پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں میں تصادم کیوں ہوتا ہے؟

جرنیلوں کی طاقت اور سیاست دانوں کی کمزوری…!

مسلم دنیا کی گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ جرنیلوں اور سیاست دانوں کی کشمکش اور تصادم کی تاریخ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں فوج کا ادارہ اپنی نفسیات، ذہنی ساخت اور تربیت کے اعتبار سے نوآبادیاتی تجربے کا تسلسل ہے۔ ہم نے ایک بار جب یہی بات جنرل حمیدگل سے کہی تو انہوں نے ہماری بات کی تائید کی اور کہا کہ میں تو کہتا تھا کہ تم فوجیوں کے نصاب میں انگریز شاعر کیٹس، بائرن اور شیلے کیوں پڑھاتے ہو؟ اقبال کیوں نہیں پڑھاتے؟ ہم نے یہ سن کر عرض کیا کہ یہ بات تو ہم جیسے عام لوگ کہہ سکتے ہیں، آپ تو آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، جنرل ضیا الحق کا دایاں ہاتھ تھے، اُن کی آنکھیں اور کان تھے، چنانچہ آپ کو تو آگے بڑھ کر فوجیوں کے نصاب میں اقبال کو شامل کرنا چاہیے تھا تاکہ ہماری فوج سچے ’’اسلامسٹ‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ پیدا کرسکتی۔ ہماری بات سن کر جنرل حمید گل خاموش رہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے پاس صورتِ حال کی کوئی منطقی توجیہ تھی ہی نہیں۔ بدقسمتی سے یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں۔ عدنان مندریس جدید ترکی کے پہلے بڑے اسلامسٹ سیاست دان تھے، وہ عوام میں مقبول تھے، ان کی قائدانہ صلاحیت غیر معمولی تھی، وہ ترکی کو ایک بڑی طاقت میں ڈھال سکتے تھے، مگر ترکی کی سیکولر فوج نے 1961ء میں ان کا دھڑن تختہ کردیا۔ نہ صرف یہ، بلکہ ترکی کے جرنیلوں نے عدنان مندریس کو پھانسی کی سزا دی اور انہیں نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان بھی اسلامسٹ تھے۔ ترکی کے جرنیلوں نے اُن کی حکومت کو بھی ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔ ترکی کی فوج نے طیب اردوان کے خلاف بھی بغاوت کی، مگر طیب اردوان کی عوامی مقبولیت نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ سوئیکارنو جدید انڈونیشیا کے سب سے اہم سیاست دان تھے، وہ غیر وابستہ تحریک کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ چنانچہ انڈونیشیا کی فوج اُن کی مقبولیت سے خوف زدہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1967ء میں جنرل سہارتو نے سوئیکارنو کا تختہ الٹ دیا اور اس کے بعد سہارتو 32 سال تک اقتدار پر قابض رہے۔ 1991ء میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کا دوسرا مرحلہ آتا تو اسلامی فرنٹ دو تہائی اکثریت سے بھی آگے نکل جاتا، لیکن الجزائر کی فوج نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ اس نے سازش کی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں الجزائر میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور یہ خانہ جنگی دس سال میں دس لاکھ لوگوں کو نگل گئی۔ مصر سعودی عرب کے بعد عرب دنیا کا اہم ترین ملک ہے اور مصر میں اخوان المسلمون کے مرسی صدر بننے میں کامیاب رہے۔ لیکن مصر کی فوج نے امریکہ کی تائید کے ساتھ 2013ء میں صدر مرسی کو اقتدار کے ایوان سے نکال باہر کیا۔ اس سے پہلے مصر کی فوج نے صدر مرسی کو غیر مقبول بنانے کے لیے ملک میں پیٹرول اور اشیائے خورونوش کی مصنوعی قلت پیدا کی۔ بعض اطلاعات کے مطابق مصر کی فوج نے جیل میں صدر مرسی پر تشدد کیا جس سے وہ جیل ہی میں شہید ہوگئے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی ڈھٹائی اور سفاکی کا یہ عالم تھا کہ اس نے جنرل سیسی کے مارشل لا کو مارشل لا بھی قرار نہ دیا۔ امریکہ ایسا کرتا تو اُسے امریکی قوانین کے تحت جنرل سیسی کے مصر پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنی پڑتیں جس سے مصر معاشی مشکلات کا شکار ہوجاتا اور جنرل سیسی کے خلاف عوامی ردِعمل پیدا ہوتا۔

