بیٹی مومنہ ناریجو! بھلا کوئی یوں بھی کرتا ہے!

اس سانحے کے پسِ پردہ محرکات، وجوہات اور مضمرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے

بہت سارے موضوعات ایسے ہیں جن پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک، دو نہیں بلکہ اَن گنت مسائل ہیں جنہوں نے ایک عام آدمی کی زندگی متاثر کرکے ایک طرح سے اُس کے لیے جینا محال کر ڈالا ہے۔ پہلے تو اکثر بڑی عمر کے افراد، مرد و خواتین کے بارے میں آئے دن اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے توسط سے خبریں سامنے آتی تھیں کہ انہوں نے حالات سے دل برداشتہ ہوکر، مہنگائی یا بے روزگاری سے تنگ آکر، مقروض یا بیمار ہونے کی وجہ سے عالمِ مایوسی میں خودکشی کرلی۔ لیکن اب اس تشویش ناک رجحان میں ایک اور الم ناک پہلو بھی در آیا ہے، اور وہ ہے کم عمر یا نوجوان بچے اور بچیوں کی جانب سے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا دِیا بجھانے کا بے حد دل گرفتہ کردینے والا رجحان۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب اس حوالے سے لرزہ دینے والی کوئی نہ کوئی خبر سامنے نہ آتی ہو۔ دیہی سندھ کے اکثر شہروں، قصبات اور دیہات کی عمومی زندگی میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی در آئی ہے جس کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کے خیالات اور رجحانات بھی لامحالہ متاثر ہوئے ہیں۔ بچے اور نوجوان اپنے والدین سے موٹر سائیکل، ٹچ موبائل یا اس طرح کی کسی اور قیمتی چیز لے کر دینے کا تقاضا کرتے ہیں جو شدید مہنگائی کی وجہ سے لے کر دینا ان کے والدین کی قوتِ خرید سے باہر ہوتا ہے، اور ان کی جانب سے انکار پر عالمِ جذبات اور ناراضی میں نوجوان بلکہ بچے بھی کوئی زہریلی چیز کھا کر، خود پر بندوق یا پستول کا فائر کرکے، یا خود اپنے گلے میں پھندا ڈال کر کسی درخت سے جھول کر اپنی قیمتی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا بے حد تشویش ناک اور پریشان کن نیا رجحان ہے جس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔

14 فروری 2023ء کو تمام سندھی اخبارات میں نمایاں طور پر ایک بے حد افسوس ناک خبر شائع ہوئی جسے سندھی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی بے حد اہمیت دی، اور اس الم ناک سانحے کی بازگشت تاحال سنائی دے رہی ہے اور اس پر تبصروں، تجزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ دل دہلا دینے والی خبر یہ تھی کہ قاسم آباد حیدرآباد کے ایک معروف اور بڑے تعلیمی ادارے سٹی اسکول کی چھٹی جماعت کی 12 سالہ طالبہ مومنہ ناریجو نے لنچ بریک کے وقت رش کے دوران دیکھتے ہی دیکھتے اسکول کی تیسری منزل کی دیواری حفاظتی گرل پر چڑھ کر اونچائی سے نیچے کود کر اپنی جان لے لی اور اپنے والدین، کلاس فیلوز اور رشتے داروں کو ہمیشہ کے لیے سوگوار اور افسردہ کر گئی۔

یہ ایک ایسی ہولناک اور دل دہلا دینے والی خبر تھی جسے قومی میڈیا نے تو زیادہ اہمیت نہیںدی البتہ سندھی میڈیا میں اس بارے میں ابھی تک تذکرہ جاری ہے۔ شاید ہم باہم کٹ گئے ہیں، بٹ گئے ہیں، ورنہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے جس کو ملک گیر سطح پر اہمیت ملنی چاہیے تھی۔ اس سانحے کے پسِ پردہ محرکات، وجوہات اور مضمرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا تاکہ آئندہ کوئی معصوم بچہ یا بچی عالمِ یاس میں اس نوع کا انتہائی قدم اٹھانے کا سوچتا بھی نہیں۔

محکمہ تعلیم سندھ نے حسبِ روایت اس سانحے کا ’’سخت نوٹس‘‘ لیتے ہوئے مذکورہ اسکول کی رجسٹریشن تو منسوخ کر دی ہے لیکن اس سانحے کے پسِ پردہ محرک یا اسباب کو جاننے کے لیے کوئی قدم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پولیس میں بھی اس سانحے کی ایف آئی درج کردی گئی تھی تاہم اس بارے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ معصوم مومنہ ناریجو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جس کے والد زمیندار ہیں۔ محمد قاسم ناریجو سب رجسٹرار بھی ہیں جن کے مطابق وہ اور ان کا خاندان تاحال اس اچانک رونما ہونے والے سانحے کے اثرات سے سنبھل نہیں پائے ہیں۔ اسکول انتظامیہ کے مطابق معصوم بچی مومنہ ناریجو ایک اوسط درجے کی طالبہ تھی اور تقریباً ہر سرگرمی میں جو اسکول میںہوا کرتی تھی، بڑے زور شور سے حصہ لیا کرتی تھی۔

