غیر قانونی اور جبری تارکین وطن برطانیہ کی نئی قانون سازی

روانڈ، برطانیہ کی نئی سمندر پار جیل

برطانوی حکومت نے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف ایک بار پھر بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی بھی کی جائے گی۔ امید ہے اس قانون کا نیا مسودہ اسی ماہ پارلیمان میں پیش کردیا جائے گا۔ برطانیہ اس وقت شدید ترین معاشی مشکلات کا شکار ہے، پورے یورپ کی بدترین کساد بازاری اور مہنگائی اس وقت برطانیہ کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، حکومت اس سے نمٹنے میں مصروف ہے، جبکہ دوسری جانب افغانستان سے ایک بڑی تعداد سیاسی پناہ کے لیے کئی خاندان برطانیہ میں تقریباً دو سال سے قیام پذیر تھے کہ اب یوکرین کی جنگ کے بعد مہاجرین کی ایک مزید تعداد نے برطانیہ کا رخ کیا ہے، اور اس کو بھی اب ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ مہاجرین کی اس تعداد کے علاؤہ ہر سال 60 ہزار سے زائد افراد غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوتے ہیں جس کے لیے وہ سمندر کے راستے اختیار کرتے ہیں۔ اس سال 2023ء میں یہ تعداد 65 ہزار کے قریب رہنے کا امکان ہے۔ حکومت، بارڈر سیکورٹی فورس اور میری ٹائم ایجنسی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود سمندر میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخلے کو نہیں روکا جاسکا ہے۔ اس کے لیے فرانس کا سمندری راستہ استعمال ہوتا ہے، اور فرانسیسی حکومت بھی اس معاملے میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ مہاجرین کونسل کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں سمندری راستے سے برطانیہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں میں سے صرف ایک تہائی کو ہی سیاسی پناہ دی گئی ہے۔ سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں میں حیرت انگیز طور پر نصف سے زائد تعداد مسلم ممالک افغانستان، ایران، سوڈان اور مصر کے افراد کی ہے۔

برطانوی حکومت کی مجوزہ نئی قانون سازی کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کو 28 دن کے بجائے اب کم از کم 6 ماہ قید میں گزارنے ہوں گے۔ جبکہ اس قانون کا اطلاق اب 18 سال سے کم عمر افراد پر بھی یکساں طور پر ہوگا۔ ان افراد کو واپس اُن کے ملک بھیجنے یا کسی تیسرے ملک بھیجنے میں حکومت مکمل آزاد ہوگی۔ یاد رہے اس سے قبل سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور ان کی وزیر داخلہ تھریسا مے بھی اس سے ملتا جلتا ایک قانون پارلیمان سے گو کہ شدید تنقید کے بعد پاس کروانے میں تو کامیاب ہوگئے تھے لیکن 14 جون 2022ء کو روانڈا کی پہلی پرواز سے محض 12 گھنٹے قبل انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے اس پر عمل درآمد کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے کر روک دیا تھا۔ تاہم حکومت نے اُس وقت بھی اس پر کام کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔ اِس وقت برطانیہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 27,100 ہے جوکہ پوری دنیا میں جبری بے دخل کیے گئے یا وطن چھوڑنے پر مجبور کیے گئے افراد کی تعداد کا محض ایک فیصد ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے بعد سے 6.8 ملین افراد کا انخلا ہوا جس میں ترکی نے سب سے زیادہ افراد کو بطور مہاجر قبول کیا، اور صرف ایک سال میں ترکی نے 3.7 ملین شامی مہاجرین کو اپنا مہمان بنایا ہے۔ رفیوجی کونسل کے اعداد وشمار کے مطابق المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اپنے وطن کو چھوڑنے والے افراد کی کُل تعداد کا 42 فیصد بچوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دائر کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سترہ ہزار سے زائد ہے کہ جن کی درخواستیں ابھی تک فیصلے کی منتظر ہیں۔ اس کی وجہ سے ان افراد کی حیثیت ایک اچھے درجے کے قیدی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

