چین کی ثالثی میں ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی

بات چیت کی جیت، امن کی فتح

گزشتہ ہفتے چین ابلاغِ عامہ پر چھایا رہا۔ جمعہ 10 مارچ کو صدر ژی جن پنگ، جمہوریہ چین کے صدر منتخب ہوگئے۔ یہ موصوف کی اس منصب پر مسلسل تیسری کامیابی ہے، اور اس اعتبار سے وہ چیئرمین مائوزے تنگ کے بعد چوتھی مدت شروع کرنے والے دوسرے چینی رہنما ہیں۔ رائے شماری کے دوران عوامی قومی کانگریس (پارلیمان) کے تمام 2952 ارکان نے ان کی حمایت میں ہاتھ کھڑے کیے۔ واضح رہے کہ پرچہ انتخاب پر جناب ژی جن پنگ کے سوا کوئی دوسرا نام نہ تھا۔ یہ خبر اہم تو تھی لیکن کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں، کہ چینی کمیونسٹ پارٹی میں صدارت کے لیے جناب ژی جن پنگ کے تمام متوقع حریف ”باعزت“ سبکدوش ہوگئے اور باقی سخت جانوں کو دیوار سے لگادیا گیا تھا۔

تاہم اس کے دوسرے دن بیجنگ سے آنے والی خبر واقعی چشم کشا تھی، جب سعوی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وكالۃ الأنباء السعودیۃ (انگریزی مخفف SPA) نے انکشاف کیا کہ چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ایس پی اے کے مطابق چینی صدر کی کوششوں سے ایرانی اور سعودی حکام کے مابین 6 تا 10 مارچ مذاکرات ہوئے۔ سعودی وفد کی قیادت قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر مساعد بن محمد العیبان نے کی، جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے رئیسِ وفد، شورای عالی امنیت ملی (SNSC)کے قیّم، امیر البحر علی شمخانی تھے۔

ریاض، بیجنگ اور تہران سے بیک وقت جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی ثالثی میں نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات کے بعد تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے اور اسے مزید وسعت دینے کے لیے چین کی میزبانی میں مزید بات چیت جاری رہے گی۔

معاہدے کے تحت ریاض و تہران ایک دوسرے کی خودمختاری کے مکمل احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے قائم رہیں گے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ہمسائیگی کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہیں اور دو ماہ کے اندر ایران اور سعودی عرب اپنے سفارت خانے دوبارہ کھول دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ تمام تصفیہ طلب امور کو سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرلیا جائے۔ اس ضمن میں معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ جلد ہی ایک اجلاس منعقد کریں گے۔ مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں کے درمیان 2001ء کے سیکورٹی تعاون اور 1998ء کے معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں کو مؤثر و فعال بنانے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پانچ روزہ طویل مذاکرات کے بعد ایران و سعودی عرب نے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کرلیا جسے سفارتی اصطلاح میں ”نارملائزیشن“ کہا جاتا ہے۔

سعودی عرب اور ایران دو ایسے پڑوسی ہیں جن کے درمیان 56 کلومیٹر چوڑی خلیج حائل ہے۔ ایران اور جزیرہ نمائے عرب کے درمیان واقع یہ 989 کلومیٹر طویل خطہ آب بحر احمر (Red Sea)کو بحیرہ عُمان اور بحیرہ عرب کے راستے بحرہند تک رسائی دیتا ہے۔ نہر سوئز نے بحر احمر کو بحر روم سے ملادیا ہے، لہٰذا اس خلیج کو یورپ اور ایشیا کی مرکزی آبی شاہراہ کہا جاسکتا ہے۔ خلیج کا نام متنازع ہے۔ جغرافیہ دانوں کے لیے یہ خلیجِ فارس ہے جبکہ عرب اس بات پر مُصر ہیں کہ اسے خلیجِ عرب کہا جائے۔ ایک انٹرویو میں جب مشہور اطالوی صحافی محترمہ اوریانہ فلاسی نے انقلابِ اسلامی ایران کے قائد حضرت آیت اللہ خمینی سے پوچھا ”آپ کے لیے یہ خلیج فارس ہے یا خلیج عرب؟“ تو امام صاحب بے دھڑک بولے ”نہ عرب نہ عجم، یہ خلیجِ اسلام ہے کہ اس کے چاروں طرف مسلمان آباد ہیں۔“

ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب سے جہاں مغرب کے ہاتھوں کے طوطے اُڑے وہیں مسلم دنیا اور بالخصوص خلیجی ممالک میں بے چینی پیدا ہوئی۔ ایرانی انقلاب کے صرف 19 ماہ بعد عراق ایران پر چڑھ دوڑا اور صدر صدام نے اسے عرب و عجم کی جنگ قرار دیا۔ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک نے عراق کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ آٹھ سال جاری رہنے والی یہ بے مقصد خونریزی دونوں طرف کے 15 لاکھ مسلمانوں کو چاٹ گئی اور زمانہ جاہلیت کی عرب و عجم کشیدگی اپنی مکروہ ترین شکل میں پوری قوت سے دوبارہ ابھر آئی۔

اسی نوعیت کا عدم تحٖفظ 2011ء کے آغاز پر شمالی افریقہ سے برپا ہونے والی الربیع العربی (عرب اسپرنگ) کے موقع پر دیکھا گیا جب تیونس اور مصر کی آمریتوں کو عوامی بیداری کا سیلاب بہا کر لے گیا۔ عرب اسپرنگ سے خوف زدہ قوتوں نے عوامی سیلاب کا راستہ روکنے کے لیے فرقہ واریت کے بند کھڑے کیے، اور جلد ہی یہ عظیم الشان تحریک اس دلدل میں پھنس گئی۔ یمن اور شام میں فروعی منافرت کی آگ بہت تیزی سے بھڑکی۔ مصر میں فوج نے شب خون مارا تو لیبیا میں عالمی قوتوں نے انقلاب کا راستہ کھوٹا کردیا۔

یمن میں شیعہ سنی تنازعے میں ایران براہِ راست کود پڑا۔ اس کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے 2014ء میں دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا، اور 2015ء میں سعودی عرب اس تنازعے کا ایک فریق بن گیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بمباروں نے سارےیمن کو نشانہ بنایا۔ اس جنگ نے ایک بدترین انسانی المیے کو جنم دیا اور یمنی مسلمان چکی کے ان دوپاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئے۔

لبنان میں ایران نواز حزب اللہ کے مقابلے میں ریاض نے سُنّی انتہا پسندوں کی پشتی بانی کی۔ دوسری طرف شام میں بعثی ملیشیا، امریکہ نواز جمہوری اتحاد اور ترک مخالف کرد ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ داعش، روس کے ویگنر دہشت گرد اور سارے عالمِ عرب کے جنگجوئوں نے شام کا رخ کرلیا۔ لبنان اور شام میں سعودی ایران کشمکش کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہوا کہ سعودی انھیں حزب اللہ کا حمایتی سمجھتے ہیں اور شیعوں کا خیال ہے کہ حماس آخر کو تو سنی ہیں۔ اس کشمکش کا اسرائیل نے خوب فائدہ اٹھایا۔ شام اور لبنان میں شہری ٹھکانوں، ہوائی اڈوں اور دوسری کلیدی تنصیبات کو امریکی ساختہ اسرائیلی بمباروں نے تہس نہس کردیا۔

تاہم ایران، سعودی عرب اور خلیجی اتحادیوں کو اندازہ ہورہا تھا کہ جنگ بند گلی میں داخل ہوچکی ہے اور اس دلدل سے فیصلہ کن جنگ ممکن ہی نہیں۔ دونوں جانب بات چیت کی خواہش تھی، لیکن عدم اعتماد کے اندھیرے نے راستہ اوجھل کردیا تھا۔ یہ کشیدگی اُس وقت اپنے عروج کو پہنچی جب جنوری 2016ء میں سعودی عرب نے 47 دوسرے افراد کے ساتھ ممتاز شیعہ عالم نمر باقر النمر کا سر قلم کردیا۔ انھیں بدامنی پھیلانے کے الزام میں عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی۔ ایران کی جانب سے اس سزا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ تہران میں مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا اور عمارت نذرِ آتش کردی۔ ایرانی حکومت نے واقعے میں ملوث 100 افراد کو گرفتار کیا لیکن سعودیوں کا کہنا تھا کہ حملہ ایرانی حکومت نے کروایا ہے، چنانچہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔ بحرین نے بھی سعودی عرب سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایران میں اپنے سفارت خانے کو تالا لگادیا۔

