سیکھنے کی باتیں

ٍپاکستانی معاشرے کو بڑوں کے بڑپّن کی اشد ضرورت ہے

معاشروں کی نمایاں ترین خصوصیت تبدیلیوں سے گزرتے رہنا اور تبدیل ہوتے رہنا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت تبدیلیوں کے ذریعے دیتا ہے۔ تبدیلی سے بڑی آفاقی حقیقت کوئی نہیں۔ ہم جس کائنات کا حصہ ہیں اُس میں سبھی کچھ ہر آن بدل رہا ہے۔ اگر تبدیلی نہ ہو تو ارتقائی عمل رُک جائے، جو چیز جیسی ہے ویسی ہی رہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کی ساری نیرنگی اور رنگینی ختم ہوجائے۔

ہر معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اُن کے نتیجے میں پانسے پلٹتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی کے لیے یکسر موافق حالات پیدا ہوجاتے ہیں اور کبھی سب کچھ ہاتھ سے جاتا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ چونکہ فطری ہے اس لیے لوگ یا تو محسوس ہی نہیں کرتے، یا پھر شدت سے محسوس نہیں کرتے۔

تبدیلیاں کسی کو ناکامی سے دوچار کرتی ہیں تو کسی کو بھرپور کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ عمل متواتر ہے، یعنی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، معاشرے کی یہ خصوصیت برقرار رہتی ہے۔ ہر عہد کے انسان کو ایسے ہی ماحول میں جینا پڑا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ فی زمانہ بہت کچھ چونکہ بہت تیزی سے بدل جاتا ہے اس لیے معاملات کو سمجھنے کے لیے ذہن کے گھوڑے دوڑانے پڑتے ہیں۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کو محض دیکھ کر نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ اُسے بھانپنا بھی پڑتا ہے، یعنی اُس کے واقع ہونے سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ اندازہ لگانا پڑتا ہے۔ اگر کسی کو کامیاب ہونا ہے تو معاملات کو بھانپنے کی صلاحیت محض پیدا نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اُس میں مہارت بھی یقینی بنانا ہوگی۔ اگر کسی تبدیلی کا تقریباً درست ترین اندازہ لگالیا جائے تو بہت سے معاملات کو خرابی سے بچانا ممکن ہوجاتا ہے۔

زندگی کا عملی پہلو سفاک ہے نہ رحم دل۔ وہ یکسر غیر جانب دار ہے۔ عملی زندگی یعنی معاشی عمل۔ ہم کسی نہ کسی معاوضے کے حصول کی خاطر جو کچھ کرتے ہیں وہ ہمارے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ اُس سے مقصدیت جُڑی ہوئی ہے۔ ہر انسان کو جینے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے اور ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ماحول، معاشرے اور کائنات کا یہ اصول سب پر منطبق ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اُس سے کوئی زیادتی کی جارہی ہے یا اُسے بعض معاملات میں نظرانداز کیا جارہا ہے۔

آج کی دنیا قدم قدم پر مسابقت کا سامان کرتی ہے۔ عمومی سطح پر جینا کبھی کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ ہزاروں سال پہلے بھی انسان چاہتا تو اچھی زندگی اپناتا، اور چاہتا تو عمومی سطح پر زندگی بسر کرتا۔ اور ایسا ہوتا بھی رہا۔ محض گزارے کی سطح پر جینے کا آپشن انسان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہاں، اِس آپشن میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں اُن سے صرفِ نظر کو حماقت ہی گردانا جائے گا۔ اس حقیقت پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ عمومی سطح پر لگے بندھے انداز سے جینے کا نام زندگی نہیں۔ زندگی تو مہم جُوئی کا نام ہے۔ بھرپور صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے لیے کبھی کبھی جوکھم اٹھانا پڑتا ہے، خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ غیر معمولی کامیابی خطرہ مول لینے ہی سے یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ زندگی کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ ہمیں کچھ پانے کے لیے کچھ دینا پڑتا ہے۔ اس معاملے کی کوئی بھی شکل ہوسکتی ہے۔ لازم نہیں کہ ہر جگہ صرف زر ہی کارگر ہو۔ انسان کی صلاحیتیں بھی لین دین میں کام آتی ہیں۔ کبھی کبھی انسان زر نہیں چاہتا بلکہ کسی اور شکل میں معاوضہ پانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ کبھی کبھی زندگی زر کی شکل میں معاوضہ نہیں دیتی مگر جو کچھ دیتی ہے اُس سے زندگی کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔

