عمران خان کی گرفتاری سے حکومت یا کچھ قوتیں کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں؟
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، عمران خان کی گرفتاری معما بنی ہوئی ہے۔ 14مارچ کی صبح سے لے کر اگلی صبح تک عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھرپور مزاحمت کی، اور اسی مزاحمت کے نتیجے میں عمران خان کی گرفتاری ممکن نہ ہوسکی۔ مگر ان کی گرفتاری کے لیے جو طرزعمل وفاقی حکومت، صوبائی نگران حکومت اور رینجرز نے روا رکھا وہ قابلِ مذمت ہے۔ عالمی میڈیا میں گرفتاری کی خبروں نے بھی دنیا میں ہمارا تماشا بنایا، اور عالمی میڈیا پر گرفتاری کے تناظر میں عمران خان کے جو ٹی وی انٹرویوز چلے ہیں انہیں دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ حکومت بدحواسی کا شکار ہے۔ قومی میڈیا میں ان تمام معاملات کی تشہیر کو طاقت کے زور پر روکا جارہا ہے۔ عمران خان نے اپنے وکلا کی مدد سے عدالت کے سامنے گارنٹی دے دی ہے کہ وہ ہر صورت میں 18مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گے اور ان کو سیکورٹی کی بنیاد پر تحفظات ہیں مگر اس کے باوجود وہ پیش ہوں گے۔ لیکن اس گارنٹی کو بھی پولیس نے قبول نہیں کی۔ کرمنل کوڈ پروسیجر سیکشن 76کے تحت گارنٹی دی گئی ہے، اس کے بعد عمران خان کی گرفتاری کا جواز نہیں۔ مگر لگتا ہے کہ ان کو گرفتار کرنے والے ہر صورت میں انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے اوردیکھنا ہوگا کہ فوری طورپر عمران خان کی جانب سے دی جانے والی گارنٹی کو قبول کیا جاتا ہے یا اسے قبول کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری ہونی ہے اورکسی صورت انہیں ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 16مارچ تک زمان پارک میں ہونے والے پولیس آپریشن کو ختم کردیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی سامنے آگیا ہے اور عدالت نے حکم دیا ہے کہ جو تحریری گارنٹی عمران خان کی جانب سے عدالت کو پیش کی گئی ہے وہ متعلقہ عدالت میں دی جائے جہاں ان کے خلاف مقدمہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے حکومت یا کچھ قوتیں کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں؟ اورکیا اس سے ملک میں جاری بحران ختم ہوسکے گا؟ یا اس کھیل کا مقصد انتخابات کو ملتوی کرنا ہے؟
ہماری قومی سیاست میں بے یقینی کا لفظ بہت چھوٹا ہوگا، یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہم ایک ایسی کیفیت کا شکار ہوگئے ہیں جہاں ملک کے مستقبل کے بارے میں بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی یا آئین کی بالادستی کو بنیاد بناکر ہم عملاً سیاسی تماشے کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں بلکہ تمام فریقوں پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ سب کی نظر میں ریاست اور ملک کے مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی اہمیت ہوگئی ہے۔ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جب سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اسمبلیوں کی تحلیل کے 90روز میں دونوں صوبوں پنجاب اور خیبرپختون خوا میں صوبائی انتخابات کو یقینی بنانے کا فیصلہ دیا تو لوگوں کو لگا کہ اب انتخابات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بناکر انتخابات کے عمل کو یقینی بنائے۔ لیکن جب سیاست دانوں کے مفادات کی اہمیت زیادہ ہو تو پھر آئین اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہی صورت حال اس وقت قومی سیاسی منظرنامے میں بالادست نظر آتی ہے۔