کشیدگی اور عدم اعتماد کے باوجود سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایران سے تعلقات بہتر بنانے کے خواہش مند تھے۔ اپنے رویۃ 2030(Vision)ء کے بارے میں وہ بے حد سنجیدہ ہیں اور 2030ء تک سعودی عرب کو تیل بیچنے والے ملک کے بجائے ایک اہم سیاحتی و تجارتی مرکز بنانا چاہتے ہیں، اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب علاقہ کشیدگی سے پاک اور سعودی عرب کی شناخت ایک امن دوست ملک کی حیثیت سے ہو۔ دوسری طرف ایران بھی کشیدگی سے تنگ آیا ہوا ہے۔ ستمبر 2022ء میں کرد لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے وہ اندرونی خلفشار اور مغربی ممالک کی جانب سے نئی پابندیوں کی زد میں ہے۔ چنانچہ بیان بازی اور جواب الجواب کے ساتھ خاموش لیکن مؤثر سفارت کاری کا آغاز ہوا۔ یعنی ”اس طرف ہے گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش“

سعودی عرب کو امریکہ کے رویّے پر گہرے تحفظات ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر بائیڈن نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سعودی ولی عہد کے ممکنہ کردار کا مبہم سا ذکر کیا تھا۔ اگرچہ حکومت سنبھالنے کے بعد سے وہ اس معاملے میں بے حد محتاط ہیں لیکن سعودی شہزادے کو انتخابی مہم کی بات یاد رہی۔ امریکی کانگریس (مقننہ) میں مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والے ترغیب کاروں (Lobbysists)کے اثرات بہت زیادہ ہیں اور یہاں ہر وقت مختلف ممالک کے خلاف قراردادیں اور مسودہ قانون پیش ہوتے رہتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے یہ کہا جارہا ہے کہ نائن الیون واقعے میں جو 19 مبینہ دہشت گرد ملوث تھے اُن میں سے 16 کا تعلق سعودی عرب سے تھا، اس لیے ریاض کو مالی نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، یعنی متاثرین کو رقم کی ادائیگی کے لیے سعودی اثاثہ جات پر دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے صدر بائیڈن سعودی عرب پر جس بھونڈے انداز میں دبائو ٖڈال رہے ہیں وہ بھی سعودی شہزادے کو پسند نہیں۔

دوسری طرف دوستی، مفاہمت اور سفارتی رکھ رکھائو کے حوالے سے چین کی اپنی ایک مخصوص شناخت ہے۔ چین عالمی تنہائی کا شکار ایران سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کے لیے مخلص نظر آرہا ہے، چنانچہ چین کی ثالثی پر ایران و سعودی عرب تیار ہوگئے۔ جیسا کہ ہم نے سرنامہ کلام میں عرض کیا، شاہراہِ امن و اعتماد طویل و پُرپیچ ہونے کے ساتھ عالمی قوتوں کی بچھائی بارودی سرنگوں سے پٹی پڑی ہے، صبر و ضبط کی پگڈنڈی سے قدم ذرا بہکا، اور اعتماد کی ساری پونجی راکھ کا ڈھیر۔ لیکن اگر ایران و سعودی عرب اخلاص و اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو امن کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ملکوں کے کروڑوں شہری امن و خوشحالی سے مستفید ہوں گے اور شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے رویۃ 2030 کا ہدف حاصل کرنا سہل ہوجائے گا بلکہ افغانستان سے لبنان تک ہر جگہ کشیدگی کم ہوگی۔

یہ شاندار پیش رفت دنیا بھر کے امن پسندوں کے لیے باعثِ مسرت ہے۔ خانہ جنگی کا شکار شامی، اہلِ یمن و عراق اور ساکنانِ افغانستان بہت امید و آرزو کے ساتھ ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی ختم ہونے کی دعا کررہے ہیں لیکن اسرائیل کو اس پر شدید تشویش ہے۔ اسرائیلی حزبِ اختلاف سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کو نیتن یاہو حکومت کی ناکامی قرار دے رہی ہے۔ اسرائیل کی پریشانی آنے والے دنوں میں کیا روپ اختیار کرے گی اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت مفاہمت کی کسی بھی کوشش کو کمزوی گردانتی ہے۔ اس حوالے سے واشنگٹن نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی پر ”اطمینان“ کا اظہار تو کیا ہے مگر لہجے میں گرمجوشی کی ہلکی سی رمق بھی نہیں۔

باقی ساری دنیا ریاض و تہران کے مابین کشیدگی ختم ہونے کی اس امید افزا خبر پر مسرور نظر آرہی ہے۔ ہمیں اس معاہدے پر چینی وزیر خارجہ کا یہ ایک سطری تبصرہ بہت پسند آیا:

”یہ بات چیت کی جیت، امن کی فتح اور ایسے وقت میں اہم خوش خبری ہے جب دنیا انتشار کا شکار ہے۔“
……………….
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