موسم سرما کے اختتام پر بہار کی رنگینیاں ہر سو پھیل جاتی ہیں۔ سر سبز و شاداب کھیت، پھولوں اور شگوفوں سے لدے پودے اور درخت سماں باندھ دیتے ہیں۔ ہرکوئی ان قدرتی مناظر میں کھو سا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رنگ برنگی اس تخلیقی قدرت پر دم بخود ہو جاتا ہے۔ معاً خیال آتا ہے کہ انسانوں میں بھی اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جن کی ہمہ وقت مسکراہٹ و خندہ پیشانی،محبت و الفت، چاہت و شفقت،عجز و انکسار اور خلقِ خدا کی خدمت کے سلسلے میں لگن دیکھ کر خدا یاد آ جاتا ہے۔ایسے ہی2015 ء کا موسم بہار جب اپنے جوبن پر تھا توتحریک اسلامی کے عظیم راہنما ڈاکٹر سید احسان اللہ، اللہ تعالیٰ کے بلاوے پراپنے عزیز و اقارب اور تحریکی رفقاء کوافسردہ و غمگین چھوڑ کرعدم کو سدھار گئے۔ انہیں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے آٹھ سال بیت چکے ہیں مگر ان کی شخصیت کی خوشبو آج بھی اسی طرح ترو تازہ ہے۔
ڈاکٹر سید احسان اللہ شہید کی زندگی کا ہر پہلو منفرد، مثالی اور قابلِ تقلید ہے۔ عجز و انکسار، غریب پروری اور غلبہ دین کی جدوجہد میں ہمہ وقت مشغولیت ان کی زندگی کی نمایاں پہچان بن چکی تھی۔ان کی زندگی کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میںسےچند کا تذکرہ ان کی زندگی کے بارے ادارہ معارف اسلامی لاہور کی جانب سے چھپی کتاب” ڈاکٹر سید احسان اللہ شہید، حیات و خدمات“میں موجود ہے جو ان کی زندگی کی محض ایک جھلک ہے، جبکہ مذکورہ بالاعادات و صفات تو ان کی زندگی کا جزو لاینفک تھی جن کا صدور ہر لمحہ ہوتا رہتا تھا۔
ایسے ہی ایک موقع پر جب وہ اپنے ہسپتال(عبداللہ ہسپتال، لالہ موسیٰ) میں مریض چیک کررہے تھے توایک نوجوان اپنی بوڑھی والدہ کو چیک کروانے لایا۔ ڈاکٹر صاحب جب ان خاتون کو چیک کررہے تھے تو معاً ان کی نظر کمرے کے دروازےپر پڑے خاتون کے جوتوں پر پڑی جو وہ ڈاکٹر صاحب کے کمرے کی صفائی ستھرائی دیکھتے ہوئے اپنے دیہاتی پس منظر کی وجہ سے باہر ہی اتار آئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب فوراً اٹھے اور جا کر ان کے جوتے اٹھا لائے اور انہیں پہناتے ہوئے کہا ” اماں جی آپ نے جوتے کیوں اتارے ہیں؟دیکھیں ہم سب اپنے جوتے پہنے ہوئے ہیں “۔ اسی اثناء میں خاتون کے بیٹے نے لپک کر ڈاکٹر صاحب سے جوتے لینا چاہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ” چھوڑئیے، کوئی بات نہیں، آخر یہ میری بھی تو ماں ہی ہیں “۔ اسی طرح جماعت کے کسی پروگرام کے سلسلے میں مریضوں کو چیک کرنے کے بعدجب نکل رہے ہوتے تو عین دروازے پر کسی اورمریض سے آمنا سامنا ہوجاتا تو جلدی کے باوجود اس خیال سے لوٹ آتے کہ یہ بیچارہ پتا نہیں کس مشکل سے یہاں پہنچا ہے، لہٰذااسے انتظار کی مشقت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے پروگرامات میں بعض اوقات دیر سے پہنچتے،لیکن ان کی اس عادت و مجبوری سے مرکزی قائدین تک آگاہ تھے اور بخوشی اس سے صرف ِنظر کرتے۔
ہسپتال ہو یا جماعت کا دفتر.. جب ڈاکٹر صاحب آتےتو اُن کے ماتحت کام کرنے والوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے،کیونکہ ان کارویہ تحکمانہ کے بجائے ہمیشہ مشفقانہ تھا۔ اگر کبھی تھوڑا سنجیدہ ہوکر کسی کو اس کی کسی کوتاہی و سستی کی طرف متوجہ کرتے بھی تو کچھ ہی دیر بعد اسے کھانے یا چائے میں اپنے ساتھ شریک کر لیتے تاکہ سنجیدگی کا تاثر زائل ہوجائے۔ ویسے بھی جب کبھی کسی چیز کو اپنی جگہ سے ہٹا دیکھتے تو کسی کو کہنے کے بجائے آگے بڑھ کر خود ٹھیک کردیتے، یہاں تک کہ بعض اوقات تو اپنے دفتر میں ڈسٹنگ(dusting)تک خود کر لیتے۔ ارکان و کارکنان کے ساتھ توان کا رویہ الفت و محبت کا تھا ہی، عام لوگوں سے بھی وہ بڑی اپنائیت سے ملتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی میں اُن سےکسی کی ایک بار ہی ملاقات ہوئی لیکن وہ ان کا گرویدہ ہوگیا۔ وہ ہر کسی کا ٹیلیفون نمبر نوٹ کرلیتے اور لوگوں سے رابطہ رکھتے۔ اگر کہیں آ جا رہے ہوتے تو راستے میں واقع قصبات و دیہات کے رہنے والے جماعت کے ارکان و کارکنان سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے ان کی خیر یت،حالات و واقعات اور جماعت کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرتے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر ہر کسی نے ایسا دکھ محسوس کیا گویا کہ اس کاکوئی بہت ہی قریبی عزیز اس سے جد ا ہوا ہو۔
ڈاکٹر صاحب حد درجہ غریب پرور تھے۔ مریض کو چیک کرتے وقت اس کی عام حالت کا اندازہ کرتے ہوئے اکثر و بیشتر نسخے والی پرچی کے کونے پر مخصوص نشان لگا دیتے جس پر اسے فیس کی ادائیگی کے بغیر دوائی بھی مفت مل جاتی۔ بعض مستحق مریضوں کے معاملے میں حسبِ معمول پرچی پر نشان لگانے کے علاوہ جب مریض دوائی لینے کاؤنٹر کی طرف بڑھتا توپرچی دوبارہ چیک کرنےکے بہانے ڈاکٹر صاحب بھی پیچھے پہنچ جاتے اور لوگوں کی نظر سے بچاتے ہوئے چپکے سے اسے کچھ نقد ی بھی تھما دیتے تاکہ وہ اپنی دیگر ضروریات بھی خرید سکے۔ ہسپتال میں مریضوں سمیت ہر جانے آنے والے کو موسم کے لحاظ چائے اور مشروب وغیرہ پیش کیے جاتے۔ بعض اوقات کئی دنوں تک ہسپتال میں داخل رہنے والے مریضوں سے بھی کچھ نہ لیا جاتا۔ اگر کوئی بعد میں ادائیگی کا کہہ دیتا تو اسے یاد تک نہ کرواتے۔گویا ڈاکٹر صاحب کا ہسپتال،ہسپتال کم اور رفاہی ادارہ زیادہ تھا۔ ایسے ہی ڈاکٹر صاحب کے ہسپتال کے سامنے سڑک کےکنارے ایک بوڑھا آدمی فروٹ کی ریڑھی لگاتا تھا۔ اکثر اوقات ڈاکٹر صاحب جب مغرب کی نماز کے بعد لوٹتے تو بالعموم اس کی ریڑھی پر پڑے فروٹ سے اندازہ لگا لیتے کہ آج اس کی بِکری کم ہوئی ہےتو اس کی مالی معاونت کے خیال سے اچھا خاصا فروٹ خرید لیتے اور ہسپتال کے اسٹاف اور وہاں موجود لوگوں میں تقسیم کردیتے۔
تحریکی جد وجہد تو گویا ان کی گھٹی میں پڑی تھی، ہر آن اسی فکر میں رہتے کہ کس طرح لوگوں تک جماعت کی دعوت پہنچائی جائے۔ ہسپتال میں مریض چیک کرتے ہوئے بھی جماعت کا لٹریچر تقسیم کررہے ہوتے۔ ہسپتال میں آئی دیہاتی اَن پڑھ عورتوں تک کو یہ کہتے ہوئے کوئی کتابچہ دے دیتے کہ گھر جا کر اپنے بچوں سے پڑھوا کر اس میں لکھی ہوئی باتیں سننا۔ دن کو ہسپتال کی مصروفیت ہوتی تھی ا س لئے نماز فجر کے بعد ہی ضلع بھر میں پہلے سےطے کردہ پروگرامات میں پہنچ جاتے اور اس طرح بہت سا تحریکی کام نپٹا لیتے، اور پھر مغرب کے بعد طے پروگراموں میں چلے جاتے۔ دیگر میٹنگز / اجلاس اور ملنے والوں کی غمی و خوشی میں شمولیت کے معاملات اس کے علاوہ تھے جن میں دن کو وقت نکال کر پہنچتے۔ ڈاکٹر صاحب نے تحریکی کاموں میں اپنے آپ کو بہت تھکایا۔ بعض اوقات دیکھا گیا کہ جب کہیں آتے جاتے راستے میں کسی مسجد میں نماز پڑھنے کو رکتے تو وہیں چند ساعتوں کے لئے لیٹ کر تھکاوٹ دور کرنے کی کوشش کرکے پھر اٹھ کھڑے ہوتے۔ یوں محسوس ہوتا گویا ان کے پاس کام بہت سارا ہے اور وقت نہایت کم! اور یہ بات تھی بھی سچ، کیونکہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کا بھاری بھرکم کام انہوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور وقت نہایت قلیل!
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی للہیت اورغلبہ دین کی جدوجہد کے سلسلے میں کی گئی محنت اور کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آ مین!