اگرچہ پنجاب میں صوبائی انتخابات کے حوالے سے 30 اپریل کی تاریخ اور انتخابی شیڈول بھی جاری ہوگیا ہے، اور ایک طرح سے انتخابی منظرنامہ بن گیا ہے۔ دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ اگلے دو سے تین دن میں کے پی کے کا انتخابی شیڈول بھی سامنے آجائے گا۔ لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکمران اتحاد اور کچھ غیر سیاسی قوتوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت میں انتخابات نہیں کروانے۔ اس کے لیے حکومت کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ اجلاس میں انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے دیگر اداروں سے معاونت طلب کی جارہی ہے، ان کے بقول ہماری ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ اس وقت ملکی سطح پر دہشت گردی اور سیکورٹی کے بدترین حالات ہیں۔ ان ایجنسیوں کے بقول عمران خان، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پنجاب اورکے پی کے میں حالات کنٹرول سے باہر ہیں اور ٹی ٹی پی کسی کو بھی ٹارگٹ کرسکتی ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت دو صوبوں کے انتخابات کے اضافی مالی وسائل یا سیکورٹی اہلکاروں کی کمی کا رونا رو رہی ہے۔ یعنی حکومت اور ایجنسیوں کا ایک نکاتی ایجنڈا یہی ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات سے گریز کیا جائے اور انتخابات میں تاخیر ہی ملکی مفاد میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات میں تاخیر سے ہم ملکی مسائل کو حل کرسکیں گے؟ اور اس وقت سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی جو صورت حال ہے اس کو کنٹرول کیا جاسکے گا؟ کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا گیا تو اس کے نتیجے میں ملک میں نئی محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست ہوگی، خاص طور پر انتخابات سے گریز کے نتیجے میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان ٹکرائو کا نیا ماحول دیکھنے کو ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ معروف قانون دان چودھری اعتزاز احسن نے خبردار کیا ہے کہ اگر انتخابات کو ملتوی کیا گیا تو ہم عدلیہ کے محاذ پر ایک بڑی تحریک چلائیں گے۔ اُن کے بقول چیف جسٹس ہماری ریڈلائن ہے اور جو بھی عدلیہ یا چیف جسٹس کو ٹارگٹ کرے گا اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ اصل میں انتخابات ملتوی ہونے کی دو وجوہات سامنے آرہی ہیں، ایک ملک کی معاشی صورتِ حال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے حکمران سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے نتائج ان کے حق میں نہیں ہوں گے۔ جتنے بھی انتخابی یا سیاسی بنیاد پر سروے کے نتائج سامنے آرہے ہیں وہ عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کی مخالفت کے اشارے دے رہے ہیں۔ دوسری وجہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کا ماحول ہے، اور کہا جاتا ہے کہ جب تک عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کچھ طے نہیں ہوگا، عمران خان کی مشکلات بھی کم نہیں ہوں گی۔ اس وقت عمران خان کے خلاف جس تیز رفتاری سے دہشت گردی، توہینِ عدالت، توہینِ مذہب اور قتل کے مقدمات بن رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کا اس وقت ٹارگٹ عمران خان ہیں۔ عمران خان کو گرفتار کرنا، اُن کو جیل میں ڈالنا، یا انہیں نااہل کرنا بھی کہیں کہیں گفتگو کا موضوع ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف اور ملک کے بڑے کاروباری طبقے کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی اہم ہے۔ کئی دہائیوں سے ہمارے کاروباری طبقے کا ایک بڑا گروپ وزیراعظم کے مقابلے میں آرمی چیف سے ہی ملاقاتیں کرکے ان پر اعتماد کرتا ہے۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ کاروباری طبقے کو آرمی چیف کی طرف سے معاشی ترقی کی دی جانے والی گارنٹی سمجھ سے باہر ہے۔ یہ گارنٹی اصولی طور پر وزیراعظم یا وزیر خزانہ کودینی تھی، ان کے مقابلے میں آرمی چیف کی یقین دہانی کو بلاوجہ سیاسی اور معاشی معاملات میں فوج کی مداخلت سمجھا جائے گا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والا ہمارا تحریری معاہدہ ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ ابھی معاہدہ نہیں ہوا مگر مہنگائی کا شدید طوفان ملک میں آگیا ہے ۔ رمضان میں یہ اور زیادہ شدت اختیار کرے گا، اور اسی طرح جب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا تو اس کے نتیجے میں بھی عام آدمی پر سب سے زیادہ معاشی بوجھ پڑے گا۔ حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ہمیں سیاسی طور پر تنہا کردیا ہے، اور اس کا علاج اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ حکومت کے تمام معاشی دعوے ابھی تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے۔
مریم نواز عمران خان کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیے لے کر سیاسی میدان میں کود پڑی ہیں۔ وہ دو نکتوں پر بات کررہی ہیں، اول یہ کہ پہلے عمران خان کا احتساب ہو اور پھر انتخابات ہوں۔ یہ وہی نعرہ ہے جو ماضی میں بھی لگتا رہا ہے کہ ’’پہلے احتساب، پھر انتخاب‘‘۔ ایسا لگتا ہے مریم نواز میں جنرل ضیا کی روح آگئی ہے۔ اسی طرح وہ چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے لیول پلیئنگ فیلڈ ہو، اور اس کے لیے اُن کا مطالبہ ہے کہ اُن کے والد نوازشریف کو پاکستان آنے دیا جائے اور تمام مقدمات سے ان کو آزاد کیا جائے۔ آج کل مریم نواز کا خصوصی ہدف عدلیہ ہے۔ اس میں ریٹائرڈ جج بھی ہیں اورحاضر سروس جج بھی… اسی طرح وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو بھی ٹارگٹ کررہی ہیں اور اُن کا کورٹ مارشل چاہتی ہیں۔ دوسری طرف عمران خان بھی جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل چاہتے ہیں۔ اس وقت عملی طور پر ہمارے ادارے نشانہ پر ہیں، اور تمام سیاسی لوگ اپنے اپنے مخصوص مفادات کے تحت اداروں اور ان میں شامل افراد کو ہدف بنارہے ہیں۔ یہ خاصا خطرناک رجحان ہے جو مزید ٹکرائو یا ہیجانی کیفیت پیدا کرے گا۔ کچھ لوگوں کے بقول اگر مریم نواز واقعی جنرل فیض کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہیں تو ان کی اپنی حکومت ہے، وہ آگے بڑھیں۔ لیکن لگتا ہے کہ مقصد اس سارے کھیل میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ ہے، اور ان کا سیاسی میدان میں ہی ٹرائل کرنا ہے۔ یہ عمل ماحول میں مزید تلخی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ ویسے تو مریم نواز کے الزامات پر خود فوج اور عدلیہ کو نوٹس لینا چاہیے اورکہنا چاہیے کہ وہ ثبوت فراہم کریں۔ اور اگر ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں تو پھر انہیں اس طرح کی گفتگو سے روکا جائے۔ مگر کیا اعلیٰ سطح پر ادارے اس گفتگو پر کوئی نوٹس لیں گے، یہ خود سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ حاضر سروس ججوں پر الزامات کے بعد عدلیہ کو جو متنازع بنایا گیا ہے اس پر ان کی اپنی خاموشی بھی ماحول میں مزید شدت پیدا کرے گی۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کو سیاسی جلسوں، جلوسوں اورانتخابی مہم پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسا انتخاب ہوگا جو سیاسی مہم کے بغیر حکومت کروانا چاہتی ہے؟ لاہور میں تحریک انصاف کو انتخابی ریلی کی اجازت نہ دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسی طرح ہم دو صوبوں میں بننے والی نگران حکومتوں کے معاملات بھی دیکھ رہے ہیں جو کسی بھی سطح پر اس وقت غیر جانب دار نہیں، بلکہ ان کی جانب داری واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ایسے میں یہ دونوں نگران حکومتیں کیسے شفاف انتخابات کروا سکیں گی؟ ایسا لگتا ہے کہ نگران حکومتوں کو ایک ہی ہدف دیا گیا ہے کہ کسی بھی طریقے سے عمران خان کو ٹف ٹائم دیا جائے اور وہ آزادانہ بنیاد پر انتخابی مہم نہ چلاسکیں۔ لاہور میں پی ٹی آئی کے کارکن ظل شاہ کا جو قتل ہوا وہ بھی افسوس ناک ہے، اور اس پر جس طرح سے سیاست ہورہی ہے اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کے جسم پر 27 جگہوں پر تشدد ہوا ہے اور حکومت اسے حادثاتی موت قرار دے رہی ہے۔ اسی طرح اس کے والد کے پہلے اور دوسرے بیان میں بھی فرق ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بھی خاصے دبائو کا سامنا ہے۔ ایک بات ہمارے فیصلہ سازوں کو سمجھنی ہوگی کہ ان کی جو بھی سیاسی مہم جوئی ہے اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ایک دفعہ اگر ہمارا آئین پٹری سے اترا تو دوبارہ اس کو پٹری پر چڑھانا آسان کام نہیں ہوگا۔ انتخابات سے فرار کا براہِ راست الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگے گا۔ اگرچہ ان کے بقول اب ہم سیاسی امور میں مداخلت نہیں کررہے، لیکن اس کے باوجود الزامات بھی ان پر ہی ہیں۔ یہ تاثر بھی پھیلایا گیا کہ عمران خان آرمی چیف سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر آرمی چیف نے ان سے ملنے سے انکار کردیا ہے۔ عمران خان اس کی تردید کرچکے ہیں، ان کے بقول وہ سب سے یقیناً ملنا چاہتے ہیں مگر شرط انتخابات ہیں، اور اگر کوئی انتخابات پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا تو پھر بات چیت یا ملاقات کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس وقت یقینی طور پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی پائی جاتی ہے اور اس کا سیاسی سطح پر تنائو بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، اور جو لوگ یہ کوشش کررہے تھے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کو کم کیا جائے، اس میں انہیں فی الحال کوئی کامیابی نہیں ملی۔ کچھ معروف اینکرز یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ عمران خان کو فوج کبھی معاف نہیں کرے گی اور نہ ہی ان کو مستقبل کی سیاست میں قبول کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون ہیں جو یہ فیصلہ کریںگے؟ اور کیا جو کچھ یہ فیصلہ ساز سوچ رہے ہیں اس کی ترجمانی ہمارے بعض اینکرز کررہے ہیں؟ اور ان کو یہ ڈیوٹی کس نے دی ہے؟ حالانکہ فوج تو کہہ رہی ہے کہ ہم نے خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کرلیا ہے، ایسے میں یہ کہانیاں کس کو بتانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس سے کیسے ملک کی سیاست اور جمہوریت کو فائدہ ہوگا؟
دوسری طرف عمران خان کے سیاسی مخالفین بہت عرصے سے توشہ خانہ اور عمران خان کی جانب سے گھڑی کو بازار میں بیچنے پر سخت تنقید کررہے تھے، اور ان کو گھڑی چور کہہ رہے تھے۔ لیکن اب عدالتی حکم پر توشہ خانہ سے لیے جانے والے تحائف کی جو فہرست سامنے آئی ہے اس نے تمام سیاست دانوں کو جو حکومت میں رہے ہیں، ننگا کردیا ہے ۔ نوازشریف خاندان جس میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز، مریم نواز، حسین نواز، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، اور کئی صحافی اور ان کے خاندان توشہ خانہ کی لوٹ مار میں مصروف رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جن افراد کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں وہ بھی اس لوٹ مار کا حصہ رہے ہیں جن میں مریم نواز حسین نواز اور شاہد خاقان عباسی کے بچے بھی شامل ہیں۔ اب عمران خان پر تنقید کرنے والے کس منہ سے سیاسی محاذ پر ان پر تنقید کریں گے جب خود ان کے دامن بھی داغ دار ہیں۔ اب واقعی قانون بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی حکومتی عہدہ رکھنے والا ان تحائف کو اپنی ملکیت میں نہیں رکھ سکتا اور یہ سب کچھ سرکار کی تحویل میں ہونا چاہیے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اس کھیل میں کوئی کتنا بھی بڑا سیاست دان ہو جو اقتدار میں رہا ہے یا ہے، اس کا دامن صاف نہیں، اور اس عمل سے یقینی طور پر ہماری سیاست اور جمہوریت کو تماشا بنادیا گیا ہے۔