کسی بھی معاشرے میں امیدوں کا حقیقی مرکز و محور نوجوان ہوتے ہیں۔ نوجوانوں ہی سے یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک و قوم یا معاشرے کے لیے کچھ ایسا کریں گے جو اُنہیں بھی بلندی عطا کرے اور دوسروں کی دل بستگی کا بھی سامان کرے۔ نوجوان ہی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو اُن کے ذہنوں میں پنپ رہا ہوتا ہے۔ نئی نسل کی موزوں راہ نمائی کی جائے تو معاشرہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ نئی نسل کی راہ نمائی کس طور کی جائے؟ کسی بھی معاشرے میں درجنوں شعبے نمایاں ہوتے ہیں۔ بالکل سطحی نوعیت کے شعبوں میں گزاری جانے والی معاشی زندگی کو کیریئر نہیں کہا جاسکتا۔ ٹیکسی یا ٹرک کی ڈرائیونگ کسی بھی درجے میں کیریئر نہیں، کیونکہ اِس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ اگر کسی کو کچھ کرنا ہے تو شعبے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ آنکھیں بند کرکے، سرسری طور پر کسی شعبے کو کیریئر نہیں بنایا جاسکتا۔ کسی بھی نمایاں شعبے میں کیریئر بنانا خاصا جاں فشانی کا کام ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی نے کچھ بننے کا سوچا اور کچھ خاص محنت کیے بغیر بن گیا۔ اگر ایسا ہوا کرتا تو پھر سوچنا اور رونا کس بات کا تھا!

نئی نسل کیریئر کے انتخاب کے معاملے میں بالعموم جذباتیت کی لہروں میں بہتی جاتی ہے۔ جن شعبوں میں شہرت زیادہ ملے وہ زیادہ پُرکشش محسوس ہوتے ہیں۔ نئی نسل ایسے شعبوں کی طرف زیادہ تیزی سے لپکتی ہے۔ اس معاملے میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ رُجحان ہے بھی یا نہیں، کام کرنے کی لگن پائی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ کیریئر کے انتخاب میں جذباتیت نہیں چل سکتی۔ یہ بہت سوچ سمجھ کر کرنے والا کام ہے۔ اس معاملے میں راہ نمائی، بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ کی جانے والی تربیت کی بہت اہمیت ہے۔ ایک چیز ہے کوچنگ اور دوسری چیز ہے مینٹورنگ۔ کسی نوجوان کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں یہ دونوں باتیں بہت اہم ہیں۔ فی زمانہ مخلص اُستاد مشکل سے ملتا ہے۔ سبھی زر کے تعاقب میں ہیں۔ جنہیں معاشرے کو راہ دکھانا ہے وہ بھی مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔

اہلِ علم و فن کا بنیادی فریضہ عمومی سطح پر قوم کو اور خصوصی سطح پر نوجوانوں کو راہ دکھانا ہے۔ وہ اپنے تجربے کی روشنی میں نئی نسل کو سمجھاتے ہیں کہ فلاں راہ پر چلنے سے نقصان پہنچے گا اور فلاں ڈگر پر چلتے چلے جاؤگے تو کامیابی تک زیادہ تیزی سے پہنچوگے۔ المیہ یہ ہے کہ جن سے راہ نمائی کی توقع کی جاتی ہے وہ خالص مادّہ پرست ذہنیت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ اہلِ دانش قوم کو راہ دکھاتے تھے، نئی نسل کی راہ نمائی کرتے تھے، اُسے کامیابی تک تیزی سے پہنچنے میں مدد دیتے تھے، اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ قوم کے بہترین انسانی وسائل ضایع نہ ہوں۔