پاکستان کی تاریخ بھی جرنیلوں اور سیاست دانوں کی کشمکش، آویزش اور تصادم کی تاریخ ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا اور گیارہ سال تک حکومت کی، مگر بالآخر ان کے خلاف عوامی ردِعمل پیدا ہوا اور سڑکوں پر ’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں بھٹو صاحب کا دھڑن تختہ کیا اور وہ گیارہ سال تک بلاشرکتِ غیرے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اُن کے خلاف بھی ایم آر ڈی کی تحریک چلی اور سندھ میں اتنے سنگین حالات پیدا ہوئے کہ پروفیسر غفور اور مولانا نورانی جیسے سیاست دان یہ کہتے نظرآئے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ بالآخر جنرل ضیا الحق کا طیارہ تباہ ہوگیا۔ طیارے کے اس حادثے میں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہی ملوث تھے، اس لیے کہ جنرل ضیا الحق کے طیارے تک عام لوگوں کی رسائی نہیں تھی اور وہ جنرل ضیا الحق کے طیارے میں دھماکہ خیز مواد نہیں رکھ سکتے تھے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز نے میاں نوازشریف کے خلاف بغاوت کی، اور جنرل پرویز بھی دس سال تک مزے سے حکومت کرتے رہے۔ وہ وردی کو اپنی کھال کہا کرتے تھے، مگر اسٹیبلشمنٹ کی داخلی کشمکش کی وجہ سے جنرل پرویز کو اپنی یہ کھال اتارنی پڑی۔ جنرل پرویز کے خلاف وکلا نے ملک گیر تحریک چلائی، مگر اس تحریک کی پشت پر جنرل کیانی موجود تھے۔ اُن کی حمایت کے بغیر یہ تحریک نہ برپا ہوسکتی تھی، نہ کامیاب ہوسکتی تھی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان تصادم کیوں ہوتا ہے؟

پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوںکے درمیان تصادم کی ایک وجہ جرنیلوں کا ’’تصورِ ذات‘‘ ہے، اس تصورِ ذات کے دائرے میں جرنیل ’’فرشتے‘‘ ہیں، آسمان سے اتری ہوئی ہوئی ’’مخلوق‘‘ ہیں۔ وہ پاکستان کے’’مالک‘‘ ہیں، وہ پاکستان کے نظریے اور خود پاکستان کے ’’محافظ‘‘ ہیں۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکہ سے رابطے میں تھے۔ وہ خفیہ مراسلوں کے ذریعے امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستانی سیاسی رہنما نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب کی یہ ’’مراسلت‘‘ جنرل ایوب کے تصورِ ذات کا ایک اظہار تھی۔ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو جنرل ایوب نے ملک کے اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے ایسے اشتہار شائع کرائے جن میں بانیِ پاکستان کی بہن اور مادرِ ملّت کو ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ یہ اشتہارات بھی پاکستانی جرنیلوں کے تصورِ ذات کا اظہار تھے اور بتا رہے تھے کہ پاکستانی جرنیل بانیانِ پاکستان سے بھی زیادہ محب وطن ہیں۔ بانیانِ پاکستان تو بھارتی ایجنٹ ہوسکتے ہیں مگر جرنیل ہرگز ہرگز بھی غیر ملکی ایجنٹ نہیں ہوسکتے، حالانکہ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے پاکستان کو امریکہ کی طفیلی ریاست بنایا، یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے سیٹو اور سینٹو کی رکنیت حاصل کی، یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے پاکستان کے دفاع کو پاکستان مرکز بنانے کے بجائے امریکہ مرکز بنایا، یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کے نشے کا عادی بنایا، یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے بڈھ بیر میں خفیہ ہوائی اڈہ فراہم کیا۔ جنرل ایوب کی یہ پالیسیاں پاکستان سے غداری کے مترادف تھیں، جنرل ایوب کو خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے پاکستان کو امریکہ کی غلام ریاست میں ڈھال دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے الطاف گوہر سے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کروائی جو جنرل ایوب کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں جنرل ایوب نے تاثر دیا کہ پاکستان امریکہ کا ’’دوست‘‘ ہے ’’غلام‘‘ نہیں۔ جنرل ایوب اتنے جاہل تھے کہ انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ دوستی برابر کے لوگوں یا برابر کی ریاستوں میں ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے جرنیلوں کا صرف ایک ’’تصورِ ذات‘‘ ہی نہیں ہے، ان کا ایک ’’تصورِ سیاست دان‘‘ بھی ہے۔ یہ تصورِ سیاست دان بھی جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان تصادم کا باعث ہے۔ جرنیلوں کا تصورِ سیاست دان یہ ہے کہ سیاست دان نااہل ہوتے ہیں، وہ جدید ریاست کے معاملات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پھر جرنیلوں کی سیاست دانوں کے بارے میں یہ رائے بھی ہے کہ سیاست دان بدعنوان ہوتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری جیسے سیاست دانوں نے جرنیلوں کی اس رائے کو اور بھی پختہ کیا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دان خود کرپٹ نہیں بن گئے، اُنہیں جرنیلوں نے بھی کرپٹ بنایا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے گیارہ سالہ دورِ حکومت میںسیاست دانوں اور صنعت کاروں کے 200 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کرائے۔ جنرل پرویز کے دور میں بھی یہ کہانی دہرائی گئی۔

جرنیلوں اور سیاست دانوں میں تصادم کا ایک سبب جرنیلوں کی ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ کی نفسیات ہے۔ اس نفسیات کے دائرے میں جرنیل ’’ہم‘‘ ہیں اور سیاست دان کیا پوری قوم ’’وہ‘‘ ہے۔ اس نفسیات کے تحت جنرل ’’برہمن‘‘ ہیں، اور سیاست دان اور تمام عام لوگ ’’شودر‘‘۔ اس نفسیات کے مطابق جرنیل ’’آقا‘‘ ہیں اور سیاست دان اُن کے ’’غلام‘‘۔ جرنیل’’حب الوطنی‘‘ کا استعارہ ہیں اور سیاست دان ’’غداری‘‘ کی علامت۔ ہم اور وہ کے دائرے میں جرنیل ’’اہل‘‘ ہیں اور سیاست دان ’’نااہل‘‘۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برہمنوں اور شودروں میں تصادم ناگزیر ہے۔ آقائوں اور غلاموں میں آویزش کا برپا ہونا فطری بات ہے۔ محب وطن عناصر اورغداروں کے مابین کشمکش برپا ہونا قابلِ فہم ہے۔ اہلوں اور نااہلوں کے درمیان فاصلوں کا ہونا یقینی ہے۔

پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستانی جرنیل سیاست دانوں کے سلسلے میں ’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘ کے فلسفے پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بھٹو جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے، لیکن پھر ایک وقت وہ آیا کہ بھٹو نے نعرہ لگایا کہ وہ جنرل ایوب اور بھارتی وزیراعظم شاستری کے درمیان ہونے والے معاہدۂ تاشقند کے رازوں سے آگاہ ہیں اور انہیں افشا کرکے جنرل ایوب کی لٹیا ڈبو دیں گے۔ ایک وقت تھا کہ میاں نوازشریف جنرل ضیا الحق کو اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے، لیکن پھر ایک وقت وہ آیا کہ جرنیلوںکے لیے نوازشریف کی افادیت باقی نہ رہی، چنانچہ جرنیلوں اور میاں نوازشریف کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوگیا۔

