معیشت کی ڈوبتی کشتی اور آئی ایم ایف کی نئی سخت شرائط

وقت سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل رہا ہے

آج ملک کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، جو ماضی میں اپنی مرضی کے فیصلے کرتی تھی آج وہ ماضی کی اپنی طاقت کھو چکی ہے۔ ملک میں عام انتخابات کا ہونا نہ ہونا بھی اسی سے مشروط ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی، جمہوری نظام کیا بے لگام ہوجائے گا، بالکل ہی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا، یا کوئی ’’مثبت‘‘ تبدیلی آسکتی ہے؟ جب یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ مثبت تبدیلی ہوگی تو ملک میں انتخابات بھی ہوجائیں گے۔ انتخابات کی تاریخ کا دینا نہ دینا یہ سب کہانیاں ہیں۔ مستقبل کا سیاسی نقشہ کچھ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر مل بیٹھیں۔ ملکی معیشت کیسے مستحکم کرنی ہے یہ رولز آف گیم طے کرنے کے بعد ہی انتخابات ہوں گے۔ جہاں تک پہلے احتساب اور پھر انتخاب کی بات ہے، یہ بھی اسی کوشش کا حصہ ہے کہ کمزور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کی ’’ضمانت‘‘ لی جائے اور شرائط طے کی جائیں۔ دوسری جانب بھی ایک کوشش ہورہی ہے کہ سیاسی میدان کے شہسواروں کے تمام کرتوت سامنے لائے جائیں تاکہ ان کی بارگینگ پوزیشن نیچے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ توشہ خانہ کی تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں، اس کے لیے پہلے ’’خاموش سیاسی مجاہدوں‘‘ کے حلقوں سے کام لیا گیا اور ان کے ذریعے مطالبات کیے گئے کہ توشہ خانہ کی ماضی کی تمام تفصیلات سامنے لائی جائیں۔ لہٰذا پہلے مرحلے میں 21 سالہ ریکارڈ سامنے لایا گیا ہے۔ توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور، سابق وزرائے اعظم، وفاقی وزراء اور سرکاری افسران شامل ہیں۔ جو ریکارڈ سامنے لایا گیا ہے اس کے تحت پرویزمشرف، آصف علی زرداری، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، نوازشریف، راجا پرویز اشرف اور عمران خان سب اس حمام ننگے ہیں، کوئی گھڑی لے اڑا اور کسی نے چاکلیٹ تک نہیں چھوڑی۔ توشہ خانہ کی تفصیلات سامنے آجانے پر ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ مفتیانِ کرام نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے۔ یہ سب چیزیں ایک ساتھ جوڑ کر پڑھی اور سمجھی جائیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ملک کا سیاسی نقشہ کیا ہوسکتا ہے۔ تفصیلات کا سامنے لایا جانا اور فتویٰ بھی آجانا کوئی بلا سبب نہیں ہے۔ اب مطالبہ سامنے آئے گا کہ پارلیمان اس بارے میں قانون سازی کرے، اور دوسرا مطالبہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے بلاقیمت یا کم قیمت دے کر تحائف لیے ہیں انہیں عوامی نمائندگی کے کسی بھی منصب کے لیے نااہل کیا جائے، یا ان سے رقم وصول کی جائے، یا تحائف واپس لیے جائیں۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے بیانیوں اور ان کے دعووں کی گردن ہاتھ میں آسکتی ہے۔ بیانیے اور سیاسی مقبولیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جو اس وقت مقبول ہے، جواب دہی نہ کرسکے تو غیر مقبول ہی ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) پہلے کہتی تھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، اب کہہ رہی ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچانے کے لیے آگے آئے ہیں، لہٰذا مزید وقت دیا جائے۔ اس وقت یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پارٹی میں یکسوئی نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن)کے اس بیانیے کی ٹھوس وجہ یا منطق نظر نہیں آرہی۔