دنیا بھر کو آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کا سبق دینے والے برطانیہ میں اس وقت انسانی حقوق کی صورت حال یہ ہے کہ ان کی اپنی سرزمین پر 18 سال سے کم عمر فرد بچہ ہے جس پر ریاست کے بہت سے قوانین برائے سنگین جرائم کا اطلاق نہیں ہوتا اور ان کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی اعلیٰ ترین مثال یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں ہم جنس پرستی کے حوالے سے قانون سازی کو حکومت ِبرطانیہ نے اس لیے روک دیا تھا کیونکہ وہ جنس کی شناخت یا خود شناسیِ جنس کے لیے عمر کی حد کو 18 سال سے کم کرکے 16 سال کررہے تھے۔ برطانوی حکومت کا یہ کہنا تھا کہ جنس یا فرد کے حوالےسے کسی بھی قانون کا اطلاق کسی بچے یعنی 18 سال سے کم عمر پر نہیں کیا جاسکتا۔ اب غیر قانونی تارکین وطن کے اصول بچوں پر بھی لاگو کرکے ان کو روانڈا بھیج دیا جائے گا یا پھر غیر معینہ مدت تک قید، اور سیاسی پناہ کی کسی بھی درخواست کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا جائے گا۔ اس وقت پوری دنیا میں جو قتل و غارت گری ہے اس کے ڈانڈے بھی دنیا کی بڑی طاقتوں سے ہی جاکر ملتے ہیں۔ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا جھوٹ ہو یا پھر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے کی سازش کا چند گھنٹوں میں بغیر کسی ٹرائل کے فیصلہ سنادینا ..اس میں امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں براہِ راست ملوث ہیں کہ جن کی وجہ سے قتل و غارت، بھوک و افلاس کی وجہ سے لوگ اپنے وطن اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ اور ان ٹھوکروں کی وجہ جو طاقتیں ہیں وہ ان افراد کا محض ایک فیصد بھی اپنے وطن میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اگر یہ طاقتیں ہر سال ہزاروں افراد کو اپنی معیشت مستحکم کرنے اور اس کا حجم بڑھانے کے لیے اپنے پاس بلاتی ہیں تو یہ بھی ان کا اخلاقی و انسانی فرض ہے کہ دنیا میں کمزور اور بھوک و افلاس کا شکار افراد و ممالک کو کوئی مدد فراہم کریں، لیکن اس کے برعکس اب ان غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا جیسے افریقی ملک میں بطور سزا بھیجا جارہا ہے۔ یہ برطانیہ کی کوئی پہلی سمندر پار جیل نہیں بلکہ اس سے قبل برصغیر پاک و ہند کے سیاسی اکابرین کو بھی برطانوی حکومت سے غداری کے الزامات کے تحت جزائر انڈمان میں قید کیا جاتا رہا ہے، جن میں سے کئی تو جان کی بازی بھی قید خانے میں ہار گئے تھے۔ اسی طرح امریکہ نے گوانتاناموبے کا استعمال کیا جہاں بغیر امریکی قانون کے اطلاق کے ان بے گناہ افراد کو بغیر کسی سزا کے قید رکھا جاسکے۔

برطانیہ میں گوکہ مختصر سے عرصے میں تین وزرائے اعظم تبدیل ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی حکومتی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ اس متنازع قانون پر خود حکمران کنزرویٹو پارٹی میں تقسیم موجود ہے، لیکن ماضی میں بھی اس تقسیم کے باوجود قانون سازی بہرحال مکمل ہوگئی تھی۔ اس وقت برطانیہ کو درپیش شدید معاشی دباؤ کو بنیاد بناکر ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ بھی قانون سازی کرلی جائے، لیکن اگر ہم برطانوی حکومت کے بجٹ کے اعداد وشمار کو دیکھیں تو سال 2021ء میں برطانوی بجٹ کا کُل حجم 2.098 ٹریلین برطانوی پائونڈ تھا اور برطانوی حکومت نے سال 2021ء میں غیر قانونی تارکین وطن پر جو رقم خرچ کی وہ 898 ملین پاؤنڈ تھی جبکہ برطانیہ میں ایک ہائی اسپیڈ ٹرین HS2 جوکہ لندن سے دیگر شہروں کو ملائے گی، کا بجٹ پروجیکٹ شروع ہونے کے وقت 33 ارب برطانوی پائونڈ تھا جو کہ اب تین گنا سے بھی زائد بڑھ کر 100 ارب برطانوی پائونڈ تک پہنچ چکا ہے۔

دنیا بھر کو انسانی حقوق اور بنیادی انسانی اخلاقیات کا سبق سکھانے والوں کے لیے سارے حقوق صرف اُن کے زیر نگیں علاقوں میں بسنے والوں کے لیے کسی حد تک ہیں اور باقی دنیا میں رہنے بسنے والے تو شاید ان کے نزدیک انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا سے ترکِ وطن کرنے والوں کو اس سے بھی بدتر جگہ بھیجا جارہا ہے جبکہ اپنے لیے مختص رقوم میں کوئی بھی ایثار کو تیار نہیں۔ مغرب اور اسلام کی بنیادی اخلاقیات میں جوہری فرق دراصل مادے کا ہی ہے۔ مغرب اپنے زائد از ضرورت میں سے بھی ایثار کرنے کو تیار نہیں جبکہ اسلام کے اسلامی و انسانی حقوق میں مواخات کا باب انسانی تاریخ کی درخشاں مثال ہے۔ مغرب اپنی حشر سامانیوں اور قتل و غارت گری سے لے کر ماحول کو نقصان پہنچانے تک سب جرائم میں ملوث ہے، اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ تباہی کا بھی براہِ راست ذمہ دار ہے۔ لہٰذا انسانی حقوق کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں قدرتی آفات اور انسانوں کی پھیلائی گئی ماحولیاتی و ملکی تباہیوں کے شکار افراد کو مغرب کے وسائل پر ان کے باشندوں جیسے حقوق دیے جائیں، ورنہ محض قانون سازی سے تباہی کا شکار ہونے والے نہ کبھی رکے ہیں اور نہ آئندہ کبھی اور رکیں گے۔ اگر ان کے قانونی راستے مسدود کیے گئے تو وہ ان ممالک میں نہ صرف مزید غیر قانونی راستوں سے آئیں گے بلکہ ان کے ممنونِ احسان ہونے کے بجائے انتقام کی آگ میں جل کر نہ جانے کیا کیا جلائیں گے۔ مغرب اگر سکون چاہتا ہے تو وہ نہ صرف انسانی حقوق کا احترام کرے بلکہ اپنی غلط کاریوں پر کھلے دل کے ساتھ معافی بھی مانگے، ورنہ مغرب کی معیشت کے بکھرنے کے ساتھ مغرب کی انسانی اخلاقیات بھی انسانی جرائم کے پلڑے میں ہی تولی جائیں گی۔ کیونکہ انسانیت کسی رنگ، نسل، زبان و مذھب سے بلند تر شے ہے اور اس کا احترام لازمی ہے۔