی اور ڈھٹائی سے ہڑپ کیا ہے اس کے منفی اثرات اور نقصانات قبائل کو بے پناہ مسائل کی شکل میں بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
آپ یہ جان کر یقیناً حیران ہوں گے کہ دوردراز کے قبائلی علاقے تو ایک طرف… پشاور، چارسدہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے قریبی ملحقہ قبائلی اضلاع بھی پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس بات میں کوئی شک اور دو آراء نہیں ہیں کہ انضمام کا مقصد ایک کروڑ قبائل کو قومی دھارے میں لاکر انہیں بھی ملک کے ترقی یافتہ شہری علاقوں کے برابر لانا تھا، لیکن قبائل کے حوالے سے اب تک نہ تو ہمارے مقتدر اداروں اور نہ ہی سول اداروں کے سرخیلوں کو قبائل کے زخموں پر مرہم رکھنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ قبائل کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی ایک مثال پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں 24گھنٹوں میں صرف دوگھنٹوں اور وہ بھی وقفے وقفے سے بجلی کی ترسیل ہے۔ بجلی کا براہِ راست تعلق چونکہ فراہمی آب اور گھریلو ضروریات مثلاً ریفریجریٹر،لائٹنگ، پنکھوں کے استعمال سے ہے، اس لیے بجلی سے محروم رکھنے کے خلاف قبائل میں مسلسل غم وغصہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی ایک جھلک چند دن پہلے پاک افغان طورخم شاہراہ پر مقامی قبائل کی جانب سے جمرود گرڈ اسٹیشن کاگھیرائو اور تین روز تک جاری رہنے والے شدید احتجاج کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اسی طرح چند روز قبل جماعت اسلامی بھی نشتر ہال پشاور میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی زیر صدارت عظیم الشان ’’حقوق قبائل کانفرنس‘‘ کے انعقاد کے ذریعے ایک سلسلہ وار احتجاجی تحریک کا اعلان کرچکی ہے جس کا آغاز باجوڑ سے ہوگا اور جسے بعد ازاں مہمند، خیبر،کرم، ہنگو، جنوبی اور شمالی وزیرستان تک منظم انداز میں توسیع دی جائے گی۔ اسی طرح ضلع خیبر کے عوام کی جانب سے پشاور کی سرحد پر واقع بی آر ٹی بس سروس، سوئی گیس اور ضلع خیبر سے ملحقہ حیات آباد کو ضلع خیبر کی تحصیل جمرود، اور باڑہ کو فیز7اور فیز6 کے ذریعے پشاور سے لنک کرنے کے جائز مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے جس سے مقامی قبائل یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اگر قبائلی علاقوں کی ایف سی آر کے سیاہ اور ظالمانہ نظام سے جان چھوٹ چکی ہے تو پھر اُن کی ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے گلوخلاصی کیوں نہیں ہورہی ہے؟ اور ان مسائل پر متعلقہ فورمز کی جانب سے کوئی قابلِ عمل توجہ کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ اس ضمن میں جمرود سے ورسک کے درمیان مرکزی رابطہ سڑک اور ضلع مہمند کو پشاور، چارسدہ، خیبر، باجوڑ اور دیر پائین کے قریبی اور ملحقہ اضلاع سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پچھلے کئی سال سے کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہے۔ اسی طرح ضلع خیبر سے محض چند گز کے فاصلے پر حیات آباد، کارخانو مارکیٹ اور حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں سوئی گیس اور بجلی کی بلاتعطل موجودگی کے باوجود پشاور کے ساتھ واقع ضلع خیبر اور اس کی دو تحصیلوں جمرود اور باڑہ کو ان دونوں بنیادی ضروریات سےدیدہ دانستہ محروم رکھا جارہا ہے۔
یہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ قبائلی اضلاع میں بے تحاشا قیمتی معدنیات کے علاوہ یہاں زراعت، باغبانی،گلہ بانی، مگس بانی، مرغ بانی، قیمتی جنگلات اور سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ان علاقوں میں چھوٹے صنعتی زون اورگھریلو صنعتوں کے قیام کے علاوہ افغانستان کے ساتھ بارہ سے زائد سرحدی پوائنٹس کومقامی آبادی کے کاروبار اور دوطرفہ آمد ورفت کے لیے کھولا جائے اور قبائل کے لیے دو طرفہ آمد و رفت کو پاسپورٹ، ویزے اور دیگر سفری دستاویزات سے مبرا قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف قبائل کو بہتر روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے بلکہ اس سے پاک افغان تعلقات میں بہتری کے ساتھ سا تھ قبائل کے احساسِ محرومی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