مغرب نے اس معاملے میں ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے۔ وہاں ڈھائی تین سو سال کے عرصے میں ایسے کئی رجحانات پروان چڑھے ہیں جن کے دم سے غیر معمولی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مغربی معاشروں میں پروان چڑھنے والا ایک شاندار رجحان یہ ہے کہ کامیاب ترین افراد اپنے آپ کو الگ تھلگ نہیں رکھتے۔ ڈھائی تین سو سال کے دوران مغرب میں ہر شعبے کے نمایاں ترین افراد نے اپنی صلاحیت و سکت کو بیان کرنے، کامیابی کی طرف بڑھنے کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی بیان کرنے اور دوسروں کو بھی کچھ کرنے کی بھرپور تحریک دینے میں کبھی بُخل سے کام نہیں لیا۔ وہاں کامیاب ترین افراد چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی کامیابی نصیب ہو۔ وہ جتنی محنت کرکے آگے آتے ہیں دوسروں کو بھی اُتنی ہی محنت کرنے کی تحریک دیتے ہیں تاکہ اُنہیں بھی زندگی کو مقصدیت اور معنویت سے ہم کنار کرنے کا موقع ملے۔

یہ بہت ’’دل، گُردے‘‘ کی بات ہے کہ کوئی بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعد بھی اپنے دل و دماغ کو قابو میں رکھے اور اُن کی طرف متوجہ ہو جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں یا پھر دوڑ میں شریک ہونے کی تیاری نہیں کر پارہے۔ ایک زمانے سے مغرب میں عمومی رجحان یہ ہے کہ انتہائی کامیاب افراد اپنے آپ کو معاشرے کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ذرا سی کامیابی ملنے کی صورت میں لوگوں کے کالر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ اگر کسی کے پاس فن ہے تو اُس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور وہ سارا فن اپنے ساتھ قبر میں لے جائے، کسی کو کچھ نہ دے۔ کوئی کاروباری شخصیت زیادہ کامیاب ہوگئی ہے تو لوگوں سے ملنا جلنا ترک کردیتی ہے تاکہ ’’ٹریڈ سیکریٹ‘‘ محفوظ رکھے جاسکیں۔ شوبز سے وابستہ شخصیات اپنے آپ کو خاص طور پر عوام سے دور رکھتی ہیں۔ سارا زور صرف کمانے پر ہوتا ہے۔ کسی کے لیے تحریک بننے کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔

بعض شعبوں میں ذہن کی بلندی نہیں پائی جاتی۔ کاروباری دنیا کا یہی معاملہ ہے۔ بہت سے پیشوں کا بھی یہی حال ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ جن کا کام ہی دانش بانٹنا اور لوگوں کی ذہنی سطح بلند کرنا ہے وہ بھی پست ذہنیت کے ساتھ جی رہے ہیں۔ اہلِ دانش کا بنیادی کام یا فریضہ معاشرے کو راہ دکھانا ہوتا ہے۔ یہاں تو اہلِ دانش بھی اپنی اپنی تجوری بھرنے میں مصروف ہیں۔ عام آدمی صرف دولت کے پیچھے بھاگتا پھرے تو اِس میں حیرت کی کوئی بات ہے نہ افسوس کی، مگر جن کا کام ہی سطحی زندگی سے بلند ہوکر لوگوں کو بلندی کی طرف مائل ہونے کی تحریک دینا ہے وہ بھی اگر ہوسِ زر کے دائرے سے نہ نکل پائیں تو؟ یہ تو سمجھیں معاشرے کی موت کا سامان ہوا۔