سندھی اخبارات کے کالم نگاروں میں سے بیشتر نے معصوم بچی مومنہ ناریجو کی جانب سے خودکشی جیسے انتہائی قدم پر موردِ الزام ہمارے ہاں کے مروجہ نظامِ تعلیم، اسکول انتظامیہ، اسکول کے ماحول اور اس کے والدین کو ٹھیرایا ہے۔ ان کی رائے میں ہمارے تعلیمی ادارے معصوم بچوں کے لیے ایک طرح سے مقتل میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں ہر روز ان پر ذہنی تشدد ہوتا ہے، ان کی ذہنی صلاحیتوں کو تباہ اور ختم کرنے کا اہتمام بھاری فیس لے کر کیا جاتا ہے جسے ان کے والدین بہ خوشی ادا کرتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ معصوم بچوں کے رجحان، عمر، افتادِ طبع اور ذہنی استطاعت کو مدنظر رکھے بغیر غیر ملکی زبان یعنی انگریزی میں انہیں جو بھاری بھرکم اور غیر ضروری کتابیں پڑھائی بلکہ رٹائی جاتی ہیں وہ انہیں کس قدر پریشان اور متاثر کرتی ہیں۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے، اور دوسری جانب تعلیم کے نام پر تجارت کرنے والے نجی تعلیمی ادارے ہیں جو بھاری بھرکم فیس ہر ماہ وصول کرکے بے حد مہنگی کتابیں بزبانِ انگریزی معصوم بچوں کو زبردستی بغیر سمجھے رٹواتے ہیں۔

حیدرآباد کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں 12 سالہ مومنہ ناریجو کی جانب سے خودکشی جیسے انتہائی قدم کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ایک سندھی اخبار میں چھپنے والی خبر کے مطابق اسکول میں بچی کو کمپیوٹر بھی سکھایا جاتا تھا، اسے گھر کے لیے اس حوالے سے کام بھی دیا جاتا تھا، اور مومنہ ناریجو کا لیپ ٹاپ گزشتہ کئی دن سے خراب تھا اور وہ اس پر اسکول سے دیا جانے والا کام نہیں کر پا رہی تھی جس کی وجہ سے شاید اسے مبینہ طور پر اسکول میں متعلقہ استاد کی ناراضی اور ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب معلوم نہیں اس حوالے سے چھپنے والی متواتر خبروں اور تجزیوں میں کس قدر حقیقت اور صداقت ہے؟ لیکن یہ تو ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں کے نجی تعلیمی ادارے، تعلیم بہم پہنچانے سے کہیں بڑھ کر روپے کمانے کی فیکٹریاں ہیں، جن کی جانب سے پڑھنے والے معصوم بچوںکے لیے بہت ساری غیر ضروری مہنگی کتب اور کاپیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ والدین کو متاثر کرنے کے لیے بچوں کو بہت زیادہ اور غیر ضروری حد تک ہوم ورک دیا جاتا ہے۔ کتابیں اور کاپیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کے بیگ کا وزن اٹھانا بچوں کے لیے بے حد مشکل ہوجاتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ انہیں اوپر کی کئی منازل کی سیڑھیاں بھی طے کرنا پڑتی ہیں۔ بھاری بھرکم فیس وصول کرنے والے نجی تعلمی ادارے اپنےاساتذہ کو بے حد قلیل ماہانہ تنخواہ ادا کرتے ہیں۔ بچوں کی کونسلنگ یا ان کے ذہنی طور پر ڈسٹرب ہونے کے حوالے سے بطور اصلاح قدم اٹھانے کا کوئی تصور تک نہیں پایا جاتا۔ مومنہ ناریجو نے مایوسی کے عالم میں دیکھتے ہی دیکھتے اسکول کی تیسری منزل سے کود کر خودکشی جیسا انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟ اتنے معروف اسکول میں اتنے ناقص حفاظتی اقدامات کیوں تھے؟ بہت سارے بڑے بڑے سوالات ہیں، ان کا جواب کون دے گا؟ کب دے گا؟ بچوں کو ابتدائی تعلیم کم از کم ان کی مادری زبان اردو یا سندھی میں دی جائے تاکہ وہ جو پڑھیں اسے باآسانی سمجھ بھی سکیں۔