پاکستانی جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ سیاست دانوں کی عزتِ نفس کو شعوری طور پر مجروح کرتے ہیں۔ عزتِ نفس پالتو کتوں کی بھی ہوتی ہے، اور اگر کتوںکا مالک کتوں کی عزتِ نفس مجروح کردے تو کتے مالک کو کاٹ لیا کرتے ہیں۔ ہمارے دفتر میں ایک صاحب نے کتا پالا ہوا تھا۔ انہوں نے کتے کو عادت ڈالی ہوئیتھی کہ صبح اخبار والا اُن کے گھر میں اخبار ڈالتا تو اُن کا کتا اخبار اٹھا کر مالک کو دیتا۔ ایک دن کتے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، چنانچہ اُس نے معمول کے مطابق اخبار اٹھا کر مالک کو نہ دیا۔ مالک نے غصے میں آکر اخبار اٹھا لیا اور کتے کو ایک لات بھی رسید کردی۔ مالک آکر اخبار پڑھنے لگا۔ اچانک کتا اٹھا اور اُس نے دوڑ کر اپنے مالک کے پائوں میں کاٹ کر حساب برابر کردیا۔

ملک کے معروف صحافی ضیا شاہد نے میاں نوازشریف پر لکھی گئی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن جنرل جیلانی نے ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ پارٹی میں معروف لوگوں کے ساتھ ساتھ میاں نوازشریف بھی مدعو تھے۔ اچانک جنرل جیلانی اٹھے اور انہوں نے ایک بیرے کے سر سے ٹوپی اتارکر میاں نوازشریف کے سر پر رکھ دی، مگر میاں صاحب خاموش رہے، یہاں تک کہ انہوں نے سر سے بیرے کی ٹوپی بھی نہ اتاری۔ نواب اکبر بگٹی ساری زندگی وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ سیاست کرتے رہے مگر جرنیلوں نے اُن کی اتنی توہین کی کہ وہ پہاڑوں میں چلے گئے۔ عمران خان کو بھی جرنیل ہی اقتدار میں لائے تھے، مگر جنرل باجوہ نے عمران خان کی اتنی توہین کی کہ اب عمران خان جنرل باجوہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کی اخلاقی ساکھ صفر ہے۔ بھٹو صاحب عوام میں مقبول تھے۔ وہ شعلہ بیان مقرر تھے، انہوں نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے کے ذریعے عوام پر جادو کردیا تھا۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے محرومِ اقتدار ہونے سے پہلے فرمایا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ مگر جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے ثابت کردیا کہ بھٹو کی کرسی مضبوط نہیں تھی۔ بھٹو صاحب سے یہ فقرہ بھی منسوب ہوا کہ ’’اگر مجھے کچھ ہوا تو ہمالہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی‘‘۔ مگر بھٹو پھانسی پر لٹک گئے، اس کے ردِعمل میں نہ ہمالہ رویا نہ سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔ دیہی سندھ میں چھوٹے موٹے مظاہرے ہوئے، چند لوگوں نے خود سوزی کرلی، اللہ اللہ خیر صلّا۔ اس سے ثابت ہوا کہ لوگ بھٹو کو ووٹ دے سکتے تھے، نوٹ دے سکتے تھے مگر بھٹو کی اخلاقی ساکھ ایسی نہیں تھی کہ لوگ اُن کے لیے گولی کھائیں اور جان دیں۔ جنرل پرویز نے 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نوازشریف کا تختہ الٹا تو میاں نوازشریف کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی، مگر اُن کی اقتدار سے محرومی کے خلاف کہیں اور کیا پنجاب اور لاہور میں بھی کوئی مظاہرہ نہ ہوا۔ ان کی برطرفی کے بعد کراچی میں مشاہد اللہ کی قیادت میں ڈیڑھ درجن لوگوں کا ایک مظاہرہ ہوا۔ اس سے بھی یہی بات معلوم ہوئی کہ میاں نوازشریف کو لوگ ووٹ اور نوٹ تو دے سکتے ہیں مگر ان کی اخلاقی ساکھ ایسی نہیں کہ لوگ ان کے لیے فوجیوں سے ڈنڈے کھائیں اور ان کے لیے جان دیں۔