آج کی دنیا صرف اور صرف مسابقت سے عبارت ہے۔ مغربی معاشروں نے ہمیں سکھایا ہے کہ اگر دنیا میں کچھ پانا ہے تو مل بانٹ کر کھانا ہوگا، ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔ آج مغرب میں کامیاب ترین افراد اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنے کی ذہنیت سے یکسر عاری ہیں۔ وہ معاشرے میں یوں رہتے ہیں گویا انہوں نے کوئی تیر نہ مارا ہو۔ ہر شعبے کے کامیاب ترین افراد عام آدمی کی طرح جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کی بنیادی منطق یہ ہے کہ عام آدمی کو بھی کچھ زیادہ کرنے کی تحریک ملے اور وہ کامیاب ترین افراد سے بہت کچھ سیکھے۔ اہلِ علم اپنے آپ کو عوام سے دور نہیں رکھتے۔ وہ ایسی محفلوں کا حصہ ہوتے ہیں جن میں کوئی بھی شریک ہوسکتا ہے۔ وہ نئی نسل کی خاص طور پر راہ نمائی کرتے ہیں۔ اُن کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ کامیابی کے نتیجے میں ملنے والی شہرت کو کسی بھی طور ایک خاص حد سے بڑھنے نہ دیں اور اُس شہرت کے ذریعے کسی کو نیچا نہ دکھائیں۔ مغرب کے کامیاب ترین افراد میں شعور پایا جاتا ہے، غرور نہیں۔ وہ کسی بھی بات پر گھمنڈ نہیں کرتے اور کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ توجہ سکھانے پر رہتی ہے۔ شعوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے گھبرانے یا بدکنے کے بجائے اُن تک آئیں، اپنی مشکل بیان کریں، مشورہ چاہیں، کیریئر کے حوالے سے راہ نمائی پائیں اور بھرپور زندگی کی طرف جائیں۔

وارن بفیٹ، بل گیٹس، ایلون مسک، ٹونی رابنز، جم ران، جیف بیزوز اور دوسری نمایاں ترین شخصیات اپنے آپ کو سات پردوں میں رکھنے کی قائل نہیں، اور عوام کو دور رکھنے پر بھی یقین نہیں رکھتیں۔ ہمارے خطے کا کلچر اب تک وہی ہے کہ جو کامیاب ہوگیا وہ سب کو پست سمجھنے لگتا ہے اور ملنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ہم اپنے معاشرے ہی کی مثال لیں۔ ہمارے ہاں نمایاں ترین شخصیات صرف کمانے میں مصروف رہتی ہیں۔ اُنہیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ اُن سے کسی کو کچھ مل بھی رہا ہے یا نہیں۔ کاروباری شخصیات عوام میں آنا پسند نہیں کرتیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو دیکھ کر لوگ مرعوب ہو جاتے ہیں اور اُن کے نزدیک جانے کی ہمت ہی اُن میں پیدا نہیں ہوتی۔

شوبز کی بیشتر نامور شخصیات عوام سے میل جول پسند نہیں کرتیں۔ اُنہیں دیکھ کر لوگ تیزی سے جمع ہوجاتے ہیں۔ پرستاروں کے ہاتھوں اُنہیں الجھن کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر پھر بھی اُنہیں نئی نسل کے لیے تحریک و تحرک کا ذریعہ تو بننا ہی چاہیے۔ طلبہ کو کامیاب ترین شخصیات بہت کچھ بتا سکتی ہیں، سکھا سکتی ہیں۔ اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی کے گھر کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے تھے۔ یہی حال سلیم احمد مرحوم کا بھی تھا۔ چند ایک دوسری شخصیات بھی اپنے گھر میں لوگوں کو بلانا، بٹھانا، بات کرنا اور اُن کی سننا پسند کرتی تھیں۔ نئی نسل کو ایسے ماحول میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ وہ اپنے مسائل بیان کرتی تھی، حل طلب کرتی تھی، اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے مشاورت کرتی تھی۔ کسی زمانے میں علوم و فنون کے لوگ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ وہ نئی نسل کو سکھانے پر یقین رکھتے تھے تاکہ شعبہ مضبوط ہو، اِس میں نئے اور جوان خون کی آمد جاری رہے۔ یہی حال اساتذہ کا بھی تھا۔ وہ اپنے فن کو شعبدہ گری نہیں سمجھتے تھے۔ علم و فن کو وہ نئی نسل تک منتقل کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ یہ بڑپّن معاشرے کو توانا رکھتا تھا۔

آج پاکستانی معاشرے کو بڑوں کے بڑپّن کی اشد ضرورت ہے۔ ہر شعبے کے کامیاب ترین افراد کو آگے بڑھ کر نئی نسل کی راہ نمائی کرنی چاہیے، اُس کی پیٹھ تھپتھپانی چاہیے۔ مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں نئی نسل حوصلہ افزائی اور قدر دانی کی منتظر رہتی ہے۔ وہ اخلاص سے پُر ستائش کے چند بول سننا چاہتی ہے۔ اِتنا سا بڑپّن بھی جادو جگا سکتا ہے۔