آئی ایم ایف کا پروگرام ابھی بحال نہیں ہوسکا اور اُس کی شرائط مزید سخت ہوتی جارہی ہیں۔ حالات ایسے ہی رہے تو جون میں پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا جس کی شرائط مزید سخت ہوسکتی ہیں، اور مشکل فیصلوں کا ہدف غریب طبقہ ہی ہوگا۔ ملک کی اشرافیہ تو ڈالر چھپا کر بیٹھی ہوئی ہے، اُسے کوئی غم اور فکر نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) کسی موقع کی تلاش میں ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کرسکے، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ملک کے معاشی حالات جس جانب لڑھک رہے ہیں اس میں مقبول اور غیر مقبول کا کھیل تو کیا، سرے سے ان کی سیاست کا نام و نشان ہی مٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس وقت متعدد آپشنز پر کام ہورہا ہے، انتخابات بھی ایک آپشن ہے، تاہم فی الحال نہیں۔ جس راہ پر مفتاح اسماعیل، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور شاہد خاقان عباسی چل رہے ہیں مستقبل کا منظرنامہ سمجھنے کے لیے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ انتقامی سیاست اور احتساب کے موجودہ نظام کے خلاف مزاحمت کی علامت بن رہے ہیں۔ اب ایک خبر ہے کہ نوازشریف واپس آرہے ہیں۔ وہ آئیں یا نہ آئیں، انہیں کوئی رعایت نہیں ملے گی، جو قانون کہے گا اسی پر عمل ہوگا۔ یہی بات عمران خان سے متعلق بھی ہے، اگر انہیں گرفتار ہونا ہے یا نااہل، تو پھر وہ ہوکر ہی رہیں گے۔ مقبولیت کا بیانیہ اب کوئی خریدنے والا نہیں رہا، البتہ ایک تبدیلی ضرور آرہی ہے کہ اگلی نسل سیاست میں آنا چاہتی ہے تو اسے راستہ مل جائے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں اپنے بڑوں کے ماضی سے کٹنا ہوگا، انہیں مزاحمت سے مفاہمت، اور مفاہمت سے تابعداری تک آنا ہوگا۔

اس ساری منظرکشی کا سبب یہ ہے کہ ملک کو درپیش سنگین چیلنجز کسی بڑی آزمائش اور امتحان سے کم نہیں ہیں۔ حکومت کی کوشش اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ معیشت کی ڈوبتی کشتی کے گرداب سے نکلنے کا تمام تر انحصار آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی نئی قسط کے حصول پر ہے، لیکن یہ قسط ملنے کے بعد بھی معاشی بحالی ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے باقاعدہ الزام دیا ہے کہ عمران خان سیاسی انتشار کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی قسط کے حصول کے لیے ملک کے معاشی حکمت کار سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ آئی ایم ایف کی اضافی شرائط پروگرام کی بحالی میں تاخیر کا باعث ہیں۔ اِس بار پاکستان کو سخت شرائط کا سامنا ہے جن پر عمل کرنا نہایت مشکل ہے۔ حکومت نے شرائط مان کر پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کے لیے 170ارب روپے کا منی بجٹ منظور کرالیا ہے، اسٹیٹ بینک نے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3فیصد اضافہ کرکے اسے 20فیصد کردیا ہے۔گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام صارفین پر بجلی کے نرخوں میں 3.82روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا، بیرونی ادائیگیوں میں 7ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس کی ضمانت حاصل کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کامطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتے ہیں۔ موجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023ء میں ختم ہوجائے گا۔ بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانے اوربیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے نہیں ہوا ہے۔ روپے کی قدر کے حساب سے حکومت سمجھتی ہے کہ 5ارب ڈالر کی کمی ہے، تاہم آئی ایم ایف کے مطابق یہ کمی 7ارب ڈالر کی ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3ارب ڈالر کی 3 قسطیں مل جائیں گی۔ سعودی عرب سے 2ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے1ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک سے 950ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے، جس سے جون 2023ء تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4ارب ڈالر سے بڑھ کر 10ارب ڈالر ہوجائیں گے جس سے آئی ایم ایف کی شرط پوری ہوجائے گی۔