کراچی میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین ہر پانچ منٹ بعد فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں فوج کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی یا نہیں؟ انہیں بتایا جارہا تھا کہ کہیں کچھ نہیں ہورہا ہے۔ نائن زیرو پر تین، چار ہزار لوگ جمع تھے مگر جیسے ہی وہاں فوج آئی، وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ الطاف حسین کراچی میں کتنا مشہور تھے، ان کی ایک آواز پر لاکھوں کا مجمع خاموش ہوجاتا تھا، مگر فوجی آپریشن سے ثابت ہوا کہ لوگ الطاف حسین کو نوٹ اور ووٹ دے سکتے ہیں مگر ان کی اخلاقی ساکھ ایسی نہیں کہ لوگ ان کے لیے جان دیں اور ریاست کی مزاحمت کریں۔ عمران خان بھی عوام میں بے انتہا مقبول ہیں۔ ایک ملک گیر سروے کے مطابق انہیں پاکستان کے 61 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جب کہ نوازشریف 34 فیصد پر کھڑے ہیں، مگر اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود نہ عمران خان اسلام آباد پر یلغار کے لیے لاکھوں لوگوں کو نکال سکے، نہ ان کی ’’جیل بھرو تحریک‘‘ میں کوئی جان تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگ عمران خان کو ووٹ اور نوٹ تو دے سکتے ہیں مگر ان کے لیے ڈنڈے اور گولی نہیں کھا سکتے، اس لیے کہ عمران خان کی اخلاقی ساکھ بھی ایسی نہیں کہ لوگ اُن کے لیے کٹ مریں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جرنیلوں کو سیاست دانوں کی اس کمزوری کا علم ہے، چنانچہ وہ پوری بے خوفی کے ساتھ سیاست دانوں کے خلاف اقدام کرتے ہیں۔ آپ نے ترکی میں دیکھا کہ طیب اردوان کے خلاف فوج نے بغاوت کی، اور طیب اردوان کی ایک اپیل پر ہزاروں لوگ گھروں سے نکل آئے اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ چنانچہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی اور بغاوت کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اردوان کی اخلاقی ساکھ ایسی تھی کہ لوگ انہیں ووٹ اور نوٹ بھی دیتے ہیں اور ان کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں۔

جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان اس لیے بھی آویزش پیدا ہوتی ہے کہ سیاست دان احتساب سے بالاتر نہیں، مگر جرنیل احتساب سے بالاتر ہیں۔ جرنیل آئین معطل کر دیں تو کوئی اور کیا سپریم کورٹ بھی ان کا احتساب نہیں کرپاتی۔ یہاں تک کہ جنرل یحییٰ نے 1971ء میں ملک توڑ دیا اور حمود الرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی، مگر جنرل یحییٰ پوری تکریم کے ساتھ زندہ رہے اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنائے گئے۔ جنرل پرویز کو ایک ماتحت عدالت نے غداری کے مقدمے میں سزا سنائی مگر جرنیلوں نے عدالتِ عالیہ کے ذریعے یہ سزا ختم کرا دی۔ جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان یہ فرق ان کے باہمی تعلق کو متاثر کرکے ان کے درمیان کشمکش اور تصادم کی راہ ہموار کررہا ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جرنیل سیاست دانوں کی کامیابی کو اپنے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور ان کی ناکامیوں کو Own کرنے سے انکار کردیتے ہیں، اس سے بھی فریقین کے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں۔