اگر تاریخ دیکھی جائے تو حقائق یہ ہیں کہ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کرچکا ہے، لیکن ان سے صرف 14.8ارب ڈالر کی رقم ملی ہے۔ موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019ء میں ہوا تھا جس کو بڑھاکر 7.5ارب ڈالر تک کردیا گیا جو جون 2023ء میں ختم ہورہا ہے، اور IMF پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر کی قسط ملنا ہے، مگر ملک میں مہنگائی کا طوفان اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ نیا چیلنج یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدہ ہے جو 31دسمبر 2023ء کو ختم ہورہا ہے۔ غیر ملکی ائرلائنز نے 225ملین ڈالرکی ترسیلات ِزر نہ ہونے کے باعث پاکستان کے لیے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کردیے ہیں جس سے حج زائرین کے لیے مشکلات آرہی ہیں،لیکن امید بھی بن رہی ہے کہ جلد ہی ڈالر کی قدر میں کمی ہونے والی ہے، جس سے مہنگائی کم ہوگی۔ لیکن پی ڈی ایم حکومت کو یہ گمان ہے کہ انتخابات ملتوی کرکے وہ آئندہ انتخابات تک اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں تو ان کی یہ منطق کم فہمی لگ رہی ہے، کیونکہ چند ماہ میں ان کی موجودہ حیثیت تبدیل ہوکر قابلِ تعریف کیسے بن سکتی ہے؟ کمر توڑ مہنگائی، توانائی اور تیل کی اوپر جاتی ہوئی قیمتوں اور تباہ شدہ معیشت کے باعث حکومت عوامی حمایت کھورہی ہے۔ اگر ’معیشت کو بچانا‘ پی ڈی ایم حکومت کا اقتدار میں آنے کا اولین جواز تھا تو اب یہ جواز کمزور پڑچکا ہے۔ معیشت اب بدحالی کا شکار ہے، ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، ایسے حالات میں انتخابات منعقد کرکے تازہ مینڈیٹ حاصل کرنا ہی شاید موجودہ دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔

ملک کے کاروباری طبقے کی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی اپنی ایک اہمیت ہے، ملاقات میںوزیر خزانہ نے معاشی بحران کو تسلیم کیا لیکن پُراعتماد تھے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ اسٹاف کی سطح کا معاہدہ جلد ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ شرح سود میں 6 فیصد اضافہ کیا جائے لیکن شرح سود میں 2 فیصد اضافہ کیا گیا۔ تفصیل میں جائے بغیر اگر ملک کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں دو ہی مسئلے ہیں، ایک مہنگائی اور دوسرا سیاسی بے چینی یا عدم استحکام۔ سیاست دان ہوں یا پالیسی ساز اسٹیبلشمنٹ، منصف ہوں یا ذرائع ابلاغ، حکومت ہو یا اپوزیشن اور پارلیمانی سیاسی جماعتیں… سب برابر کے ذمہ دار ہیں، ان میں کوئی ایک بھی بری الذمہ نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان زرعی اجناس میں خودکفیل تھا، آج ہماری صنعت اور زراعت درآمدات کے سہارے چل رہی ہے، اور ہمارے پاس مطلوب زرمبادلہ نہیں ہے، اور ہم اب صرف کرپشن اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں پوری سفاکی کے ساتھ خودکفیل ہیں۔ آٹا لینے کے لیے قطار میں کھڑے لوگوں پر ریاستی تشدد کبھی ہمیں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا بھر کے محکوم معاشروں میں نظر آتا تھا، آج یہ مناظر ملک کے ہر شہر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملکی آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت مہنگائی میں دب کر دم توڑ رہی ہے، ہر روز غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اور ہمارا سیاسی نظام اور تجربہ کار بیوروکریسی اسے روک نہیں پا رہی، بلکہ ان سب نے مل کر اپنا گھٹنا عوام کے نرخرے پر رکھا ہوا ہے اور دبائو بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ یہ نظام اس لیے چل رہا ہے کہ پولیس اپنے حاکموں کی فرماں بردار ہے۔ ان منتخب اور غیر منتخب حکومتوں کا زبانی فرمان ہی سکہ رائج الوقت ہے کہ محکمانہ ترقی کا یہی راز ہے۔ پاکستان کے ماہ و سال کہہ رہے ہیں کہ منتخب سیاسی حکمراں اور غیر منتخب نگراں… یہ سب ملک کو ترقی دینے کے بجائے غیر ضروری اقدامات میں الجھے رہے۔ کچھ اپنی خواہش کے نظریے لے کر آئے اور انہیں ’’ڈاکٹرین‘‘ کا نام دیا، لیکن ملک اور عوام کے مسائل سرداروں، جاگیرداروں، نودولتیوں، گملوں میں اگتے رہبروں کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پیداواری وسائل پر قابض گروہ ہی مینڈیٹ لے اڑتے ہیں، ہر کسی نے جمہور کے ذریعے ملنے والی مسندِ اقتدار کو خاندانی گدی سمجھ رکھا ہے۔ آج جس انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے 22 کروڑ پاکستانی دوچار ہیں یہ عبوریوں کے دائمی ہونے کے زعم کا منطقی نتیجہ ہے۔ کوئی فرد نہیں بلکہ نظام دائمی ہوتا ہے۔ نظام کی حرمت تسلیم کرنے میں ہی مسائل کا حل ہے۔ ملک میں انتخابات کا تماشا 1956ء سے جاری ہے۔1970ء کے بعد1977ء بھی دیکھا ہے۔ پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ بھی نیا نہیں ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نوازشریف کی تیسری حکومت خارجہ پالیسی پر کنٹرول حاصل کرنے اور اُس وقت کے آرمی چیف کو توسیع دینے نہ دینے کی جنگ کی نذر ہوئی، اس کے باوجود مریم نواز پہلے احتساب پھر انتخاب کا بیانیہ لے کر چل رہی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اُس وقت کے صدر ممنون حسین سے کہا کہ توسیع مل جائے تو پاناما سمیت سارے مقدمات ختم ہوجائیں گے، مگر انکار کے بعد ہی ملک میں ہائبرڈ نظام لایا گیا۔ پھر وزیراعظم عمران خان سے بھی نالاں ہوکر مقتدرہ نے سرپرستی کا ہاتھ کھینچ لیا۔ اب ملک کا سیاسی منظرنامہ اس بات کی اطلاع دے رہا ہے کہ سیاست میں جنرل وحید کاکڑ جیسا فارمولا لانے کی کوشش ہورہی ہے، سوال صرف یہ ہے کہ اس فیصلے کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

ملک میں مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کا بگل یہ اطلاع دے رہا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنے کے بجائے باہمی مکالمے پر راضی ہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پتوں پرتکیہ کرنے کے بجائے جمہور اور آئین کی تابعداری کی جائے، سیاسی انتقام کے لیے احتساب کی آتش بجھا دی جائے۔ اگر یہی روش رہی تو پاکستان سے متعلق ایک منظم سوچ رکھنے والی غیر ملکی قوتیں اور متعصب شخصیات یہاں شخصی آزادیوں کی حمایت کے نام پر مداخلت کرتی رہیں گی، جیسا کہ ابھی حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن شرمین بریڈ نے ٹی وی چینلز پر عمران خان کی تقریر اور بیانات پر پابندی اور ظل شاہ قتل کیس میں بات کی ہے، یہ ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے انتظامیہ بھی اپنی صلاحیت کھو رہی ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت اسی لیے پولیس پر اپنا انخصار کم کرکے رینجرز کو طلب کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن سمیت انتظامی اداروں کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرے اور خود کو قانون کا تابع بنائے۔ ملک میں جس طرح کی غیر یقینی صورت حال بن رہی ہے ایسے میں انتخابات کا ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابات میں شفافیت لانی ہے تو قومی سطح پر سیاسی شفافیت کو یقینی بنایا جائے، ورنہ کوئی فریق انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ سیاسی بحران لاینحل ہوجائے گا اور تھمنے کا نام نہ لے گا، اور سیاست دان پھر سے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ یہ حالات تیزی سے قریب آرہے ہیں کہ سیاست دان مرنے مارنے پہ تلے بیٹھے ہیں اور باہمی مکالمے اور سیاسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہیں۔